بی آر ٹی پشاور کھولنے کےلئےحکومت کو شدید مشکلات کا سامنا

بی آر ٹی پشاور کو فروری یا مارچ میں کھولنے کےلئے خیبرپختونخوا حکومت کو اعلان کے باوجود شدید مشکلات کا سامنا ہےاور محکمہ ٹرانسپورٹ نے صوبائی حکومت کو آگاہ کردیا ہے کہ رواں سال مارچ میں بھی بی آر ٹی کو عوام کےلئے نہیں کھولا جاسکتا ، کیونکہ 30 میں سے صرف 8 سٹیشنز کسی حد تک مکمل ہوچکے ہیں ، جبکہ باقی 22 سٹیشنز پر تعمیراتی کام اب بھی جار ی ہے ، اسی طرح بی آرٹی کےلئے قائم چمکنی ڈپو پر 80 فیصد اور ڈبگری گارڈن پر 60 فیصد اور حیات آباد ڈپو پر تقریباً 18 فیصد تعمیراتی کام مکمل ہوچکا ہے۔ منصوبے کو فعال بنانے میں دن رات کام کرکے بھی مزید 6 مہینے لگ سکتے ہیں۔

[pullquote] بی آر ٹی پشاور میں کون سے کام ہونے ہیں؟؟؟[/pullquote]

بی آر ٹی پشاور کی تعمیراتی کام کو پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سپرد کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان شوکت یوسفزئی کے مطابق 87 فیصد تعمیراتی کام مکمل کیا جاچکا ہے، توقع کی جارہی ہے کہ باقی کام بھی مارچ تک مکمل ہونے کے بعد منصوبے کو فعال بنایا جائےگا، تاہم بی آر ٹی کے لئے قائم ادارے ٹرانس پشاور کے مطابق 30 میں سے محض 8 سٹیشنز ریچ ون پر (چمکنی سے فرودس تک ) کسی حد تک تیار ہوچکے ہیں اور وہاں پر ٹرانسپورٹ کےلئے آئی ٹی ایس نظام نصب ہوچکا ہے ، تاہم ریچ 2 (فردوس سے امن چوک تک) اور ریچ 3 ( امن چوک سے کارخانوں تک) کسی بھی سٹیشن پر آئی ٹی ایس نظام کی تنصیب شروع نہیں ہوئی، جس کے نصب ہونے کے لئے مزید کئی ماہ درکار ہیں ۔ بی آر ٹی پشاور میں تین ڈپو چمکنی ، ڈبگری گارڈن اور حیات آباد شامل ہیں۔ چمکنی ڈپو کو تو مارچ تک فعال بنایا جاسکتا ہے، لیکن باقی دو ڈپو اس قابل نہیں کہ وہ جون تک بھی استعمال میں لائے جاسکے۔ حیات آباد ڈپو شاید رواں سال کے آخر تک مکمل ہوجائے۔

[pullquote]بسوں کی تعداد کتنی ہوگی؟؟؟[/pullquote]

بی آر ٹی پشاور کےلئے چینی کمپنی گولڈن ڈریگن سے 220 بسیں خریدی گئی ہیں۔ جس میں سے صرف 18 میٹر لمبائی والی 65 بسیں چمکنی سے حیات آباد تک مین کاریڈور پر اور 12 میٹر لمبائی والی 155 بسیں فیدر روٹس پر چلیں گی۔ کوہاٹ روڈ، چارسدہ روڈ، ناصر باغ روڈ، ورسک روڈ، حیات آباد اور باڑہ روڈ فیدر روٹس میں شامل ہیں۔ تمام بسیں ہائبرڈ ہیں جو ڈیزل یا بجلی سے چلائی جاسکتی ہیں ، تاہم اس متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

[pullquote]بی آر ٹی منصوبے کا آغاز کب ہوا تھا؟[/pullquote]

سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے 19 اکتوبر 2017ء کو اس منصوبے کا افتتاح کرتے وقت دعوی کیا تھا کہ اس میگا پراجیکٹ کو 6 مہینے میں مکمل کیا جائےگا ، مارچ 2018ء میں منصوبے کی تکمیل کےلئے مئی کی ڈیڈلائن دی گئی ، پھر جون اور بعد ازاں جولائی اور اس وقت کی نگران حکومت نے دسمبر 2018ء کی ڈیڈلائن دی تھی ۔ منصوبے کے نامکمل دیکھ کر موجودہ صوبائی حکومت نے مارچ 2019ء کی نئی ڈیڈلائن دیدی ، تاہم تعمیراتی کام کی عدم تکمیل کے باعث حکومت نے بعدازاں واضح تاریخ دینے کی بجائے عوام کو سرپرائز دینے پر اکتفا کیا۔ اب ایک مرتبہ پھر حکومت نے فروری کے آخر یا مارچ کے اوائل میں بی آر ٹی کو فعال بنانے کی نئی تاریخ دی ہے۔

[pullquote]منصوبے کی لاگت کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی؟؟؟[/pullquote]

دستاویزات کے مطابق افتتاح کے وقت بی آر ٹی پشاور کی لاگت 49 ارب روپے مقرر کی گئی تھی ، لیکن جب ٹیکسز کا نفاذ ہوا تو منصوبے کی لاگت 56 ارب روپے تک پہنچ گئی ۔ منصوبے کے پی سی ون پر جب نظر ثانی کی گئی تو یہ لاگت 67 ارب روپے تک پہنچ گئی، تاہم پی ڈی اے کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے حکومت سے مزید تین ارب روپے لئے گئے اور اس وقت منصوبے کی قیمت 71 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے، جس میں 61 ارب روپے ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر امدادی اداروں سے لی گئی ہے۔ پی ڈی اے کے ایک افسر کے مطابق 2021ء منصوبے کی تکمیل کی فائنل ڈیڈ لائن ہے، جس کے باعث اس منصوبے کی لاگت 80 ارب روپے سے تجاوز کرسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے