عمران خان، نوازشریف میں اور KPK

پچھلے کئی دنوں سے بعض سیاسی امور پر میں نے اپنی آرا کا اظہار کیا تو کئی ان دوستوں نے، جو "علمی” امور پر بالعموم میرے موقف کو پسند کرتے رہے، ان "سیاسی” آرا پر سخت حیرت کا، اور بعض نے صدمے کا، اظہار کیا۔ پہلے تو میرا خیال تھا کہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سارے پڑھے لکھے لوگ ہیں اور مانتے ہیں کہ ہر شخص کو رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے لیکن بعض تبصروں نے چند سطور وضاحت کے لیے لکھنے پر مجبور کردیا ہے ۔

1۔ سیاسی امور میں فوج کی آمریت کو میں قطعاً ناجائز سمجھتا ہوں اور میری خواہش، کوشش اور دعوت یہی ہے کہ فوج کو سیاسی قیادت کے ماتحت رہ کر ملک کی سلامتی اور بقا کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔ سیاسی امور کے علاوہ خالص فوجی امور، جیسے سوات آپریشن اور اس سے پہلے اور اس کے بعد قبائلی علاقوں میں آپریشنز ، پر بھی مجھے فوج کے موقف اور کردار دونوں پر سخت اعتراضات ہیں۔ ان سے بھی زیادہ سخت اعتراضات مجھے مالیاتی امور میں فوج کی دلچسپی سے ہے اور کرپشن کو میں نے کبھی صرف سیاست دانوں تک محدود فرض نہیں کیا۔ فوج کی قربانیوں کے اعتراف کے باوجود اس طرح کے معاملات پر تنقید میں ضروری سمجھتا ہوں اور کرتا آیا یوں۔

2۔ عمران خان کی سیاست اور پی ٹی آئی کے کلچر پر مجھے سخت تحفظات ہیں لیکن میں عمران خان کو یہودی ایجنٹ یا پی ٹی آئی کو یہودی ایجنڈے پر کارفرما نہیں سمجھتا ۔ نہ ہی میں جمعیت علمائے اسلام یا جماعت اسلامی یا کسی اور مذہبی سیاسی جماعت کو "کشتیِ نوح” مانتا ہوں۔ مذہبی سیاست کی ضرورت اور مذہبی سیاستدانوں کی بعض خوبیوں کا میں معترف ضرور ہوں لیکن ان جماعتوں کے کردار اور ان کے موقف پر کئی اعتراضات بھی کرتا ہوں۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد – ایم ایم اے – کی پانچ سالہ کارکردگی کا میں نے بڑے قریب سے مشاہدہ کیا ہے اور میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ وہ کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ہے۔ اسی طرح کے تحفظات مجھے قوم پرستوں اور پیپلز پارٹی کی سیاست پر بھی ہیں۔

3۔ موجودہ سیاسی بندوبست میں میرے نزدیک عمران خان کی حیثیت persistent objector کی ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ میاں صاحب میرے صوبے کے لیے وہ وحشیانہ طرز عمل اختیار نہیں کرپارہے جو کبھی ان کا خاصہ رہا ہے۔ صوبہ سرحد پر (جسے اب خیبر پختونخوا کہا جاتا ہے) آٹے کی بندش صرف ایک مثال تھی جو کل ذکر کی ہے اور جس سے ان کے اتحادی قوم پرست عوامی نیشنل پارٹی کے وزرا بھی ان کو نہیں روک پائے تھے۔اگر یہ چیخنے چلانے والے نہ ہوتے تو کیا آج پٹرول 64 روپے فی لیٹر پر بک رہا ہوتا؟ دیکھیے۔ آج بھی حکومت کو سفارش کی گئی ہے کہ وہ پٹرول کی قیمت میں 6 روپے 40 پیسے کا اضافہ کردے لیکن یقین کیجیے کہ حکومت ایسا نہیں کرے گی ۔ کیا اس کی وجہ وزیر برائے اپوزیشن امور جناب خورشید شاہ صاحب ہیں؟

4۔ نواز شریف صاحب کو ان کی کرپشن ، ان کے آمرانہ مزاج اور میرے صوبے کے خلاف ان کے تعصب کی بنا پر میں کسی طور بھی نہ جمہوری لیڈر مانتا ہوں اور نہ ہی قومی لیڈر۔ یہ میری سو فی صد ذاتی رائے ہے اور ڈھائی عشروں کے سوچ بچار پر مبنی ہے۔ اس موقف کی عمران خان یا پی ٹی آئی کے موقف سے مماثلت محض اتفاقی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ موقف رکھنے والا ہر شخص "انصافی” ہو، خواہ میں اس موقف کو بالکل مبنی بر انصاف کہوں۔

5۔ تو حضور ، آمریت کا میں سخت ترین مخالف ہوں لیکن جب میں میاں صاحب کی آمریت پر اعتراض کرتا ہوں تو آپ اسے لازماً آمریت کی ، یا عمران خان کی، حمایت سمجھ لیتے ہیں۔ اسی طرح آپ جمہوریت کی حمایت، یا آمریت کی مخالفت کو نواز شریف کی حمایت کے ساتھ لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ مجھے اسی سے اختلاف ہے۔ آمریت کی مخالفت کے وجوب سے نواز شریف کی حمایت کا وجوب ثابت نہیں ہوتا ۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص نواز شریف کا مخالف ہو اور اس کے باوجود وہ عمران خان کا ساتھی نہ ہو؛ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص عمران خان کی کسی بات کی حمایت کرتا ہو لیکن وہ منصف ہو، "انصافی” نہ ہو۔

دنیا بلیک اینڈ وہائٹ نہیں ہے۔ بہت سے رنگ اور بھی ہیں۔ یہ تو بش نے کہا تھا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو آپ دہشت گردوں کے ساتھ ہیں۔
ہاں ۔ یاد آیا۔ نواز شریف صاحب کے اولین مربی نے بھی کہا تھا کہ اگر آپ اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں تو مجھے اگلے پانچ سال کے لیے صدر مان لیجیے۔ یہ تو خواہ مخواہ ہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب اپنے اولین مربی کے اثر سے نکل آئے ہیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے