ریاست اور حکومت کی ناکامی

وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پرائی جنگ میں شامل ہو کر ہم نے بہت نقصان اُٹھایا ، اب ہم کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ عمران خان صاحب کی یہ بات بالکل درست ہے لیکن جہاں انہوں نے یہ بات کہی ہے وہ جگہ درست نہیں ۔ اپنے مرض اور غلطیوں کی نشاندہی بالکل درست ہے تاہم ہر فورم مرض اور غلطی بتانے کا نہیں ہوتا . ایک جانب آپ عالمی سرمایہ کاری کو پاکستان لانے کے لیے فکر مند ہیں تو دوسری جانب آپ ایسی گفتگو کر تے ہیں جس سے سرمایہ کار بھاگتا ہے ۔

عالمی اقتصادی فورم پر آپ کو چاہیے تھا کہ آپ عالمی برادری کو اس جانب متوجہ کرتے کہ چھوٹے ممالک جن کی معیشت کا دارومدار فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ پر ہوتا ہے ، آپ نے ان ممالک میں مکمل بلیک میلنگ کا ماحول قائم کر رکھا ہے ۔انٹرنیشنل انویسٹمنٹ لاء جیسے قوانین کے ذریعے بڑے ممالک نے اپنی سرمایہ کاری اور سرمایہ کاروں کو محفوظ بنانے کے لیے کئی معاہدات کا جال بچھا رکھا ہے ۔ آپ کا انٹرنیشنل انوسٹمنٹ لاء ترقی پزیر ممالک کے لیے اپنے رحجان میں ایک متعصبانہ سوچ کے ساتھ وجود میں آتا ہے ۔ آپ اپنا سرمایہ محفوظ بناتے ہیں ۔ ٹیکس سے استثناء لیتے ہیں اور ان ممالک سے منافع اور فائدہ نچوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔ آپ کی سرمایہ کاری سے چند نوکریوں کے علاوہ چھوٹے ممالک کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ترقی پزیر ممالک کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ آپ کے معاشی ترقی کے پُر فریب نعروں سے ان ممالک میں کبھی مستحکم ترقی نہیں آ سکتی ۔

معورف جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں ۔ ان کے اختلافات میں جانا ہمارے لیے گھمبیر مسئلہ ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب کسی جنگ یا پراکسی وار کا حصہ نہیں بنیں گے ۔

وزیر اعظم کے انٹرویوز اور تقریریں ایک طرف لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہے ۔ پاکستان میں اب بھی فرقہ وارانہ اور دہشت گردی میں ملوث گروہ عملا متحرک ہیں ۔ آپ دوسروں کی جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہتے لیکن دوسروں نے پاکستان میں اپنی لابیز قائم کر رکھی ہیں ۔ یہ لابیز اپنے فرقوں کے سادہ لوح عوام کو پاکستان سے زیادہ ان کے خاص عقائد کے محافظ اور پرچارک ممالک کے ساتھ زیادہ جوڑتی ہیں ۔ یمن ، عراق ، شام ، ایران ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بحرانوں میں یہ گروہ بہت نمایاں ہو کر سامنے آ چکے ہیں ۔ ان گروہوں کو باقاعدہ ان ممالک سے فنڈنگ ہوتی ہے اور وہ ان کے اشاروں پر ملک میں کسی وقت بھی افراتفری پیدا کر سکتے ہیں ۔ یہ گروہ اس قدر منظم ہیں کہ حال ہی میں ان کی تنظیمیں ریاست کو اپنی مرضی کی خارجہ پالیسیاں بنانے کے لیے کھلے عام دھمکا رہی تھیں ۔ بعض تنظمیوں نے تو وزیر خارجہ کو وزارت سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ۔ ان گروہوں کے نمائندے ان ممالک اور اپنے مفادات کے حصول کے لیےتقریبا تمام سیاسی جماعتوں میں اپنی مضبوط جگہیں بنا چکے ہیں ۔ تنظیمیں کالعدم بھی ہیں اور ان کے لوگ حکومتوں میں بھی شامل ہیں ۔ آپ کس کی آنکھ میں دھول جھونک رہے ہیں ؟

اگر آپ بیرونی سرمایہ کاری پاکستان میں لانے میں سنجیدہ ہیں تو پھر آپ کو ان گروہوں اور ان کے کارندوں کو عملا کالعدم کرنا ہوگا ۔ ان کی موجودگی میں کوئی مستحکم ترقی کا عمل شروع نہیں ہو سکتا ۔ سرمایہ کاری کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک آپ ملک میں مکمل امن و امان قائم نہیں کر لیتے ۔ سرمائے اور سرمایہ دار کو یہاں جان و مال کا یقینی تحفظ نہیں مل جاتا ۔ آئے روز کاروباری مراکز اور سڑکیں بند کر کے جلسے جلوسوں کا انعقاد ملک میں معاشی سرگرمیوں کے لیے زہر قاتل ہے ۔ ٹیکس اور سود کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے ۔

مستقل سر درد کے مریض کو ڈسپرین دیکر عارضی طور درد سے آفاقہ تو فراہم کیا جا سکتا ہے تاہم معیشت کو مستحکم ترقی دینے کے لیے آپ کو ملک کے اندر بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو ہنر مند بنا کر عالمی مارکیٹ کے لیے قابل قبول بنانا اور ان کے لیے مواقع پیدا کرنا اہم قدم ہے ۔ اسی طرح ملکوں کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے کرتے وقت اپنی حیثیت کو منوانا اور مستحکم کرنا بھی انتہائی اہم ہے ۔ ہمارے ہاں خام مال ہونے کے باوجود فعال پروڈکشن یونٹ کیوں متحرک نہیں ۔ ہم دنیا سے بہت کچھ لے رہے ہیں لیکن ہمارے پاس دنیا میں فروخت کرنے کے لیے اپنی کیا پروڈکشن ہے ؟ ہماری منڈیاں اجڑ رہی ہیں اور غیر ملکی سامان کی کھپت ہمارے ہاں بڑھ رہی ہے ۔ اس سے بڑھ کر ہماری ناکامی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور گندم ، چاول ، چینی ، ٹماٹر اور آلو بھی در آمد کر رہے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے