سوالِ لا جواب

سال 2016ء سے آج 15جولائی 2019ء تک سوال ایک ہی ہے ۔ صرف ایک ہی لا جواب کا ابھی تک جواب نہیں آیا۔ قوم‘ نظام ‘ ادارے سارے کے سارے جواب کے منتظر ہیں۔سوال ہے کہ ٹال کر ہی نہیں دے رہا‘ کہتا ہے کہ…
سیدھے سیدھے سوال کرتا ہوں
اُلٹے اُلٹے جواب آتے ہیں

مگر یہ بھی تو نہیں ہوا۔ باقی سب کچھ ہو رہا ہے۔ ایسا کچھ جس کا ریکارڈ دنیا کی تاریخ میں کسی اور سے نہ بن سکا ۔سوال ہے ”پیسے کہاں سے آئے ‘منی ٹریل بتا دیں‘‘۔ ابھی تک اس تنہا سوال کے بیسیوںجواب آچکے ہیں‘جنہیں مختصر طور پہ10نکتوں میں یوں سمیٹا جا سکتا ہے۔

جواب نمبر 1۔ ہمارے دادا یونائیٹڈ انڈیا کے رئیسِ اعظم تھے۔

جواب نمبر 2۔ اباّ جی نے کمر باندھی۔ دبئی اور قطر جا کر وہاں محنت کشی کے کشتوں کے پُشتے لگا دیے۔

جواب نمبر 3۔ خود سا ختہ جلا وطنی میں سٹیل ملز اور جدہ العزیزیہ ۔

جواب نمبر 4۔ لندن میں تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں۔

پانچواں جواب۔ مجھے کیا پتا ؟ میرے بیٹوں سے پوچھ کر دیکھ لو۔ ویسے وہ پانامہ کے بعد انگریز شنگریز ہو چکے ہیں۔
چھٹا جواب۔ بے نامی اکائو نٹس ساری دنیا میں بنا ئے جا تے ہیں۔

ساتواں جوا ب۔ فالود ے والے‘ ٹریکٹر والے اور پاپوش والے بتائیں… اُن کے اکائونٹس میں پیسے کہاں سے آئے۔
آٹھواں جواب۔ میرا بیٹا معصوم ہے اسے صرف 4ارب 86کروڑ کے اثاثے تحفے میں ملے‘ کہاں سے آئے ہیں‘کون بھیج رہا ہے یہ تحفے‘کسی کی کیا ”مجا ل‘‘ کہ ہم سے ایسے سوال کر سکے۔

جواب نمبر 9۔ میری سسٹر کے ڈرائیور‘ گارڈ ‘باورچی اور کام دار‘ ارب پتی ہو گئے۔ اس میں ہماری کیا خطا ۔
10نمبری جواب۔ ٹی ٹی کے نمبرز خواتین سے پوچھو ‘بچوں اور دامادوں سے ۔ مگر یاد رکھنا میں پھر آئو ں گا اور کسی کو معافی نہیں ملے گی۔

فرض کریں آپ ٹرائل جج ہیںیا فرض کریں آپ تفتیشی ہیں۔یا پھر یہ فرض کرلیں کہ محلے والوں نے آپ کو چیف آف جرگہ بنا دیاہے۔ چوری ‘لوٹ اور پلنڈر کے مال پر ایک سوال کے جواب میںیہ 10اور ایسے 10ہزار دوسرے جواب آجائیںتو آپ فیصلہ کیا کریں گے‘ چارج شیٹ کا جواب کہاں ہے۔ دنیا بھر کے سارے قوانین میں الزام کا جواب‘ جوابی الزام نہیں ہوتا۔ اسے ایک آسان مثال سے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر مجاز عدالت کسی پر قتل کی فردِ جُرم عائد کردے ‘ جس کا پہلا سوال یہ ہو : کیا تم مقتول کو جانتے ہو ؟جوابِ ملز م آئے کہ جاننے سے کیا فرق پڑتا ہے ‘ لوگ انجانے میں بھی مارے جاتے ہیں اور جان بوجھ کر بھی۔ پھر وجۂ عناد پر عدالت یہ سوال پوچھے: کیا تمہارا مقتول سے جھگڑا تھا؟

جواب آئے: جھگڑا تو نارتھ کوریا کے چیئر مین (Kim Jong-un)اور امریکہ بہادر کے صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے درمیان بھی تھا۔ جہاں جھگڑنے والے ہوں گے وہاں جھگڑا ہو نا قدرتی بات ہے۔ اگلا سوال ہو: آپ نے اس پستول کی گو لی سے مقتول کو مارا تھا؟ جواب آئے: پستول ہر طرح کے ہوتے ہیں۔ گولیاں کچھ ولایتی اور بہت سی دیسی بھی مل جا تی ہیں۔ پھر سوال آئے کہ پولیس نے تمہارے خلاف قتل کا مقدمہ کیوں درج کیا؟ جواب آئے کہ پولیس کا کام ہی مقدمے درج کرنا ہے۔ یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ غریب عوام کی ترقی روکنے کا ایک حربہ ۔ ملک کو ڈیفالٹ میں لے جانے کی مکروہ کوشش۔ بچہ‘ بچہ جانتا ہے قتل ‘قتل ہوتا ہے او ر ملزم‘ ملزم ہوتا ہے۔ خلائی مخلوق‘ خلائی مخلوق ہوتی ہے۔مگر مجھے یہ تو بتائو کہ مجھے کیوں نکالا۔ دوبارہ فرض کرتے ہیں۔ اس قضیے کے منصف بھی آپ ہیں۔ ذرا بتا ئیے تو ملزم کی شہادتِ صفائی (Defence version of accused) سے آپ کیا نتیجہ اخذ کریں گے ؟

اب ذرا چلیے صرف ایک سوالِ لا جواب پر بیانیہ نمبر دو کی جانب۔پاکستان کی عدالتی نظائر(Judicial precedent)میں شاہد نبی ملک بنام اسحاق ڈار اہم مقدمہ ہے ‘جس کی سماعت کے دوران نوازشریف نے اسحاق ڈار کے حق میں اپنا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا۔ اس بیانِ حلفی پر 2قانونی اصول وضع ہو گئے۔ مدعا علیہِ یا ملزم کا پورا بیان مدِ نظر رکھ کر اس کے صرف 2نتا ئج نکالے جا سکتے ہیں۔

پہلا نتیجہ ‘ پورے کے پورے بیان کو مسترد کر دیا جائے ۔

دوسرا نتیجہ ‘سارا بیان درست مان لیا جائے۔ دوسرا قانون کوڈ آ ف کریمنل پروسیجر مجریہ 1898ء کی دفعہ342ہے ‘ جس میں مقدمے کی سماعت کرنے والا جج تقریباًویسے ہی سوال ملزم یا متُہم سے پوچھتا ہے‘ جیسے اوپر درج ہیں۔ ملزم کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفا ع میں سوالوں کے جوا ب آزادی سے دے‘مگر عدالت کو342ض ف کے بیان کے بارے میں صرف ایک ہی اختیا ر حاصل ہے اور دوسری جگہ اسے بے اختیار رکھا گیا۔ عدالتی اختیار یہ ہے کہ ملزم کا پورا بیان یا درست مان لیا جائے گا یا نہیں مانا جائے گا۔ لیکن عدالت کو یہ قانونی اختیا ر با لکل بھی حاصل نہیں کہ وہ ملزم کے بیان میں سے اپنی مرضی کے incriminating حصے نکال کر اُس کو سزا سنا دے‘ لہٰذا جو بھی بیانات ایک عدد سوالِ لا جواب کے بارے میں جاتی امرا والے ریکارڈ پر لے کر آئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں…
میری ساری عمر میں!ایک ہی کمی ہے تُو…

سوال کا جنجال پورہ دھمکی‘ تقریر اور ہر طرح کی شو بازی کے با وجود بھی رُکنے وا لا نہیں‘ جس کا سبب کالے شاہ کالے کرتوت ہیں۔ مثال کے طور پر اتوار کے دن بر سرِ بازار آنے والے 2مزید کارنامے۔پہلا کارنامہ لندن کے معروف اخبار ”ڈیلی میل‘‘ نے کھوج نکالا۔ ڈیلی میل کے عالمی شہرت یافتہ کارسپانڈنٹ Mr.David Roseنے مفصل تحقیقاتی رپورٹ میں الزام لگایا کہ شہباز شریف کے دورِ اقتدار میں بر طانوی حکومت نے متاثرینِ سیلاب کے لیے 500 ملین پا ئونڈ سٹرلنگ کی امداد دی تھی۔

ڈیلی میل نے برطانوی تحقیقاتی اداروں کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ یہ رقم شریف خاندان نے منی لانڈرنگ میں استعمال کر دی۔ ڈیلی میل نے مزید انکشاف کیا کہ اس منی لانڈرنگ کے لیے آفتاب محمود نامی شخص نے فرنٹ مین کا کردار ادا کیا تھا‘اوراس مکروہ دھندے میں شہباز خاندان کے لیے کروڑوں پائونڈز کی منی لانڈرنگ کا اعتراف بھی کر لیا۔ مبینہ طور پر برطانوی ٹیکس پیئر ز سے جمع کر کے بھیجی گئی ٹیکس منی میں سے 1 ملین پائونڈ شہباز شریف کے داماد کو ملے۔ لانڈر کی گئی ڈرٹی منی کی رقم پاکستان سے بر منگھم بھجوائی گئی جہاں سے فرنٹ مین نے یہی رقم قوم کی لو ٹ پر پلنے والے بینک اکائونٹس میں بھجوا دی ۔

ذرا اب چلیے پاکستانی میڈیاکے انکشاف کی جانب۔ سابق امریکی صدر کی بیگم مشعل بارک اوبامہ نے 20 ملین ڈالرز پاکستان میں غریب بچوں کی تعلیم کے لیے بھجوائے۔ مبینہ طور پر یہ رقم سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کو دی گئی‘ حکومتِ پاکستان کو نہیں۔ صاحبزادی نے اپنی ایک ہم نام کے بھائی کو پراجیکٹ ڈائریکٹر بنایا اور پاکستان ورکس ڈیپارٹمنٹ (P.W.D) کو نظر انداز کر دیا۔ PEPRA رولز کی پروا کیے بغیر یہ رقم خرچ کر دی گئی۔ کہاں ؟ اس کا حساب کتا ب کسی کھاتے میں نہیں۔ اس مظلوم پاک سر زمین کو سیاست کے ایک اور شوقیہ فنکار نے 6ارب ڈالر جرمانے کا ظالمانہ ٹیکہ لگوا دیا۔ ایسے لگتا ہے جیسے قدرت کو پاکستا ن پر رحم آگیا اور سوالِ لا جواب اپنا جواب لے کر رہے گا ۔دروغ گوئی کی ساری مشقِ ستم سچ کو راستہ بنانے سے کبھی نہیں روک سکی ۔محترم ظفر اقبال ایڈووکیٹ صاحب نے سچ کہا…
فصیلِ شوق اٹھانا‘ ظفر ضرور‘ مگر
کسی طرف سے نکلنے کا راستا رکھنا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے