تو حسن کا پیکر ہے ، تو رعنائی کی تصویر،اے وادیٗ کشمیر !

اے وادیٗ کشمیر ! اے وادئ کشمیر ….

تو حسن کا پیکر ہے ، تو رعنائی کی تصویر
مخمور بہاروں کے حسین خوابوں کی تعبیر
رخشاں ہیں تیرے ماتھے پہ آزادی کی تنویر
تو جلوہ گہ نور جہاں ، قلبِ جہانگیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

ہر لمحہ مچلتی ہیں تیرے من میں بہاریں
میخانہ در آغوش درختوں کی قطاریں
چشموں کے ترانے ہیں کہ ساون کی ملہاریں
ندیوں میں تری نغمہ آزادی کی تفسیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

کیوں تری فضاوٗں میں اداسی کے نشان ہیں
نکھرے ہوئے گلزار بھی کیوں محوِ فغاں ہیں
چشمے ترے کیوں نالہ کش و نوحہ کناں ہیں
کہسار ترے کیوں ہیں جگر بستہ و دِلگیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

شاید تجھے مسلم کی وفاوٗں سے گلا ہے
فریاد تری سچ ہے ، ترا شکوہ بجا ہے
لیکن میرے محبوب وہ وقت آن لگا ہے
گونجے گا فضاوٗں میں جب اک نعرہ تکبیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

مانا کہ دلوں میں وہ تب و تاب نہیں ہے
اس قوم کی تلوار میں وہ آب نہیں ہے
اب عزمِ مسلمان وہ سیلاب نہیں ہے
گردش میں ہے برسوں سے مری قوم کی تقدیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

مانا تری مٹی پہ بہت خون بہا ہے
تو نے غم وآلام غلامی کو سہا ہے
لیکن مرے ہمدم ! مرا دل بول رہا ہے
ہمت کی حرارت سے پگھل جائے گی زنجیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

تکبیر کا نعرہ تری عصمت کا امیں ہے
چھٹنے کو ہے تاریکیٗ غم ، مجھ کو یقین ہے
کیا ظلمتِ شب صبح کی تمہید نہیں ہے؟
کیا خونِ شفق رنگ نہیں مثردہٗ تنویر ؟
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

اب وقت ہے سینوں میں عزائم کو جگا لیں
ہم جام و سبو توڑ کے تلوار اٹھالیں
ہر راہ گلستان کو کمیں گاہ بنا لیں
کمزور ہی ، لیکن ابھی ٹوٹی نہیں شمشیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

ہیں یاد ابھی تک خالد ؓ وطارقؒ کے فسانے
کچھ دور نہیں احمد ؒ و ٹیپو ؒ کے زمانے
اٹھو ، کہ چلیں ظلم کو دنیا سے مٹانے
پھر زندہ کریں دہر میں یہ اسوہ شبیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

ہم کو ترے شاداب نظاروں کی قسم ہے
جہلم کے دلآویز کناروں کی قسم ہے
پھولوں کی ، درختوں کی چناروں کی قسم ہے
کاٹیں گے ترے پاؤں سے ہر ظلم کی زنجیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

سر حرمتِ توحید پہ کٹوا کے رہیں گے
ہم کفر کے طوفان سے ٹکرا کے رہیں گے
طاغوت کے ایوان کو اب ڈھا کے رہیں گے
پیوندِ زمیں ہو گی ہر اک کفر کی تعمیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

اک غلغلہ ، نعرہ تکبیر اٹھا کر
یہ برقِ تپا خرمن باطل پہ گرا کر
توپوں سے برستے ہوئے شعلوں میں نہا کر
ہم خون سے لکھیں گے تری آزادی کی تحریر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

دشمن کے عزائم تیری مٹی میں ملیں گے
مدّت سے جو رستے ہیں ، ترے زخم سلیں گے
اس خاک یہ الفت کے حسیں پھول کھلیں گے
صیاد جو اب تک تھا وہ بن جائے گا نخچیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

پھوٹیں گے تری خاک سے پھر نور کے دھارے
ظلمت کدہ کفر سے اٹھیں گے شرارے
گونجے گی آذانوں کی صدا ڈل کے کنارے
پھر جاگ اٹھے گی تری سوئی ہوئی تقدیر
اے وادیٗ کشمیر ، اے وادیٗ کشمیر

تو خاتمِ دنیا کا اک انمول نگیں ہے
تو حسن کا مسکن ہے ، تو بہاروں سے حسیں ہے
آسی کی نگاہوں میں تو فردوسِ بریں ہے
فردوس تو ہوتی نہیں شیطان کی جاگیر
اے وادئ کشمیر ، اے وادئ کشمیر !

یہ نظم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے جون 1965 میں لکھی !
قطب الدین عابد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے