تعلیم ہماری ترجیح کب بنے گی؟

پچھلے دنوں وزیر تعلیم شفقت محمود نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ جب انھیں تعلیم کی وزارت ملی تو کچھ دوستوں کی طرف سے انھیں افسوس کے پیغامات موصول ہوئے۔ بات ہنسی میں ختم ہو گئی لیکن اس واقعے سے پاکستانی معاشرے میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک متعدد حکومتیں آئیں جنہوں نے تعلیم کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کیے لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ اس وقت پاکستان شرحِ خواندگی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔ نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی پاکستان سے سبقت لے گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومتی ترجیحات میں تعلیم سب سے آخر میں ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد متعدد تعلیمی پالیسیوں کا اجرا کیا گیا‘ جن میں خوش نما وعدے کیے گئے لیکن یہ وعدے کبھی پورے نہیں ہوئے۔

تعلیم کے لیے ہم کتنا بجٹ مختص کرتے ہیں؟ یہاں بھی پاکستان کا نمبر بالکل آخر میں آتا ہے۔ ماضی میں سیاستدان اکثر بلند بانگ دعوے کرتے رہے لیکن ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہ ہوئی۔

سابق وزیر اعظم جناب شوکت عزیز نے اعلان کیا تھا کہ تعلیم کے لیے GDP کا 4 فیصد مختص کیا جائے گا۔ اس اعلان کو دو عشرے ہونے کو ہیں لیکن آج بھی تعلیم کے لیے ہمارا مختص فنڈ جی ڈی پی کے 2 فیصد کے قریب ہے۔ 2009 کی تعلیمی پالیسی میں کہا گیا تھا کہ حکومت 2015ء تک جی ڈی پی کا 7 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرے گی اور اس کے نفاذ کے لیے ضروری اقدامات کرے گی‘ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 2014-2013 میں تعلیم کے لیے مختص رقم جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تھی‘ 2015-2014 میں 2.2 فیصد‘ 2016-2015 میں 2.3 فیصد، 2018-2017 میں یہ کم ہو کر 2.2 فیصد رہ گئی‘ اور اس سال کے بجٹ میں یہ شرح مزید کم ہو گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو تعلیم کبھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے تعلیم کے لیے مختص فنڈز ہمیشہ ناکافی رہے ہیں۔

کیا معاشرے کے طاقتور طبقے تعلیم کو اپنی طاقت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور جان بوجھ کر Staus quo کو قائم رکھتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں ”ایک روز ایک بڑے زمیندار صاحب ملاقات کے لیے آئے۔ خود تو بڑی حد تک ناخواندہ تھے لیکن تعلیم کے فضائل اور فوائد پر ایک طویل تقریر کرنے کے بعد بولے ”جناب آپ اس پس ماندہ ضلع کے لیے نیکی کا ایک اور کام بھی کرتے جائیں۔

فلاں گاؤں میں اگر ایک پرائمری سکول کھول دیا جائے تو اس علاقے پر یہ ایک احسان عظیم ہو گا۔ اگر آپ قبول فرمائیں تو بندہ سکول کے لیے زمین مفت کمروں کی تعمیر کے لیے بیس ہزار روپیہ نقد اور ایک استاد کی ایک برس کی تنخواہ اپنی جیب سے ادا کرنے کیلئے حاضر ہے‘‘۔

کوئی ایک ہفتے بعد اسی علاقے کے ایک اور بڑے زمیندار ملنے آئے۔ چھوٹتے ہی انھوں نے روہانسا ہو کر شکوہ شرو ع کر دیا‘ جناب میں نے کیا قصور کیا ہے کہ مجھے اس قدر کڑی سزا دی جا رہی ہے؟ بندہ بالکل بے گناہ ہے۔

میں نے حیران ہو کر اس شکوے کی وضاحت طلب کی کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہو رہا ہے اور کون یہ ظلم کر رہا ہے؟ انھوں نے گلوگیر آواز میں یہ تفصیل سنائی ”پچھلے ہفتے سکول کے بارے میں جو شخص ملنے آیا تھا وہ یہ سکول اپنے گائوں میں نہیں بلکہ میرے گائوں میں کھلوا رہا ہے۔ ہمارے درمیان پشتوں سے خاندانی دشمنی چلی آ رہی ہے۔

پہلے ایک دوسرے کے مویشی چرا لاتے تھے۔ کبھی ایک دوسرے کے مزارعوں کو قتل کروا دیتے تھے۔ کبھی ایک دوسرے کی فصلیں اجاڑ دیتے تھے، لیکن اب وہ کمینہ میرے گائوں کی نسلیں برباد کرنے پر اتر آیا ہے۔ اسی لیے آپ سے سکول کھولنے کا وعدہ لے کر گیا ہے‘‘۔ اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے معاشرے کے طاقتور طبقے تعلیم کو کس طرح اپنی طاقت کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں تعلیم کے میدان میں مسائل کی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ پالیسی بناتے وقت مختلف Stake Holders کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ اکثر حکمران کوئی فیصلہ صادر کرتے ہیں اور پورا تعلیمی نظام اتھل پتھل ہو جاتا ہے۔ یہ 12 مارچ 1972ء کا ذکر ہے۔ ان دنوں میں میٹرک کا طالب علم تھا‘ جب اس وقت کے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے یہ اعلان جاری ہوا کہ پرائیویٹ کالجز کو ان کی جائیدادوں سمیت قومیا (Nationalize) لیا گیا ہے۔

اس حکم سے چند بہترین تعلیمی اداروں کو زبردست دھچکا لگا اور ان میں سرکاری اداروں کی روایتی سیاست اور سستی در آئی۔ قومیائے جانے والے کالجز میں اعلیٰ تعلیم کے معروف مشنری ادارے بھی شامل تھے۔ اس انتہائی اہم تبدیلی سے پہلے مختلف Stake Holders سے مشاورت نہیں کی گئی۔ یوں بیک جنبش قلم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بساط الٹ دی گئی۔ اس ایک فیصلے سے پاکستان میں تعلیم کے میدان میں دور رس منفی اثرات مرتب ہوئے۔

اسی طرح کا ایک فیصلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کیا گیا جب پیشگی مشاورت اور Stake Holders کو اعتماد میں لیے بغیر یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام انگلش میڈیم سکول اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر استعمال کریں۔ اس فیصلے نے انگلش میڈیم سکولوں کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا۔ والدین‘ جو انگریزی زبان کی اہمیت سے واقف تھے‘ نے اس پر احتجاج کیا۔ کچھ عرصے بعد یہ غیر منطقی فیصلہ خود ہی غیر موثر ہو گیا لیکن ایک عرصے تک تعلیمی میدان میں ایک غیر یقینی کی کیفیت رہی۔

اسی طرح پنجاب کے صوبے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے دانش سکولوں کے اجرا کا اعلان کیا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ سکول ایچی سن کے طرز پر ہوںگے اور ایک طرح سے ماڈل سکول ہوں گے ۔ یہ فیصلہ معاشرے میں پہلے سے موجود سماجی ناہمواریوںمیں ایک اور نا ہمواری کا اضافہ تھا۔

وہ رقم جو چند دانش سکولوں پر صرف کی گئی عام سرکاری سکولوں کی حالتِ زار بہتر بنانے کے لیے استعمال ہو سکتی تھی۔ اب وہی دانش سکو ل کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔

شہباز شریف صاحب کے عہد ہی میں ایک اور اہم فیصلہ کیا گیا جس کے مطابق پنجاب کے پرائمری سکولوں میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ اس فیصلے کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں اور سرکاری سکولوں میں تفاوت کو کم کیا جائے۔

اس فیصلے پر سب سے زیادہ تنقید یہ کی گئی کہ اتنی بڑی تعداد میں انگریزی ذریعۂ تعلیم کے ماہر اساتذہ کہاں سے آئیں گے‘ لیکن سار ے سکولوں میں اس فیصلے کو نافذ کر دیا گیا۔ اس فیصلے کو گزرے کئی برس ہو چکے ہیں۔ اور اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ اعلان کیا ہے کہ مارچ 2020ء سے پنجاب میں پرائمری سطح پر ذریعہ تعلیم اردو کر دیا جائے گا۔ یوں پینڈولم اب دوسری سمت چلایا جائے گا۔

ماضی قریب کی صورتحال ہمیں بتاتی ہے کہ پرائیویوٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں نے بڑی تیزی سے تعلیمی میدان میں پیش رفت کی جس کے نتیجے میں سرکاری سکول لوگوں کی پہلی ترجیح نہیں رہے۔ اس کا مشاہدہ ہم ایسے معاشرے میں آسانی سے کر سکتے ہیں جہاں کم آمدنی والے افراد بھی اپنے بچوںکو انگلش میڈیم سکولوں میں بھیجنا چاہتے ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انگریزی بچوں کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرتی ہے چاہے وہ ملازمت کا مرحلہ ہو، اعلیٰ تعلیم کا ٹارگٹ ہو یا معاشرے میں سماجی مرتبے کا سوال۔ اس فیصلے سے سرکاری سکولوں اور پرائیوٹ سکولوں کے درمیان فرق اور بڑھ جائے گا۔

جہاں تعلیمی پالیسیوں میں غیر مستقل مزاجی اور Stake holders سے عدم مشاورت نے پاکستان میں تعلیم پر منفی اثرات مرتب کیے‘ وہیں حکومتوں کی عدم دلچسپی بھی ہمارے تعلیمی مسائل کو گمبھیر بنا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کے تقریباً اڑھائی کروڑ بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ 35 فیصد بچے آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول سے ڈراپ آئوٹ ہو جاتے ہیں۔ شرحِ خواندگی کے اعتبار سے ہم جنوبی ایشیا کے ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ تعلیم کے لیے مختص بجٹ بڑھنے کے بجائے اب مزید کم ہو گیا ہے۔

ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں‘ جہاں تعلیم کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کب تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے