شادی کے کچھ ہی سال بعد طلاق کا ’اندھیرا‘

اپنے لیپ ٹاپ کی سکرین کے سامنے بیٹھی ریچل اچانک رونے لگتی ہیں۔ 28 سال کی ریچل اپنے شوہر کے ساتھ پہلے اسی گھر میں رہتی تھیں لیکن اب وہ اکیلی ہیں۔

ان سے دو سو میل دور ان کے شوہر راب کا گھر ہے جو سرکاری ویب سائٹ پر طلاق کے لیے مشورے پڑھ رہے ہیں۔ راب کی بیوی ریچل ایک سال پہلے انھیں چھوڑ کر جا چکی ہیں۔

وہ ذہنی تناؤ کا شکار تھیں اور کچھ عرصے تنہا رہنا چاہتی تھیں۔ راب کہتے ہیں کہ ‘میں نے اس وقت بھی انھیں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تھا اور نہ اب ٹھہرا رہا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے جانے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا، میں پوری طرح ٹوٹ چکا تھا لیکن اب میں زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں سب کی بھلائی کے لیے۔‘

راب کے دو بچے ہیں جنھیں وہ تنہا ہی سنبھالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وہ زندگی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

انگلینڈ کے سرکای اعدادو شمار کے مطابق 2017 میں انگلینڈ اور ویلز میں ایک لاکھ دو ہزار سے زیادہ طلاقیں ہوئی تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے چالیس سال کی عمر کے آس پاس طلاق لی۔

لیکن بارہ ہزار ایسے لوگ تھے جنھوں نے ریچل اور راب کی طرح بائیس سے پچیس سال کی عمر میں ہی طلاق لے لی۔

جو لوگ 18، 19 سال یا 20، 22 سال کی عمر میں شادی کر لیتے ہیں ان کی شادی ٹوٹنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق 1976 میں 50 فیصد ایسی خواتین نے طلاق لی جو 20، 22 کی عمر میں شادی کر چکی تھیں اور شادی کے تیس سال بعد انھوں نے طلاق لی۔ ریچل نے بھی ایسی ہی عمر میں شادی کی تھی۔

ریچل کا کہنا تھا کہ یہ بہت دردناک تھا۔ ’دو سال تک مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے میری شخصیت کچل کر رہ گئی ہو۔ مجھے پہلے ایسا کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔ اس رشتے میں مجھے بہت دکھ ملا تھا۔ جس رشتے کے بارے میں میں نے سوچا تھا کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے وہ یکدم سے ختم ہو گیا تھا۔‘

جب ایک رشتے میں جذبات کم ہونے لگتے ہیں تو اس رشتے کے خاتمے کی شروعات ہو جاتی ہے۔ریچل اور راب دونوں ہی خود کو ایک ’متاثرہ شخص‘ کے روپ میں دیکھتے ہیں۔

ریچل بتاتی ہیں کہ ’ہماری شادی کے دو سال بعد مجھے پتہ چلا کہ میرے شوہر کا دوسری عورت کے ساتھ افیئر چل رہا ہے۔ مجھے بہت برا لگا لیکن میں یہ شادی ختم نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے میں نے کچھ مہینے اپنی شادی بچانے میں لگائے۔‘

لیکن بھروسہ ختم ہونے کے سبب رشتہ خراب ہوتا چلا گیا اور آخر میں ان دونوں نے طلاق لینے کا فیصلہ کیا۔

راب بتاتے ہیں کہ بیوی کے جانے کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ اگر قانونی طور پر طلاق لینی ہو تو ایک سال اور اس رشتے میں رہنا پڑے گا۔ راب کہتے ہیں کہ انھیں ایسا لگا کہ وہ اپنی زندگی میں آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔

دونوں نے انتظار کرنے کے بجائے نامناسب رویے کی بنیاد پر طلاق کی عرضی داخل کرنا مناسب سمجھا۔

ریچل کہتی ہیں کہ یہ اس وقت زیادہ مشکل ہوجاتا ہے جب آپ کے تمام دوست زندگی میں سیٹل ہو رہے ہوں۔

31 سال کی روبی نے شادی کے دو سال بعد اپنے شوہر سے طلاق لینے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ ایک روایتی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جہاں شادی کو مذہب سے جوڑ کر دیکھا جا تا ہے۔ روبی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے شوہر سے ملنے کے ایک سال کے اندر اندر شادی کر لی تھی۔

’ہم دونوں ایک دوسرے سے باکل مختلف تھے۔‘

روبی کہتی ہیں کہ ‘وہ کئی چیزوں میں اچھا تھا لیکن ہر چھوٹی بات پر ہماری بحث ہو جاتی تھی، جھگڑے ہوتے تھے، غلط فہمیاں کافی بڑھ گئی تھیں۔ پھر ایک دن میں نے اسے کسی دوسری عورت کے ساتھ دیکھا، اس دن مجھے لگا کہ ہم دونوں کو شادی کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔‘

روبی کی ماں نے طلاق کے دوران ان کا ساتھ نہیں دیا، ’وہ کہتی تھیں کہ تم ایک بہتر بیوی بنو‘۔

روبی اپنا گھر چھوڑ کر الگ رہنے لگی تھیں۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر راہل اینڈریو بتاتے ہیں کہ جب آپ کے آس پاس کے لوگوں میں بہت کم لوگ اس تجربے سے گزرے ہوں تو آپ زیادہ تنہا محسوس کرتے ہیں۔

ریلیشنشِپ تھیراپِسٹ اور ‘ہیپی کلب ہینڈ بک’ کے مصنف اینڈریو جی مارشل اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘طلاق ہمیشہ آپ کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ اس کے شکار لوگوں میں ناکامی اور شرم کے جذبات پیدا ہونا قدرتی ہے اور ایسے جذبات ان حالات میں زیادہ بڑھ جاتے ہیں جب آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو محبت کرتے دیکھتے ہیں۔‘

ریچل کے لیے بھی اپنے دوستوں سے ملنا مشکل ہو گیا تھا۔

ریچل کہتی ہیں ‘میرے دوست اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا رشتہ نبھا رہے تھے اس لیے ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے میں مجھے پریشانی محسوس ہوتی تھی۔‘

ڈاکٹر اینڈریو کہتے ہیں کہ ’آپ کے دوستوں میں اگر سب سے پہلے آپ کی شادی ٹوٹتی ہے تو جذباتی تناؤ ہوتا ہے۔ آپ کے اندر غصہ، ڈر، اداسی جیسے جذبات ہوتے ہیں لیکن آپ کو زندگی کا جتنا تجربہ ہوگا آپ ان جذبات کو صحیح جگہ استعمال کرنا سیکھ جائیں گے۔ لیکن نوجوان لوگوں کو یہ سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے۔‘

راب کہتے ہیں کہ انھوں نے شراب پی کر لوگوں سے جھگڑے کیے اور نشے میں اپنے ہی گھر کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ ڈالے۔

راب کہتے ہیں کہ ان کے دوست انھیں سہارا دینے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ انھیں لگتا تھا کہ ’مجھے باہر لیجانے سے یا شراب پینے سے میں بہتر محسوس کروں گا لیکن بس آخر میں میں رونے لگتا تھا اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ مجھے لگا کہ میں شراب پینا چھوڑ دوں گا تو ٹھیک ہو جاؤں گا اس لیے میں نے چھ مہینے شراب نہیں پی۔‘

روبی نے بھی اپنے ماں باپ اور دوستوں سے فاصلہ بنایا اور دوسرے شہر جا کر نئی ملازمت کرنے لگیں۔

چھ مہینے بعد وہ پھر ڈیٹ کرنے لگیں، وہ کہتی ہیں ’پہلی ڈیٹ بہت بری رہی۔ میں 29 سال کی تھی اور لڑکا 26 سال کا، جب میں نے اسے بتایا کہ میں طلاق لے رہی ہوں تو اس کا رویہ بہت عجیب ہو گیا۔ اس کے بعد میں طلاق کے بارے میں لوگوں سے کم ہی بات کرتی تھی’۔

ڈاکٹر اینڈریو کہتے ہیں کہ ’رشتہ ختم ہونے کے بعد اس طرح کے جذبات پیدا ہونا عام ہے۔ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جو کچھ ہوا وہ آپ دونوں کے درمیان رشتے کے سبب ہوا، اس پر نہ آپ پر کوئی سوالیہ نشان لگا رہا ہے نہ دوسرے پر۔‘

روبی اور ریچل نئے رشتے کی شروعات سے پہلے کچھ وقت لینا چاہتی ہیں۔ لیکن راب نے حال ہی میں کسی کو ڈیٹ کرنا شروع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پہلی بیوی اور وہ اچھے دوست ہیں، شروعات میں انھیں پریشانی ہوتی تھی لیکن اب حالات بہتر ہیں۔

روبی بھی اب آہستہ آہستہ اپنے گھر والوں سے ملنے لگی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ طلاق نے مجھے سکھایا کہ کسی بھی کام کے لیے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور اپنی خوشی کے لیے میں خود ہی ذمہ دار ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سفر مشکل ضرور تھا لیکن ایک لمبے اندھیرے کے بعد اب یہ ایک روشنی جیسا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے