طالبعلم طفیل الرحمن کا گناہ کیا تھا؟

اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر اہتمام ہونے والے ایک تقریب طلباء کے ایک گروہ نے حملہ آور ہوکر گلگت وادی اشکومن سے تعلق رکھنے والے طالبعلم طفیل الرحمن کو شہید کردیا ہے۔ اس تقریب میں حملہ آور ہونیو الوں کا تعلق مبینہ طور پر سرائیکی تنظیم سے بتایا جارہا ہے۔ تقریب میں اس وقت حملہ کیا گیا جب جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور سابق پارلیمنٹیرین لیاقت بلوچ تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ اسی اثناء مبینہ طور پر لسانی تنظیم نے اسلحہ سے لیس ہوکر فائرنگ شروع کردی جس کا نشانہ معصوم طالبعلم طفیل الرحمن بن گئے۔انا للہ و اناالیہ راجعون۔

اس سے قبل گزشتہ سال کے اوائل میں گانچھے سے تعلق رکھنے والے طالبعلم دلاور عباس کو لاہور میں بے دردی سے قتل کیا گیا تھا، جس پر شدید احتجاج کیا گیا اور طلباء تنظیموں نے گلگت بلتستان سے لیکرلاہور اور کراچی تک احتجاجی مظاہرے کئے، دلاور عباس کے اس اندوہناک واقعہ کی بھی اسی طرح مذمت کی تھی جس طرح آج طفیل الرحمن کے بے رحمانہ قتل پر غمزدہ ہوں۔

طالبعلم طفیل الرحمن کے والد مولانا سید عبدالجلال علاقے میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں اور خدمات کی وجہ سے معترف ہیں، بطور لیکچرر کالج اور بطور مدرس مدرسہ بھی انہوں نے طلباء کی بہترین تربیت کی ہے۔ مولانا سید عبدالجلال کے عزم و استقلال کو سرخ سلام ہوں، جنہوں نے اپنے جواں سال بیٹے کی میت کو سامنے رکھ کر یہ الفاظ ادا کئے کہ ’میرے سب سے چھوٹے، والدین اور بہن بھائیوں کے دلارے سید طفیل الرحمن ہاشمی کو شہید اور دوسرے متعدد طلبہ کو زخمی کردیا گیا ہے، اس واقعہ کی خبر سوشل میڈیا کے زریعے رات کو مل چکی تھی مگر میں نے اپنے اوسان پر مکمل قابو رکھتے ہوئے اناللہ وانا الیہ الراجعون کہ کر گھر والوں کو یہ خبر جانکاہ سنائی۔ میں اپنے لاڈلے بیٹے کی شاہدت کا اپنے مرشد سید مودودیؒ کے اتبار میں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایف آئی آر درج کرارہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ خود ان سفاک ظالموں، قاتلوں سے نمٹے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے غم کی گھڑی میں ساتھ دینے والے تمام احباب بالخصوص جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے رہنماؤں کا شکریہ بھی ادا کیا۔طفیل الرحمن ہاشمی کا جنازہ اسلام آباد میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پڑھایا جہاں سے میت کو گلگت اور بعد آبائی گاؤں روانہ کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ مولانا سید عبدالجلال اور اس کے پورے گھرانے میں مزید استحکام اور استقامت نصیب کرتے ہوئے یہ غم سہنے کی توفیق نصیب کرے۔

اسلامی جمعیت طلبہ اس وقت پورے ملک میں سب سے فعال طلباء تنظیم ہے، اس کے منشور اور سرگرمیوں کے قطع نظر طلباء کی تربیت اور مستقبل پر جاندار کردار ادا کررہی ہے۔ ایک کٹر مذہبی جماعت اور نظریے کے ساتھ منسلک ہونے کے باوجود حالیہ دنوں اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں ہی ’اسلام اور سیکولرازم‘ کے عنوان سے ایک مکالمے کا انعقاد کرکے انہوں نے اپنے دائرہ کار کو بھی وسیع کردیا ہے، مکالمے کی اس روش کو فروغ دینے میں اسلامی جمعیت طلباء کی یہ کاوش سنہرے حروف میں لکھی جانے کے قابل ہے۔اس کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ کے اس نوجوان معصوم کارکن پر کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے تو یہ کوئی نظریاتی لڑائی یا جنگ نہیں لگ رہی ہے بلکہ لڑائی اور جنگ وہی ہے جس کو تدارک کے لئے ’مکالمہ‘ کا انعقاد کیا گیاتھا۔ یہ بات اس لئے حقیقت اور مضبوط معلوم ہوتی ہے کہ پورے ملک میں لاہور میں ہسپتال میں گھس کر حملہ آور ہونے والے وکلاء کی داستان ابھی میڈیا پر جاری ہے، جبکہ آئے روز جگہ جگہ واقعات اور حادثات رونما ہورہے ہیں جو چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ ملک میں عدم برداشت عروج پر ہے، کسی بھی مخالف کو برداشت کرنے کی قوت اور صلاحیت باقی نہیں رہی ہے اور یہی حال اپنوں میں بھی ہے کہ جہاں بات بات پر بھڑک جانا روایت بن چکی ہے، اور اس تسلسل میں یہ کوئی پہلی قربانی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی معصوم لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے ہیں۔

اس واقعہ کی زمہ داری جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے انتظامیہ پر عائد کردی ہے اور ڈپٹی کمشنر گلگت نے بھی اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ پر امن طور پر اپنی تقریب سے مگن تھی کہ مسلح گروہ نے حملہ کرلیا ہے۔

گلگت بلتستان میں اس حوالے سے یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ طفیل الرحمن کے قاتلوں کے احتساب اور قانون کے شکنجے میں لانے کے لئے آواز کم نہ ہونے کے برابر ہے، اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی نے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ کرلیا باقی کسی طلباء تنظیم کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس واقعے پر رسمی مذمت ہی کرلے۔ صوبائی حکومت گلگت بلتستان کے کسی وزیر،مشیر کو بھی یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی ہے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کم از کم وفاقی حکومت یا ضلعی انتظامیہ اسلام آباد سے رابطہ کرے۔اس کی ایک ہی وجہ معلوم ہورہی ہے کہ کارکن اسلامی جمعیت طلبہ کا تھا۔ ایسی سوچ پر افسوس درافسوس کیا جائیگا۔ طفیل الرحمن ہاشمی کا جرم سامنے لایا جائے یا قاتلوں کو سامنے لایا جائے، طالبعلم لال لال کا دعویدار ہو یا سرسبز و شاداب کا علمبردار ہو، قتل کی کوئی وضاحت نہیں ہوسکتی ہے۔

اب وہ زمانہ بھی نہیں رہا کہ کسی کو اس کا وعدہ یاد دلایا جائے کہ وہ انتخابات سے پہلے کیا کیا دعوے کرتے تھے، اب ایسی باتیں یاد دلانے سے چڑچڑاپن غالب آجاتا ہے، کوئی تو امیر شہر کو اس بے گناہ کے قتل کی اطلاع دے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے