سائنس اور مسلمانوں کا غیر حقیقی احساس کمتری

سائنسی دریافتوں اور ایجادات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ عام مسلمان تو کُجا اسکالر حضرات بھی ایک طرح کے احساس کمتری اور ندامت میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ سائنس کا تذکرہ ایسے کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ ہم سب پر حاوی کوئی مخلوق ہے جس کے آگے ہم بے بس ہیں۔

آیئے ذرا دیکھیں کہ سائنس ہے کیا۔

کیمبرج یونیورسٹی کی ڈکشنری کے مطابق سائنس کی تعریف یہ ہے:
”باریک بینی سے طبعئی دنیا کی ساخت اور عملیات کا مطالعہ۔”

اس کے علاوہ کوئی بھی ڈکشنری دیکھ لیں اسی سے ملتی جلتی تعریف ملے گی مثلاً: سائنس کا مطلب، تجربات اور مشاہدات سے حاصل طبعئی دنیا کے علوم۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ ایسے علوم کا مجموعہ ہے جو مذہب کا مخالف یا مقابل ہے؟

حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کی تخلیق میں پنہاں علوم کی دریافت اور ان سے فوائد کا حصول ہی سائنس ہے۔

یہاں پر علماء کے اخلاص اور نہ ہی انُ کے فتووں پر تنقید مقصود ہے کیونکہ بہر حال انکے فیصلے کسی نہ کسی شرعئی بنیاد پراور معاشرے میں دخیل دوسرے عوامل کے ردِّ عمل میں بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن جدید علوم اور ان سے حاصل ایجادات کی علماء کی جانب سے مخالفت اور مذہبی عناصر کی نامناسب حکمت عملی سے معاشرے میں غیر ضروری اختلافِ رائے اور خلیج پیدا ہوئی۔ مسلمان اپنے ایمان کی حفاظت کے معاملے میں انتہائی حسّاس ہیں جبکہ علماء عوام کے وسیع طبقات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انکی جانب سے کسی بھی اہم ایجاد کی مذہبی بنیاد پر مخالفت کے طرز عمل سے معاشرے میں یہ تائثر عام ہوا کہ جدید علوم اور انکی دریافتیں در اصل ایمان کے لیئے نقصان دہ ہیں۔ گو کہ علماء کے اس طرز عمل کے پیچھے اسلام کے دفاع کا عزم اور لاشعور میں پیوست یہ خوف بھی رہا ہوگا کہ غیر مسلم مسلمانوں کے عقائد اور ایمانیات پر اثر انداز ہوکر ہمارے طرزِ زندگی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ خوف جو ماضی میں جدید علوم کے حصول سے غفلت اور غلامی کی فطری سوغات تھی جو مسلمانوں کے عمومی رویّوں میں سرائیت کیئے ہوئے تھا کہ دین کی حفاظت مقدّم ہے۔کیونکہ جدید ایجادات مغرب میں وارد ہوئیں تو مشرق اور مغرب کی تاریخی عداوت کی روشنی میں مذہبی طبقات انکو اپنانے میں جھجھک کا شکار ہوئے۔ غالباً خوف وہی تھا کہ ہمارے عقائد اور طرز زندگی میں نقب لگانے کی کوشش ہے۔ اس غیر حقیقی تائثر نے مسلمانوں کو علم و عمل کے میدان میں پیچھے کیا۔

علماء کی طرف سے تصویر، لاؤڈ اسپیکر ،ٹیلی فون ، ٹیلی وژن اورانٹر نیٹ کی مخالفت کل ہی کی بات ہے۔ لیکن اللہ کی تخلیق میں موجود علوم کی بنیاد پر بننے والی ہر ایجادمیں ایک قوّت ہوتی ہے جو اس کو منواتی ہے۔علم کا سیلاب ہر ایک کو بہا کر لیجا تا ہے خاص کر کمزور نظریات طبعئی حقائق کا سامنا نہیں کرسکتے۔ جدید علوم سے دوری کی وجہ سے اور ہمارے دوہرے اور تہرے نظام تعلیم کی بنا پر علماء اور عوام الگ دائروں میں مقیم طبقات بن گئے لیکن رفتہ رفتہ مذہبی طبقات کوسائنسی ایجادات کی قوت اور معاشرے میں اثر انگیزی کا احساس ہوا کہ ان سے اچھے کام بھی لیئے جاسکتے ہیں تو انہوں نے انکو قبول کرنا شروع کیا لیکن تب تک سائنسی ایجادات کی مسلسل مخالفت سے یہی عمومی تائثر پختہ ہو چکا تھا کہ سائنس اور مذہب دو جدا اقدار ہیں۔

تصویر کی مخالفت کے حوالے سے پہلے ٹیلی وژن پھر کمپیوٹر کی طاقت بلا شرکتِ غیرے دنیا داروں کے حوالے کردی گئی، ذرائع ابلاغ پر بھی دنیا دار مسلمان قابض ہوئے کیونکہ مذہبی طبقات برق رفتار ترقّی اور نئے معاشرتی رویّوں کی آفرینش سے کٹ کر اپنے متعیّن معمولات سمیت مساجد اور خانقاہوں میں محدود رہے۔

مغرب میں سائنسی ایجادات انسانوں کی زندگی میں سرائیت کر گئیں بلکہ انکی اقدار میں گڈ مڈ ہوکر گندھ گئیں ۔ سائنس کے اثر سے مغرب میں پرانے عقائد کی جگہ نئے خیالات کی پذیرائی اور مذہب کی پسپائی کے عوامل کچھ اور تھے مگر اس کا ہمارے یہاں غلط مطلب لیا گیااورسائنسی ، مذہبی اور معاشرتی نظریات کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے کی صلاحیت یہاں مفقود رہی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہم لوگ نہ صرف سائنس کو صرف علوم کا مجموعہ سمجھنے میں تأمّل کرنے لگے بلکہ ہمارے معاشرے میں سائنس مغربی اقدار کی نمائندہ بھی سمجھی جانے لگی۔ جدید علوم کو .سائنس. کا نام دے تو دیا گیا مگر لوگوں نے ان علوم کو مغرب کی میراث ہی جانا۔ یہ تائثر رفتہ رفتہ پختہ ہوتا گیا کہ سائنس ایک مغربی غیر اسلامی ایجنڈاہے جو ہمارے عقائد اور ایمانیات اور طرز حیات پر حملہ آور ہے۔ یہ خیالات لا شعوری طور پر ایک طرح کے احساس کمتری کی پرورش کرتے رہے جس سے تعلیم یافتہ ذہن کنفیوژن کا شکار ہوا۔ ان حالات میں ہمارے معاشرے میں عمومی اور خصوصی رائے میں تضاد آیا۔ تعلیم یافتہ لوگ سائنس کی جدید ایجادات کی طرف کھنچے جبکہ مذہبی طبقات اس سے نہ صرف دور ہوئے بلکہ عوام کو بھی دور رہنے کا مشورہ دیا۔ اس خلیج نے جدید تعلیم یافتہ کو مغربی افکار کی طرف دھکیلا۔اپنے عقائد کے حوالے سے احساس کمتری اور مخمصوں کا شکاریہ تعلیم یافتہ طبقہ سائنسی ترقی سے مرعوب ہوکر ایک قدم آگے بڑھ کر سائنسی کے ساتھ مغرب کے معاشرتی نظریات کو بھی قبول کر نے لگا، جسکی وجہ مناسب مذہبی رہنمائی کا فقدان ہی رہا۔ اس دوران سائنس کی پیش قدمی جاری رہی اور نئی نئی ایجادات انسانوں کی زندگی آسان بناتی رہیں ۔ مذہبی حلقوں کی لاتعلقّی سے یہاں غیر مذہبی اور مغرب زدہ طبقات کو کھلی چھٹی ملی اور وہ سائنس یعنی جدید علوم اور دریافتوں کے غیر متنازعہ وارث بن کر جدید ذرائع ابلاغ پر قابض ہوگئے۔ مغرب میں کیونکہ عقل کی برتری کے نظریات اورسائنس مل کر مذہب کو معاشرتی زندگی میں محدود کرچکے تھے تو اسی کا اثر یہاں بھی پڑا اور لبرل اور سیکولر خیالات کے نعرے بلند ہوئے۔

جو بات عوام کو بتانے کی ہے وہ یہ کہ سائنس اور اسکی ایجادات انسانوں کی میراث ہیں۔ جو بھی انسان چاہے آگے بڑھ کر علم حاصل کرسکتا ہے اور کوئی بھی نئی ایجاد کبھی بھی مذہبی نہیں ہوتی بلکہ انسانی ہوتی ہے۔ کسی علم کو مخصوص مذہب یا کسی خاص طبقے سے جوڑنا غلط ہے۔ ہر ایجاد دو رخ رکھتی ہے یہ ہم پر ہے کہ اس سے کیا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مغرب نے مذہب کو ایک کنارے کرکے اپنی اقدار جدید نظریات کے حوالے کردی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھی ایسا کریں۔ مغرب کی اندھی نقّالی کی تائید صرف وہی کریں گے جو اپنی اقدار کے حوالے سے کسی احساس کمتری میں مبتلا ہوں یا مغرب سے مرعوب ہوں۔

علم کسی قوم کی میراث نہ کبھی رہا نہ ہوگا۔جب مسلمانوں نے ریسرچ کی اور علوم میں آگے نکلے تو اُس وقت مغرب نے اس سے استفادہ کیا لیکن اپنی اقدار نہیں چھوڑیں۔ اب یہی ہم کو کرنا ہے کہ علم کو علم جانیں اور اسے تہذیب اور عقائدسے خلط ملط نہ کریں۔ اس احساس کو دفن کردیں کہ جدید علوم مغرب کے آلہ کار ہیں بلکہ آگے بڑھ کر انکو حاصل کریں اور اس میں اضافہ کریں۔ جدید سائنسی علوم کا جائزہ لیکر اس میں داخل انسانی نظریات جیسے الحاد کو علیحدہ کریں۔ سائنس کو خالص کریں اور سینے سے لگائیں۔
قرآن میں غور کریں تو :

جدید سائنس اسلام کی ذیلی شاخ ہے، ہم نے اسے اسلام کے مقابل کیا یا اسے مخالف جانا جو کہ ایک سنگین غلطی ہے۔
کیا ہم اپنے مذہب کو اسکا اصل مقام دے سکتے ہیں۔

کیا ہم اپنے معاشرے اور اقدار میں سائنس کو گوندھ سکتے ہیں۔

کیا ہم جدید مغربی نظریات کی خامیاں سائنسی بنیادوں پر عیاں کر سکتے ہیں؟

کیا ہم جدیدیت کے اثرات کو موئثر علمی تحقیق اور جوابی پروپیگنڈے سے زائل کرسکتے ہیں؟

کیا ہم میں یہ موڑلینے کی صلاحیت اور دانش ہے؟

ذرا سوچیں !

ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے