سعودی اصلاحات

25 ستمبر 2011ء کو شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی نئی شوریٰ کونسل کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خواتین کو کونسل کی رکنیت کا حق دینے کا بھی اعلان کیا۔ شاہ عبداللہ نے کہاکہ ”ہم خواتین کو معاشرے میں دیوار سے لگانے سے انکار کرتے ہیں۔ ہم نے سینئر علماء اور اعلیٰ سطح کے دیگر افراد سے مشاورت کے بعد شریعت کے مطابق‘ خواتین کو معاشرے میں حاصل تمام کردار دینے کا فیصلہ کیا ہے اور شوریٰ کونسل کی نئی مدت سے خواتین کو بھی اس کی رکنیت دی جائے گی‘ خواتین امیدوار کے طور پر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے سکیں گی اور انہیں ووٹ کا بھی حق حاصل ہو گا‘‘۔ سعودی عرب میں صرف بلدیاتی اداروں کے نمائندوں ہی کا انتخاب کیا جاتا ہے اور دوسرے اداروں کے ارکان کی نامزدگی شاہ کی جانب سے ہوتی ہے۔

شوریٰ کونسل میں خواتین کو نمائندگی کا حق دینے کا فیصلہ شاہ عبداللہ کی وسیع تر اصلاحات کا حصہ ہے‘ جس کے تحت خواتین کو معاشرتی زندگی میں ایک فعال رکن بنانے کی جانب قدم بڑھایا جارہاہے۔ 2009ء میں سعودی عرب کی پہلی مخلوط یونیورسٹی کا قیام اس ضمن میں نہایت جرأت مندانہ اقدام تھا‘ جدہ کے شمالی قصبے میں قائم اس یونیورسٹی میں طلباء وطالبات ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

دوسرا اہم اقدام یہ تھا کہ خواتین کو ایسے گارمنٹس سٹورز پر جہاں صرف خواتین کے ملبوسات فروخت کیے جاتے ہوں‘ ملازمت کی اجازت دی گئی۔ شاہ عبداللہ کی اصلاحات کی وجہ سے سعودی عرب تبدیل ہورہا ہے‘ گوکہ اس تبدیلی کی رفتار بہت سُست ہے اور بیرونی دنیا کو ابھی اس کا احساس نہیں ہو پایا ہے۔ خواتین پر عائدسفری پابندیوں میں نرمی کردی گئی۔ اس اقدام اور خواتین کو کار چلانے کی اجازت دینے سمیت سعودی عرب میں خواتین کو شخصی حقوق دینے کا اقدام دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ سعودی عرب ملکی افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کے لیے دورس نتائج کی حامل وسیع تر اصلاحات پر عمل پیرا ہے۔

اگر خواتین افرادی قوت سے متعلق تدریسی مواد پر ایک نظر ڈالی جائے تو اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ حکومت ایک باقاعدہ طے شدہ طریق کار کے تحت اصلاحات کر رہی ہے۔ حالیہ اصلاحات سے قبل بعض ایسی پالیسیاں اختیار کی تھیں‘ جن سے افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کو فروغ ملا ہے۔ سعودی عرب میں سرکاری شعبے میں اوقات کار قدرے مختصر ہیں اور یہ سکول کے اوقات کے مطابق ہیں۔ اس وجہ سے یہ خواتین اور بچّوں کے لیے بہت مناسب ہیں۔ بچے کی پیدائش کے وقت سرکاری شعبے میں برسرروزگار ماؤں کو بین الاقوامی معیار کے مقابلے میں تھوڑی کم چھٹیاں دی جاتی ہیں‘ وہ مکمل تنخواہ کے ساتھ چھتیس روز تک چھٹی کرسکتی ہیں۔سالانہ پندرہ سرکاری تعطیلات ہوتی ہیں۔

ان پالیسیوں کی بدولت‘ قانونی‘ اقتصادی اور ثقافتی رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے اقدامات سے خواتین کی افرادی قوت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ 2017ء میں ان کی یہ شرح 18 فی صد کے لگ بھگ تھی۔ ماضی میں سعودی خواتین کو گھر سے باہر کام یا ملازمت کے لیے اپنے مرد سرپرستوں کی اجازت لینا پڑتی تھی‘ انہیں ڈرائیونگ کی اجازت نہیں تھی اور انہیں اہم عہدوں یا قیادت کی سطح پر بھی فائز نہیں کیا جاتا تھا‘ لیکن اب انہیں یہ سب کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے‘ مگر اس کے باوجود معاشرتی سطح پر خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا‘ ایک طرح سے ان کے سماجی سطح پر کام کی عدم منظوری ہے۔

سعودی حکومت نے گزشتہ پانچ سال کے دوران خواتین کو افرادی قوت کا حصہ بنانے کے لیے نمایاں اور دُوررس نتائج کے حامل اقدامات کیے ہیں۔ اس کی اصلاحات کا تنوع اور گہرائی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ماضی میں سعودی عرب میں خواتین کی شرح روزگار سب سے کم تھی۔اب ‘سعودی حکومت اس مظہر کو تبدیل کرنے کے لیے منظم انداز میں اصلاحات پر عمل پیرا ہے۔

2018ء کے اوائل میں سعودی حکومت نے مملکت میں بچوں کی نگہداشت کے لیے 233 نئے مراکز کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ دراصل یہ مراکز ان ماؤں کو بچوں کی دیکھ بھال کے سلسلے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے قائم کیے جارہے تھے‘ جو اپنے گھروں میں بچوں کے دادا دادی یا گھریلوملازمین کی نگہداشت سے مطمئن نہیں تھیں۔ سعودی حکومت ملازمت کرنے والی خواتین کو بچوں کی نگہداشت کے ضمن میں زرتلافی کی مد میں ہر ماہ 200 ڈالر سے زیادہ رقوم بھی دیتی ہے۔ سعودی عرب میں نافذالعمل لیبر قوانین جز وقتی کام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایسے ملازمین کو سوشل سکیورٹی‘ زیادہ وقت صرف کرنے پر اضافی تنخواہ‘ سالانہ رخصت اور بیماری کی صورت میں چھٹیاں دی جاتی ہیں۔

خواتین کی ڈرائیونگ پر عائد پابندی کے خاتمے سے ان کے کام کرنے کی راہ میں حائل ایک اہم رکاوٹ دور ہو چکی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران لیبر قوانین اور سرپرستی کے نظام میں تبدیلیوں نے خواتین کو درکار مردوں کی اجازت کی قانونی ضرورت کا خاتمہ ہواہے۔ اب‘ وہ ذاتی طور پر افرادی قوت میں شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔ سعودی حکومت ملازمتوں کے کوٹے کا بھی اطلاق کررہی ہے۔ اس کے تحت کاروباری ادارے اپنے کوٹے کے مطابق سعودی شہریوں کو اپنے ہاں ملازمتیں دینے کے پابند وہیں‘ نیز مختلف شعبوں میں اب سعودی شہریوں ہی کوغیرملکی تارکین وطن کی جگہ بھرتی کیا جارہا ہے۔ اس سے سعودی خواتین کے لیے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

الغرض سعودی حکومت معاشرتی سطح پر رویوں میں تبدیلی کے لیے بھی کوشاں ہے۔ خواتین بھی مردوں کی طرح خداداد صلاحیتوں اور اہلیت سے مالا مال ہوتی ہیں‘اگر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے ‘تواس میں کوئی قباحت نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے