ماحولیاتی تبدیلی کے خوفناک سائے

اگست 2019 ء کے آخری ہفتے میں فرانس کے شہر بیرٹز میں گروپ آف سیون (جی7) کا اجلاس ہوا۔ جی سیون میں دنیا کے سات بڑے ممالک امریکہ، فرانس، کینیڈا، جرمنی، جاپان، اٹلی اور برطانیہ شامل ہیں۔ اس سال میزبانی فرانس نے کی، تین دن جاری رہنے والے اجلاس میں دوسرے علاقائی،سیاسی، فلاحی اور معاشی موضوعات کے ساتھ اہم موضوع کلائیمیٹ کرائسز اور بائیو ڈائیورسٹی تھے۔ لیکن جونہی کلائیمیٹ اور بائیو ڈائیورسٹی کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوا تو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ میٹنگ سے اٹھ کرچلے گئے۔

امریکہ کے صدر ٹرمپ اس سے پہلے بھی مختلف مواقعوں پرکلائیمیٹ چینج کے حوالے سے سوال پر یا تو خاموش ہوجاتے یا کوئی الٹا سیدھا جواب دیکر موقع سے فرار اختیار کرجاتے تھے بلکہ حقیقت میں صدرٹرمپ موسمی تغیر کو سرے سے دنیا کیلئے خطرہ تسلیم ہی نہیں کرتے۔ کلائیمیٹ چینج کی حقیقت اور اسکی تباہی پوری دنیا سالوں سے دیکھ رہی ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ اس حقیقت سے انکاری ہیں جسکی وجہ شاید رپبلکن پارٹی کو سپورٹ کرنے والی وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو گرین ہاوس گیسز کے اخراج میں مین سٹیک ہولڈرز ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ قدرتی وسائل کا بے دریغ اور غیر دانشمندانہ استمعال ہے جو کہ ملٹی نینشنل کمپنیاں کر رہی ہیں۔ اپنے فائدے کیلئے ضرورت سے زیادہ پروڈکشن پیداوار ان چند سرمایاداروں کو فائدہ تو پہنچا رہی ہے لیکن دوسری طرف ماحول میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کے خطرناک اثرات دنیا میں ہر نوع کی بقا کیلئے خطرہ بنتے جا رہے ہیں. دنیا میں آب و ہوا اور موسمیاتی مشاہدات کیلئے اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسی، ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن،کے مطابق پچھلے چار سالوں میں حیرت انگیز حد تک درجہ حرارت بڑھا ہے جو دنیا بھر میں لوگوں اور حیوانات کو ہجرت کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

کلائیمیٹ چینج کے حالیہ اثرات سے براہ راست ایک ارب سے زائد لوگ متاثر ہورہے ہیں جو پانی کی کمی، خوراک کی عدم موجودگی، گرم ہواؤں اور بیماریوں کی زد میں ہیں اور 2025 ء تک یہ تعداد دو ارب تک پہنچ جائے گی۔ موجودہ حالات میں افریقہ، مشرق وسطیٰ اور آسٹریلیا سمیت ایشیا میں لوگ پانی، خوراک کی کمی، خشکی،بیماریوں اور درجہ حرارت کے بڑھنے سے زرعی معیشت کمزور ہونے کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یورپ کے مختلف ممالک میں کلائیمیٹ چینج اور بائیوڈائیورسٹی کے موضوعات پچھلے چار سالوں سے زیر بحث ہیں اور چند ملکوں نے پالیسی سازی میں کلائیمیٹ چینج اور بائیوڈائیورسٹی کو شامل تو کر لیا ہے لیکن عملی طور اب بھی درجہ حرارت کو کم کرنے کیلئے متعین شدہ اہداف امریکا سمیت کسی بھی ملک نے پورے نہیں کئے۔

یورپی یونین سیٹلائٹ ایجنسی کے مطابق جون 2019 ء زمین پر اب تک سب سے گرم مہینہ ریکارڈ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ فرانس اور سپین کے علاوہ جرمنی میں بھی رواں سال درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھا تھا جو اس سے پہلے جرمنی میں کھبی ریکارڈ نہیں ہوا تھا۔ ری پبلکن پارٹی کے اقتدار میں آنے سے لیکر اب تک کلائیمیٹ چینج کے حوالے سے امریکہ کی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی بلکہ امریکہ عالمی معاہدے پیرس ایگریمینٹ سے بھی 2017 ء میں دستبردار ہو چکا ہے۔ کلائیمیٹ اور بائیوڈائیورسٹی کے حوالے سے مختلف عالمی معاہدے موجود ہیں لیکن کانفرنس آف پارٹیز (سی او پی) کے تحت پیرس ایگریمنٹ2015 ایک منفرد اور مضبوط معاہدہ تسلیم کیا جاتا تھا جسے دنیا کے تقریبا184 ممالک نے سائن کیا تھا۔ پیرس ایگریمنٹ کے تحت تمام ممالک کلائیمیٹ چینج کے اثرات کو کم کرنے کیلئے کاربن کے اخراج میں کمی کریںگے اور ماحول کے پائیدار تحفظ کیلئے ایک جامع لائحہ عمل اختیار کریں گے

لیکن اس معاہدے سے امریکہ کا دستبردار ہونا پوری دنیا کیلئے ایک خوفناک پیغام تھا۔ موسمی تغیر کے اثرات امریکہ میں بھی بنی نوع کیلئے خطرہ ہیں۔ موسمی تغیرکی حقیقت کو ٹرمپ مانے یا نہ مانے لیکن باقی دنیا نے تسلیم کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ نے2019ء میں دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ کلائیمیٹ چینج قرار دیا ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام سائنسدانوں نے واضح کر دیا ہے کہ قدرتی وسائل کا بے دریغ استمعال اور ماحول میں کاربن کے زیادہ اخراج کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ہر ذی روح کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کے علاوہ دوسرے ممالک کے لیڈر بھی موسمی تغیر کو خطرہ تسلیم نہیں کرتے۔ ایمازون میں برساتی جنگلات، جو زمین کے پھیپھڑوں کے حوالے سے بھی مشہور ہیں، میں آگ لگنے کے بعد برازیل کے صدرجیر بولسونرو برازیل سمیت پوری دنیا میں شدید تنقید کا سامنا کر رہے ہیں۔

بیشتر سماجی کارکن ایمازون میں آگ کو برازیل کے صدر کی ماحولیات کے حوالے سے ناقص پالیسیوں کیساتھ جوڑ رہے ہیں۔ ایمازون جنگلات دنیا کی20 فیصد لوگوں کو آکسیجن مہیا کرنے کا واحد قدرتی ذریعہ ہیں۔ یاد رہے کہ موسمی تغیر کے اثرات پر بحث1950 میں شروع ہوچکی تھی جس نے90 کی دہائی میں شدت اختیار کی اور مختلف حلقوں اور نظریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ماحولیاتی تبدیلی اور اسکے بڑھتے ہوئے اثرات کو زیر بحث لانے کیلئے بہت کوششیں کیں۔ اس حوالے سے ایکوفیمنسٹ موومنٹ کا بھی بہت بڑا کردار رہا ہے۔ ان کوششوں کے بعد پہلی بار اقوام متحدہ نے90 کی دہائی میں اقداما ت کئے،1995 میں یونائیٹڈ نیشن فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج عا لمی معاہدہ ہوا جس کے تحت پائیدار ماحول کیلئے پوری دنیا کام کرے گی۔ لیکن بدقسمتی سے24 سال گزرنے کے بعد بھی اب تک کلائمیٹ چینج کے حوالے سے سوائے چند ملکوں کے بیشتر ممالک کی جانب سے عملی کارکردگی سامنے نہیں آئی۔

کلائمیٹ چینج کے حوالے سے امریکہ، چین، برطانیہ، برازیل اور دوسرے بڑے ممالک خاموش تو ہیں لیکن یہ خاموشی مزید نہیں چلے گی کیونکہ اس حوالے سے دنیا بھر میں مختلف طبقوں اور خصوصی طور پر نوجوانوں کا احتجاج روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے۔ 15 مارچ 2019 ء کو دنیا بھر میں ’سکول سٹرائک فار کلائمیٹ‘‘ کے نام سے ایک عالمی احتجا ج ہوا۔

123 ممالک کے مختلف شہروں میں کیا گیا یہ احتجاج اب تک دنیا کا سب بڑا احتجاج تصور کیا جاتا ہے۔15 مارچ کو دنیا بھر میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبا کلاسز چھوڑ کر سڑکوں پر نکلے اور موسمیاتی تبدیلی پر فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کر دیا۔ یاد رہے کہ ’’سکول سٹرائک فار کلائمیٹ‘‘ کی بنیاد سویڈن کی 16 سالہ گریٹا تنبرگ نے اگست 2018 میں رکھی تھی۔ گریٹا نے جمعے کے دن اپنے سکول سے نکل کر فیصلہ کیا کہ وہ پڑھائی چھوڑ کرکلائمیٹ چینج پرایکشن لینے کے حوالے سے سویڈن پارلیمنٹ کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کریگی۔ سویڈن پارلیمنٹ کے سامنے گریٹا کا احتجاج چند ہی دنوں میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا اور کچھ ہی عرصے میں دوسرے ممالک کے طلبا اور سماجی کارکنوں نے احتجاج میں حصہ لینا شروع کیا۔

اس احتجاج کو دنیا بھر میں "فرائیڈے فارفیوچر” "سکول سٹرائک فار کلائمیٹ” "یوتھ سٹرائک فار کلائمیٹ” یوتھ فار کلائمیٹ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹوئٹر پر لوگوں نے سپورٹ کیا۔ گریٹا کا احتجاج پچھلے 56 ہفتوں سے جاری ہے۔ اس وقت وہ امریکا میں موجود گریٹا نے 20 ستمبر، جمعے کے دن، کو امریکہ سمیت دنیا بھر میں احتجاج کی کال دی ہے۔ 20 ستمبر کو صرف امریکہ میں750 مختلف مقامات پر یہ احتجاج ریکارڈ ہوگا۔ اسکے علاوہ جرمنی میں 400 سے زائد سکولوں کے طلبا نے اس احتجاج میں شریک ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر لوگوں نے امریکا میں اس احتجاج کو روکنے کیلئے مختلف حربوں کا بھی ذکر کیا ہے لیکن امریکا میں لوگوں اور خاص طور پر نوجوان نسل کی اس احتجاج میں دلچسپی تمام حربوں کو ناکام بنا نے جارہی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کیلئے اس کلائمیٹ سٹرائک کو روکنا مشکل ہے اورکلائمیٹ پرایکشن کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی خاموشی مزیدممکن نظر نہیں آتی۔

بشکریہ ڈیلی شہباز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے