تجدید : مغرب زدگی یا اسلامائزیشن

مدرسہ ڈسکورس کے حوالے سے بعض دوستوں کے سوالات ہیں کہ یہ تجدید کے لئے کام کررہا ہے ۔ اسی طرح اس کورس کے مطلوبہ اہداف میں سے پلورل ازم اور سیکولر ازم ہے کہ ان چیزوں کو مقبول بنایا جائے ۔ یہ مغربی افکار کو مقبول بنانے کا ذریعہ ہے ۔یعنی تجدید میں بھی اس کی منزل مغرب ہے ۔ میں خاص مدرسہ ڈسکور س کے تناظر میں بات نہیں کروں گا بلکہ عمومی طور پر تجدید کے حوالے سے جو کنفیوژنز ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کروں گا ۔

میرے خیال میں تجدید کا عمل ایسی روانگی سے ہورہا ہے کہ اس کے مخالفین کو بھی اس کا اندازہ نہیں ہے ۔ وہ تجدید کی مخالفت بھی کررہے ہوتے ہیں لیکن تجدید ان کے اندر گھڑ کرچکی ہوتی ہے ۔معاشرے کو فکری اعتبار سے جن نئی چیز وں سے واسطہ پڑتاہے اس کے بارے میں اہل فکر مختلف زاویہ نگاہ رکھتے ہیں ۔ لیکن یہ کسی بھی فکر سے واسطہ پڑنے کے بعد کا عمل ہوتاہے ۔ ایسا نہیں ہوتاہے کہ معاشرے کے اہل فکر وہ چیز پیدا کررہے ہوتے ہیں بلکہ پیدا شدہ چیز کے بارے میں غور کررہے ہوتے ہیں کہ اس کو قبول کیا جائے ، رد کیا جائے ، کسی حد تک قبول اور رد کا اصول اپنایا جائے ۔

اب اس حوالے سے مختلف رویے سامنے آتے ہیں لیکن وہ چیز چونکہ پہلے پائی نہیں جاتی ہے بلکہ نئی ہوتی ہے اس لئے اس کے قبول یا رد کے حوالے سے جس قدر بھی رحجانات ہوتے ہیں ان سب کو تجدید ہی کہا جا ئے گا ۔ کیونکہ کوئی ایسا رحجان نہیں پایا جاسکتاہے جو اس نئی فکر کے بارے میں کچھ بھی نہ کہے اور نہ کہنے کی ضرورت محسوس کرے ۔ بعض دوستوں کو یہیں سے غلط فہمی ہوتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ کسی چیز کو پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے حالانکہ یہ پیدا شدہ چیز سے نبر د آزما ہونے کی کوشش ہوتی ہے جس میں کسی بھی طرز کی کوشش تجدید ہی ہوتی ہے ۔ اس بنیادی مقدمے کے بعد اب ہم ان اصطلاحات کی طرف آتے ہیں اور انہی کے ذیل میں تجدید پرگفتگو کرتے ہیں ۔

کوئی بھی اصطلاح ہر جگہ ایک جیسا معنی نہیں رکھتی ہے ، بلکہ مختلف معاشرو ں میں اس کے مختلف استعمال ہوتے ہیں ۔ مغرب یا غالب معاشروں سے آنے والی کوئی بھی چیز دیگر معاشروں میں پہنچ کر اسی طرح نہیں رہتی ہے ۔ آپ برگر ، پیزا اور فاسٹ فوڈ کو ہی لے لیں ، تمام دنیا میں ہر جگہ آپ کو مختلف دکھائی دیں گے ۔ اب جس جگہ سے یہ چیزیں شروع ہوئی ہیں وہاں شاید حرام اجزاء کی وجہ سے ان چیزوں کا کھانا حلال نہ ہو لیکن ہم نے ہی نہیں ان ملکوں کی ذاتی کمپنیوں نے بھی ان چیزوں کے اجزاء اور بناوٹ میں ہر جگہ اور علاقے کے لحاظ سے چینجنگ کی ہے۔

مغرب کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ اس کے افکار و نظریات میں ایسی لچک ہے کہ دنیا بھر کی تہذیبیں اور ممالک اپنے مذہب ، ملت اور تہذیب و تمدن کے پس منظر میں ان کو مختلف طرح سے قبول کررہے ہیں ۔ جمہوریت دنیا کے بہت سے ممالک میں رائج ہے لیکن ہر جگہ میں دوسری جگہ سے مختلف دکھائی دیتی ہے ۔ اب جمہوریت کی اصطلاح جن معنوں میں ایجاد ہوئی تھی ان معنوں کے لحاظ سے یہ آج بھی کفر ہے ۔ اور ہمارے رجرڈ طبقات یا بعض متجد د ین اہل روایت اس کو انہی بنیادوں کے تناظر میں دیکھتے ہوئے آج بھی کفر کہتے ہیں یا اسلام کے یکسر متضاد خیال کرتے ہیں ۔ لیکن مجموعی اہل روایت نے اس کو قبول کیا ہے ۔ اس کو قبول کرنے میں ایسا نہیں ہوا کہ وہ مغرب کی کسی فکر یا نظریہ کو قبول کررہے ہیں بلکہ انہوں نے اس کو اپنے مذہب کے تناظر میں دیکھا ہے اور اس فکر کی جو بنیادی غلطی تھی اس کو دور کرکے اس کو اپنے ملک میں رائج کیا ہے ۔

انگریز کے زمانے میں مسلمانوں نے اسی جمہوریت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو ان کے خلاف استعمال کیا ۔ دنیا کے کئی ممالک میں اسی جمہوریت کی وجہ سے آزادی ملی ۔ ہندوستان کی آزادی بھی خالص جمہوریت کی مرہون منت ہے ۔ہندوستان میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی عسکری تحریکوں کی ناکامی کے بعد جمہوری راستے کا انتخاب کیا گیا لیکن پاکستان آزاد ہونے کے بعد ایسی کونسی مجبوری تھی کہ جمہوریت کو اختیار کیاگیا ؟ مسلمانوں کا طرز حکومت تو خلافت تھا ، پھر اس کو کیوں نہیں اختیار کیاگیا ؟

تبدیلی زمانہ کی عملی مجبوریوں کا تقاضہ تھا کہ وہ واپسی کی راہوں کو تکنے کے بجائے اس دور میں رائج طرز حکومت کے بارے غور کریں ، اس کی جو خرابیاں ہیں ان سے اس کو پاک صاف کریں ۔ جمہوریت کی سب سے بنیادی خرابی یہی تھی کہ اس میں قانون سازی کا اختیار بندوں کو ہوتا ہے اور وہ اس میں بالکل آزاد ہوتے ہیں ، کسی بالا تر ہستی کی ہدایت کے پابند نہیں ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں ہرمسلک کے نمائندہ علماء نے مجموعی اور متفقہ طور پر جمہوریت کو قبول کیا ہے ۔ لیکن اس میں بندوں کی قانون سازی کی جوآزادی ہوتی ہے اس آزادی کو قرآن و سنت کے ماتحت رکھ کر استعمال کرنے کی شرط لگادی ۔ یوں جمہوریت کو اسلامائز کیا گیا ۔

حکمران کے انتخاب کے لئے جمہوری عمل کو تسلیم کیا گیا ۔ لیکن اس میں بھی اہل روایت اپنی بنیادوں کو دیکھ رہے تھے کہ مسلمانوں میں خلیفہ کا تقرر بھی عوام کی رائے اور مرضی سے ہوتا ہے جس طرح خلفائے راشدین کے ادوار میں ہم دیکھتے ہیں ۔ البتہ عوام کی مرضی معلوم کرنے کا طریقہ اس دور میں ووٹ ہوسکتاہے ۔ قانون سازی عوام کے منتخب نمائندے اور اسمبلی ہی کرے گی لیکن اس میں وہ بالکل آزاد نہیں ہوگی بلکہ قرآن و سنت کی پابندہوگی ۔

جمہوریت کی اسلامائزیشن میں جہاں جمہوریت کے بنیادی سٹرکچر کو تبدیل کیاگیا وہیں خلافت کے تصور میں بھی بہت سی تبدیلیاں آئیں ۔ خلیفہ کا اہل اجتہاد میں سے ہونا ، عادل اور متقی ہونا ، قریشی ہونا یہ سب ایسی چیزیں تھیں جن میں ماقبل کے ادوار میں تبدیلی آچکی تھی اور فقہاء نے دور کی تبدیلیوں کے ساتھ وہ کڑی شرائط جو قرون اولی میں تھیں مابعد کے ادوار میں ان میں تخفیف اور آسانی کردی تھی ۔ چنانچہ عدالت کا جو معیار قرون اولیٰ میں ضروری تھا مابعد کے ادوار میں وہ ضروری نہیں رہا ، بلکہ فاسق کی حکومت کو بھی جائز قرار دیا گیا ۔ اسی طرح مجتہد ہونے کی شرط میں بھی نرمی کی گئی ، یہاں تک کے غیر مجتہد کی حکومت کو بھی جائز قرار دیا گیا ۔ اسی طرح غیر قریشی کی حکومت کو بھی جائز قرار دیاگیا ۔ ایک وقت میں ایک سے زائد حکومتوں کو جائز قرار دیا گیا ۔

اب جب جمہوریت نافذہوئی تو اس میں قومی ریاستوں کے وجود کو گوار ا کیا گیا ۔ قومیت کے تصور میں جو تبدیلی آئی تھی اس کو قبول کیا گیا، اسی لئے غیر مسلم اور مسلمان ایک ہی درجے کے شہری کہلاتے ہیں اور غیر مسلموں سے کوئی الگ مخصوص ٹیکس یا جزیہ وصول نہیں کیا جاتاہے ، اسی طرح غیر مسلم چند ایک عہدوں کو چھوڑ کر باقی کلیدوں پر فائز ہوسکتاہے ۔ دیگر ممالک سے تعلقات میں بھی مسلم غیر مسلم کا تصور نہیں ہے بلکہ ایک ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں ۔اس میں چین ہمارا ایران یا افغانستان سے اچھا دوست ہوسکتاہے ۔

اسی طرح جنگ اور صلح کے قدیم تصورات میں بھی تبدیلی آئی ۔ اب جنگ ملک کے مفادات پر زد پڑنے پر ہوتی ہے لیکن جنگ کی علت میں کفر ، شوکت کفر ، یا ایسی کوئی علت نہیں ہوتی ہے ۔ دور حاضر میں ایک بڑی تبدیلی جو قدیم دور میں مسلم جنگوں کی علت شمار کی جاتی ہے کہ اسلام کی اشاعت میں اگر کوئی رکاوٹ ہو یا مسلمانوں پر کوئی حملہ کرے تو اس کے خلاف جنگ کی جائے گی ان دونوں کا اصولی طور پر خاتمہ کردیا گیا ہے ۔ اب تمام دنیا بھر کی اقوام کے مانے ہوئے اصولوں کے مطابق ہر شخص کو مذہبی آزادی ہے اور وہ کوئی بھی مذہب قبول کرسکتاہے ۔

اسی طرح مذہبی تبلیغ و اشاعت کی بھی آزادی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور مغرب میں اسلام کی تیزی سے اشاعت کی خبریں ہم آئے روز پڑھتے رہتے ہیں یعنی وہاں مذہب کی تبلیغ و اشاعت یا مذہب پر عمل کرنے میں کسی قسم کی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑتاہے ۔ ماقبل ادوار میں مسلم ریاست کے علاوہ دیگر ریاستوں میں ایسا ممکن نہیں تھا ۔ اسی طرح تمام اقوام کے مانے ہوئے اصولوں کے مطابق کوئی دوسرے پر حملہ نہیں کرےگا ۔ یعنی جنگ پر پابندی کو سبھی ممالک نے قبول کیا ہوا ہے ۔ اب جب ان دونوں چیزوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے تو جنگ اور جہاد کس علت کی رو سے ہوگا ؟

اسی طرح جمہوریت میں عورت کی حکمرانی ہے ۔ اگر چہ ابھی بھی علماء کا ایک طبقہ اسی قدیم تصور پر کھڑا ہے لیکن دوسری طرف ایسا بڑا طبقہ بھی ہے جو پارلیمنٹ میں عورت کی حکمرانی کو جائز قرار دیتاہے بلکہ سیاسی مذہبی جماعتوں کی طرف سے بھی عورتیں اسمبلی میں باقاعدہ نمائندگی کرتی ہیں اسی طرح مختلف ادوار میں وہ عورت کے حکمران ہونے پر اس کا ساتھ بھی دے چکی ہیں ۔

حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کے پہلے ادوار میں بھی اجتہاد و تجدید ہوتی رہی ہے اور اس دور میں بھی بہت سی چیزوں میں تجدید ہوئی ہے ۔ لیکن ضرورت ہے کہ اہل روایت کا رجرڈ طبقہ اور اہل روایت میں سے بعض متجددین ان تبدیلیوں اور ان کے اسباب میں غور کریں ۔ مثالیت پسندی کی بجائے عملیت پسندی کی طرف آئیں ۔ مسلم اہل روایت کی اکثریت بھی اگر ان تبدیلیوں کی طرف گئی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ ان کی منزل مغرب کے افکار و نظریات کی قبولیت تھی بلکہ وہ اپنے قدیم منابع کو دیکھ رہے تھے اور انہی کی روشنی میں جدید افکار و نظریات اور نظاموں کو پرکھ رہے تھے ۔

جمہوریت کے حوالے سے اس قدر تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ پلورل ازم یا تکثیریت ، اور سیکولر ازم بھی اسی کے ساتھ جڑی ہوئی چیزیں ہیں ۔ سیکولر ازم کا حاصل یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی ایسی حکومت نہ ہو جو کسی خاص مذہب کے لوگوں کے لئے اضافی حقوق و سہولیات کا مطالبہ کرتی ہو اور دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کرتی ہو ۔ اس تصور کو مسلم اہل روایت میں سے جس طبقے نے قبول کیا ہےتو انہوں نے اس لیے قبول کیا ہے کہ اسلام تو ہے ہی ایسا مذہب جو دیگر مذاہب کے لوگوں کو مکمل حقوق دیتاہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتاہے ۔ اس کو خالصتا اس نظر سے دیکھنا کہ انہوں نے غالب سو چ اور فکر ہونے کی وجہ سے اس کو قبول کیا ہے اگر چہ یہ اسلام کے یکسر خلاف ہے درست نہیں ہے ۔ انہوں نے اس فکر کو اسی تصور کے مطابق قبول نہیں کیا ہے جس کے تحت اس کی ایجاد ہوئی ہے دوسرا اس کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں جانچ پرکھ کر قبول کیا ہے ۔

کسی کو اس فکر سے اختلاف ہوسکتاہے اور وہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں بتاسکتا ہے کہ یہ فکر کن اسلامی اصولوں سے ٹکراتی ہے لیکن ایک نیا نظریہ اور فکر آنے کے بعد اس کو جب اسلامی اصولوں کی روشنی میں دیکھا جائے گا تو خالصتا اجتہاد ہوگا ۔ اس اجتہاد میں کوئی ایک فریق دوسرے کو الزام نہیں دے سکتاہے کہ اس کی نیت درست نہیں یا یہ دوسرے نظام سے مرعوب ہوگیا ہے اس لئے اس کو قبول کررہا ہے ۔ جمہوریت چونکہ بہت عام ہوچکی ہے اس لئے اس میں ہمیں ایسی کنفیوژن نہیں ہوتی ہے لیکن دیگر فکروں کے ہمارے ہاں رائج نہ ہونے یا پوری طرح واقف نہ ہونے کی بناء پر کہ ا ن کو کن شرائط و اصولوں کے مطابق قبول کیاگیا ہے ہمیں ان سے اجنبیت کا سامنا ہے ۔ سیکولر ازم کی ایک تشریح یقینا یہی ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور وہ لامذہب ہوگی لیکن دوسری تشریح یہ بھی ہے کہ حکومت تمام مذاہب کو ساتھ لے کر چلے گی ۔

تکثیریت یا پلورل ازم کو اگر دیکھیں تو اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ تمام مذاہب حق پر ہیں ۔ لیکن اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایسامعاشرہ جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں اس میں باہمی احترام اور رواداری سے رہا جائے اور کسی دوسرے مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھنے والے کے مذہبی جذبات ، عقائد اور محترمات کو ٹھیس نہ پہنچا ئی جائے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیکولر ازم اور پلور ل ازم جمہوریت کے ساتھ جڑی ہوئی چیزیں ہیں لیکن جمہوریت کو قبول کرنے کے باوجود ان دیگر اصطلاحات سے ہمیں وحشت و نفرت ہے ۔ مختلف جگہوں پر اس کے درست تناظر کو دیکھنے سے معاملات اس قدر گھمبیر نہیں رہتے ہیں جس قدر نظر آتے ہیں ۔

اس جگہ اسلامی بینکنگ کی مثال اگر دوں تو بہتر طور پر سمجھ میں آئے گی کیونکہ علماء کرام کی اکثریت نہ صرف اس کو قبول کرچکی ہے بلکہ اس سے فائدہ بھی اٹھارہی ہے ۔ اب ایسا نہیں ہوا کہ ان کو فائدہ نظرآیا تو انہوں نے کفر کے نظام کو اسلامی لبادے میں ملفوف کرکے قبول کرلیا ہے ۔ اگر سطحی نظر سے دیکھا جائے تو اسلامی بینکنگ اور دیگر میں کوئی فرق نظر نہیں آتاہے ۔ لیکن اس نظام کا اگر مطالعہ کریں تو جن لوگوں نے اس کو قبول کیا ہے خالصتا اسلامی اصولوں کی روشنی میں اس کو دیکھتے ہوئے قبول کیا ہے ۔ اسی طرح اس نظام کی جو بنیادی خرابیاں ہیں ان کو دور کرنے کے بعد اس کو قبول کیا ہے ۔

ہمارے اہل روایت میں سے علماء کا ایک طبقہ اس کو اسی طرح تعبیر کررہاہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کو پروموٹ کررہے ہیں انہوں نے اس نظام کو قبول نہیں کیا ہے بلکہ اس نظام نے اپنے مفادات کی خاطر ان کو سپیس دی ہے ۔ اس موقف کو بہتر طور پر بیان کیا جاسکتاہے لیکن جن لوگوں نے اس کو قبول کیا ہے انہوں نے کن اصولوں کے تحت قبول کیا ہے ان کو دیکھنا انتہائی اہم اور ضروری ہے ؟ اسی طرح علماء کا جو طبقہ اس نظام کو قبول نہیں کررہا ہے ان کے پاس اس کا متبادل کیا ہے ؟

متبادل کسی ایک چیز میں نہیں ہوتاہے بلکہ پورا نظام کڑیوں کی صورت میں آپس میں ملا ہوتاہے ۔ ہمارے رجرڈ اہل روایت اور متجددین اہل روایت دونوں کے پاس ان چیزوں کا واحد متبادل یہی ہے کہ اس تمام نظام کو تلپٹ کیا جائے اور بعینہ وہی قدیم نظام لایا جائے ۔ کسی بھی قدیم نظام کو بعینہ اسی صورت میں لانا ممکن نہیں ہوتاہے کیونکہ قدیم نظام کے مختلف ادوار کو بھی دیکھیں تو اس کے مختلف شیڈز دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن ان لوگوں کے پاس اگر اس کی کوئی صورت ہے تو اس کو صحیفہ امام غائب کی مانند غار میں چھپا رکھنے کی بجائے لوگوں کے سامنے لائیں تاکہ مسلمان اپنے قدیم منابع سے جڑ سکیں ۔ اگر یہ بھی قدیم نظام کو بعینہ نہیں لانا چاہتے ہیں تو اس قدیم نظام کے اساسی تصورات اور اصولوں کو دیکھتے ہوئے اس کے نفاذ کے لئے کوئی فکر پیش کرنے میں جہاں تک ان کو آزادی حاصل ہے کسی دوسرے کو بھی حاصل ہونی چاہیے ۔

ہمارے ہاں جو طبقہ تجدید یا اسلامائزیشن کے نام پر کوشش کررہاہے وہ اسلام کے موجودہ دور میں نفاذ کے حوالے سے کسی سطح کی کوشش کررہاہے لیکن جو لوگ تجدید اور اسلامائزیشن دونوں کو براجانتے ہوئے احرام کی مقدس چادریں اوڑھے حرم کی چار دیوار ی میں پناہ گزیں تنقید سے بالاتر ہیں وہ لوگ نظام کی بالکیہ تباہی کے بعد پکی پکائی دیگ کے رکھوالے بننے کی سوچ کے علاوہ کیا کررہے ہیں ۔ ان کے پاس اس نظام کا واحد حل یہی ہے اس کو کسی طرح بنیادوں سے منہدم کردیا جائے اس کے بعد کیا کیاجائے ان کو امیر المؤمنین اور خلیفۃ المسلمین بنادیا جائے ۔ اس کے بعد بعد کیا کرنا ہے اس کا ان کو بھی نہیں پتہ ۔

آخر میں ایک بہت بنیادی سوال ذکر کرنا چاہوں گا اگر چہ ساری گفتگو اس کے گرد ہی گھومتی رہی لیکن اس کا علیحدہ سے ذکر کرنا ضروری ہے ۔ جب تجدید کی بات کی جاتی ہے تو اس میں مغرب کے افکار و نظریات کو ہی سامنے رکھ کر کیوں تجدید کی جاتی ہے صرف اسلامی منابع سے ہی دور حاضر کی پیچیدگیوں کا حل کیوں نہیں ڈھونڈ ا جاتاہے ؟ میرے خیال میں دو الگ چیزیں ہیں ایک مغرب کے افکار و نظریات دوسرا زمانی تبدیلیاں و پیچیدگیاں ۔ مغرب سے جو افکار آتے ہیں وہ کیاخالص مغرب کے ہیں یا زمانی تبدیلیوں کا بھی ان میں کوئی اثر ہےاور وہ دنیا میں یکساں طور پر پھیلے ہوئے اور مقبول عام افکار ہیں جن سے ہمیں واسطہ ہے ۔ میرے خیال میں یہ دونوں چیزیں ملی ہوئی ہیں ۔

اس لئے جب ہم ان افکار کے حوالے سے غور کرتے ہیں تو ایک جہت مغرب کے افکار ہونے کی ہے اور دوسرا زمانی تبدیلیوں کے زیر اثر ان افکار کے دنیا بھر میں مقبول ہوجانے کی ہے اس لئے ان کی روشنی میں بات کرنا ضروری قرار پاتاہے ۔یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان افکار و نظریات کی روشنی میں بات کرنا ایک ایسی مجبوری ہے جس سے چھٹکارا نہیں مل سکتاہے ۔ ان تمام اصطلاحات سے الگ اصطلاحات ہم وضع کر بھی لیں تو پھر بھی بنیادی طور پر اسی فکر سے سابقہ رہتاہے جیسا کہ اسی کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے