بحران ٹل گیا!

بارے خیریت رہی۔ 27نومبر کی رات گزر گئی۔ کس قیامت کی رات تھی، بیم و رجا کا کھیل تھا، ناموسِ جان و دل کی بازی لگی تھی۔ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت۔ ہماری تاریخ میں ایسی بہت سی راتیں گزریں جب آنکھیں روزن دیوار زنداں ہو گئیں۔

یہ روزن کی سہولت بھی مرزا غالب کو دلّی میں میسر تھی۔ ہمارا احوال بیان کرتے ہوئے تو شاعر نے لکھا ’فیض نہ ہم یوسف، نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے‘۔ ہمارا انجام تو ڈاکٹر احسن اختر کی زین غزل میں بیان ہوا، ’آنکھ نے جب بھی رستہ چاہا، پہنچی چھت کے جالے تک‘۔

ایسی ہی ایک رات 24 اکتوبر 1954 کو بھی گزری جب وزیر اعظم محمد علی بوگرہ، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی معیت میں امریکہ سے ملک واپس پہنچ رہے تھے۔

ایئر پورٹ پر وزیراعظم کو تحویل میں لے کر گورنر جنرل غلام محمد کے حضور پیش کیا گیا۔ چند گھنٹے بعد بوگرہ صاحب اس دیو محل سے برآمد ہوئے تو وہ دستور ساز اسمبلی تحلیل ہو چکی تھی جس کا افتتاح قائداعظم نے 11 اگست 1947ء کو کیا تھا۔

ایسی ہی ایک رات 25 مارچ 1971ء کو گزری جب صدر یحییٰ خان اور جناب بھٹو دو الگ الگ جہازوں میں ڈھاکا سے سری لنکا کے راستے کراچی کی جانب مائل بہ پرواز تھے۔

26مارچ کا لہو لہو اجالا نمودار ہوا تو جناب ٹکا خان نے ڈھاکا چھاؤنی میں اپنے دفتر کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر کہا ’آخاہ، کوئی بھی تو نہیں ہے‘۔ واقعی کوئی نہیں تھا۔

ڈھاکا یونیورسٹی ملبے کا ڈھیر تھی اور قائداعظم کا پاکستان نگاہوں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ ایسی ہی ایک رات 4جولائی 1977ء کی تھی جب وزیراعظم ہاؤس کے بڑے دروازے سے نکلتے ہوئے ایک موزوں طبع وزیر نے کہا تھا، آج کی رات جئیں گے تو سحر دیکھیں گے۔

ایسی ہی ایک رات 12اکتوبر 1999ء کو بھی اتری تھی جب محترم پرویز مشرف کا طیارہ سری لنکا سے محو پرواز ہوا۔ نصف شب کے قریب یہ دھاتی پرندہ بالآخر کراچی ایئر پورٹ پر اترا تو منتخب وزیراعظم زیر حراست تھے اور ساڑھے چودہ کروڑ مفتوح ہو چکے تھے۔ کیا خاک جیے کوئی، شب ایسی، سحر ایسی…

تاریخ ایسی تاریک ہو تو لکھنے والا حال کی خوش نصیبی پر کیوں نہ شاداں و فرحاں ہو۔ 28نومبر 2019ء کی صبح طلوع ہوئی تو مطلع صاف تھا۔ ادارے ایک صفحے پر تھے، ملک میں استحکام تھا۔ ملکی سرحدیں محفوظ تھیں۔ معیشت کے اشاریے اطمینان بخش رفتار سے بہتری کی طرف مائل بہ سفر تھے۔ محب وطن قوتیں کامران ہوئیں، بدخواہوں کو منہ کی کھانا پڑی۔ دلائل و براہین کی اس تین روزہ مشق سے تین بامعنی نتائج برآمد ہوئے۔

اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سرگرم ان مافیاز کو شکست ہوئی جنہوں نے نامعلوم سازش کی مدد سے قانونی اور آئینی بحران برپا کیا تھا تاکہ اپنی لوٹی ہوئی دولت کو تحفظ دیا جا سکے۔ میڈیا کے ان غیر ذمہ دار عناصر کی نشاندہی ہو گئی جو ملک و قوم پر نازک وقت آتے ہی افترا پردازی پر مبنی چیختی چنگھاڑتی سرخیاں سجاتے ہیں اور قوم میں انتشار پھیلاتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ بالآخر ہمیں معلوم ہو گیا کہ اس ملک میں پارلیمنٹ نام کا ایک ادارہ بھی موجود ہے جو مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہے۔ پارلیمنٹ کو ہوم ورک دیا گیا ہے کہ چھ ماہ کے اندر واضح قانون سازی کرے کہ آئندہ جب ایسا مرحلہ پیش آئے تو دستور کا منشا واضح ہو۔ عزائم میں کوئی ابہام نہ پہلے تھا اور نہ آئندہ ایسا ہونے کا امکان ہے۔

عدالت عظمیٰ نے ملک و قوم کے لئے بنیادی اہمیت کے حامل دستوری معاملے پر جس قانونی فراست اور آئینی ذکاوت کا مظاہرہ کیا ہے، اس کا اعتراف محترم شیخ رشید احمد نے بجا طور پر عزت مآب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو ’نظریاتی جج‘ قرار دے کر کیا ہے۔

اگرچہ شیخ رشید جیسے سرد گرم چشیدہ سیاستدان نے اشارہ دیا ہے کہ کسی ناگہانی صورتحال کے لئے متبادل بندوبست بھی موجود تھا تاہم انہوں نے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ پیشگوئی بھی کر دی ہے کہ حزبِ اختلاف مجوزہ قانون سازی کے حق میں بخوشی ووٹ دے گی۔ شیخ صاحب ایسے دیدہ ور سیاستدان ہیں کہ ان کی کوئی پیشگوئی کبھی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ اور اب تو ہماری دستوری اور سیاسی تاریخ کے جملہ مغالطے وقت کی ایک ہی بامعنی جنبش میں دور ہو گئے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق نے آئین کو 12صفحات کا ایک کتابچہ قرار دیا تھا۔ اب معلوم ہوا کہ دستور بڑے کام کی چیز ہے۔ صرف آرٹیکل 243میں مناسب تصحیح کی ضرورت ہے۔ بینظیر بھٹو نے ہماری عدالتوں کو کینگرو کورٹس قرار دیا تھا۔ یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔ ہماری عدلیہ زندہ اور توانا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے توسیع کے نوٹیفکیشن میں ’قومی سلامتی کی صورت حال‘ کے بارے میں ایک سوال اٹھایا تھا، بظاہر یہ سوال تشنہ جواب رہ گیا۔ ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے؍ اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد۔ تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔

قوم کا قبلہ درست ہو چکا ہے، ایک دن ایسی دقیق اصطلاحات کا مفہوم بھی واضح ہو جائے گا۔ سوویت یونین کی تاریخ میں ماسکو ٹرائل کا ایک باب ملتا ہے۔ 1936ء سے 1938ء تک اسٹالن نے مقدمات کے ایک پیچیدہ سلسلے کی مدد سے کمیونسٹ پارٹی، سوویت فوج اور عوام میں ایسے تمام عناصر کا صفایا کر دیا تھا جو مغربی طاقتوں کے ایما پر اسٹالن کو راستے سے ہٹا کر سوویت یونین کو غیر مستحکم کرنا اور سرمایہ داری نظام کو واپس لانا چاہتے تھے۔

ان مقدمات میں ملزمان کے اعترافی بیانات کو شفاف سماعت کی تاریخ میں اہم مقام حاصل ہے۔ 1917ء کے انقلاب کے بڑے بڑے رہنمائوں میں اپنی سازشوں کے رضاکارانہ اعتراف سے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کی دوڑ شروع ہو گئی تھی۔

قوموں کی تاریخ میں ایسے مبارک اور سعید مواقع روز روز نہیں آتے۔ آئندہ چھ ماہ میں ہم اپنی سیاسی قوتوں میں ایسی ہی ہنگامی مشق کا مظاہرہ دیکھیں گے۔ یہ مدت 28 مئی کو ختم ہو گی اور یہ تو ہم جانتے ہیں کہ محمد خان جونیجو 29 مئی 1988ء کو دورۂ چین سے وطن واپس آئے تھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے