مانیں یا نہ مانیں

سنتے تھے پاکستان اس وقت اہم دوراہے پر کھڑا ہے اور حالات بہت خراب ہیں۔

میں سمجھتا ہوں اگر واقعی پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے تو وہ یہی وقت ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستانی سیاست ڈرامائی انداز میں بدل گئی ہے۔ پاکستانی سیاست میں بیک وقت کئی کام ہو رہے تھے۔ ایک طرف زرداری اور نواز شریف پاکستانی لوگوں پر ایکسپوز ہو رہے تھے تو دوسری طرف عمران خان سیاست پر پوری قوت سے نمودار ہو رہے تھے۔ زرداری اور شریف بڑے خوش قسمت تھے جب ماضی میں ملک کو چلا رہے تھے تو وہ دور سوشل میڈیا کا نہیں تھا۔ پاکستان کی نئی اور نوجوان نسل کو سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی بلا سے کوئی مرے یا جیے۔

خصوصاً پاکستان کی ایلیٹ کلاس بالکل سیاست سے دور تھی۔ وہ اپنی دنیا میں مگن تھی۔ خواتین ویسے ہی سیاست سے چڑتی تھیں۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرکے یا اقتدار سے باہر ہوتے یا پھر اقتدار کے اندر۔ کبھی ایک تو کبھی دوسرا۔ یوں ایک ایسا سیاسی کھیل کھیلا جا رہا تھا جس میں شریف اور زرداری خاندان کو فائدہ ہو رہا تھا اور بیرون ملک جائیدادیں بنائی جا رہی تھیں۔ اگرچہ جنرل مشرف کے مارشل لاء کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں سے ان خاندانوں کی قابلیت اور اہلیت کچھ مدہم ہو گئی تھی اور بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ اب کی بار پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بہتر انداز میں حکومت کریں گی؛ تاہم دونوں نے وہیں سے کام شروع کیا جہاں انیس سو ننانوے میں ختم ہوا تھا۔ لیکن اس دفعہ یہ سب ایکسپوز ہوئے ہیں اور بری طرح ہوئے ہیں کیونکہ نئی نسل سب کچھ دیکھ اور سمجھ رہی ہے۔

دونوں خاندانوں کا خیال تھا کہ پرانی روٹین چلتی رہے گی۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرتے رہیں گے اور اندر کھاتے باری باری حکمرانی کرتے رہیں گے۔ زرداری گروپ اور شریف خاندان کے لیے ان کے پچھلے دس سال ہو سکتا ہے دولت کمانے کے لیے بڑے اچھے نکلے ہوں‘ لیکن ان کی سیاست کے لیے یہ بہت برے سال تھے۔

انہیں اس کا اندازہ اب ہو رہا ہوگا‘ جب دونوں جیل میں پڑے ہیں۔ دونوں کے پاس بہت وقت تھا کہ ماضی کو پیچھے دھکیل کر کام کرتے اور لوگوں میں اپنی عزت بناتے۔ اگر انہوں نے ڈلیور کیا ہوتا تو آج ان کے لیے لوگ کھڑے ہوتے جیسے ترکی کے طیب اردوان کے لیے لوگ باہر نکل آئے تھے۔ یہ کیسی حکمرانی تھی کہ آپ کے بچے ارب پتی بن گئے اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا گیا۔ زرداری اور شریف خاندان کے کاروبار آسمان کو چھو رہے تھے جبکہ ملکی اکانومی کا بیڑا غرق ہوتا چلا گیا۔ کروڑوں اربوں روپوں کی ٹی ٹی بیرون ملک سے بچوں کے اکائونٹس میں آنا شروع ہوگئیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک کی اکانومی ڈوب رہی تھی تو یہاں کاروبار کرنے والے دو خاندانوں کی اکانومی کیسے اوپر جا رہی تھی؟ زرداری صاحب نے پانچ سال صدارت کرنے کے بعد سندھ پر فوکس کر لیا تاکہ خرچے اور کھابے چلتے رہیں۔ صوبائی خودمختاری کے نام پر اربوں روپوں کے بجٹ کھا گئے کہ ایک دن سندھ ہائی کورٹ کے جج صاحب کو کہنا پڑ گیا کہ لاڑکانہ میں نوے ارب کھا گئے ہیں‘ ڈائن بھی ایک گھر چھوڑ دیتی ہے۔

اب حالت یہ ہو چکی ہے پاکستان کے پاس اپنے قرضے واپس کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کیسے ملک کی اکانومی کا بیڑا غرق کیا گیا۔ اربوں روپوں کے بیرونی دورے اور نتیجہ صفر۔ اور تو اور ملک کے وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی بیرونی دوروں پر ٹی اے ڈی اے کی مد میں کروڑوں روپے لے رہے تھے۔ شاہد خاقان عباسی، نواز شریف‘ زرداری سب نے بیرون ملک دوروں میں دس کروڑ کے لگ بھگ ٹی اے ڈی اے لیا۔ باقی شاہی اخراجات علیحدہ۔ یہ اس ملک کی اکانومی کو ٹیکا لگایا جارہا تھا جو چالیس ارب ڈالرز کی مقروض ہوچکی تھی‘ اور تیس ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا گیا تھا۔

ان کا اب بھی یہ خیال تھا کہ جمہوریت کے نام پر لوٹ مار جاری رہے گی لیکن سب کچھ الٹ ہوگیا ہے۔ اب مریم نواز اور بلاول دراصل وہ جائیداد بچانے نکلے ہیں جو ان کے بزرگوں نے انہیں کما کر دی ہے اور جس کا کوئی پتہ نہیں کہاں سے آئی تھی۔ اب بلاول اور مریم نواز کی جمہوریت سے محبت اچانک بڑھ گئی ہے کیونکہ دولت جاتے نظر آرہی ہے۔

عمران خان کے عروج نے یقینا معاشرے کے سب طبقات کو متاثر کیا ہے‘ خصوصاً نوجوان اور خواتین‘ دونوں باہر نکلے؛ تاہم عمران خان صاحب زرداری اور شریف خاندان کے زوال سے سبق سیکھتے نظر نہیں آتے۔ وہ بھی ان دونوں خاندانوں کی طرح یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کبھی اقتدار سے باہر نہیں ہوں گے۔ عمران خان صاحب نے جس طرح کرپٹ سیاستدانوں کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے تحفظ دیا‘ اس نے ان کے اپنے امیج کو بہت نقصان پہنچایا۔ اور اس بات کا سارا فائدہ مریم نواز اور بلاول اٹھا رہے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں مشہور تھا کہ وعدہ خلافی نہیں کریں گے لیکن اب تو لوگوں نے گنتی کرنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ وہ کتنی دفعہ اپنی کہی ہوئی باتوں سے مکر چکے ہیں۔

دوسری طرف مریم نواز جج صاحب کے حوالے سے جو کچھ سامنے لائی ہیں وہ پریشان کن ہیں۔ ماضی میں خود شریف خاندان یہ حربے اپنے مخالفین پر استعمال کرتا رہا ہے اور اب خود پھنس گیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ پریشان کن یہ بات ہے پوری عدلیہ اس پر خاموش ہے۔ پہلے ہم نے دیکھا کہ چیئرمین نیب کے خلاف مواد آیا تو اسے بھی سب نے مل کر دبا دیا۔ اب اس جج کے خلاف بھی جو کچھ سامنے آیا ہے اس کو بھی دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ سب کچھ کیسے ہورہا تھا اور کیوں ہورہا تھا۔ انسان حیران ہوجاتا ہے۔

جس طرح ان ایشوز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے صرف اور صرف نواز شریف اور مریم نواز کو ہی فائدہ ہوگا۔ لوگوں کے دلوں میں پہلے ہی سیاستدانوں کے حوالے سے اچھے جذبات نہیں ہیں۔ رہی سہی کسر اس طرح کے واقعات پوری کررہے ہیں۔ جتنا اس کو کور اپ کرنے کی کوشش کی جائے گی اتنا ہی شریف خاندان کا فائدہ ہوگا۔

لوگوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھ رہی ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی ادارہ نہیں بچ گیا جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے اہم عہدے پر فائز ججوں کو کس طریقے سے لگایا جاتا ہے؟ کون ان لوگوں کی کلیئرنس دیتا ہے اور کیسے وہ اتنی اہم جگہوں پر لگائے جاتے ہیں اور ان کے سامنے ایسے بڑے بڑے مقدمے پیش ہوتے ہیں۔ اس سے گمان گزرتا ہے کہ پاکستان میں جج لگانے کا طریقہ کار ہی ایسا ہے۔ کسی بھی وکیل کو اٹھا کر جج لگا دیا جاتا ہے۔

عمومی تاثر یہ ہے کہ بڑے بڑے وکیلوں کے چیمبرز سے جج لگتے ہیں۔ سیاستدان بھی اپنی مرضی کے جج لگواتے آئے ہیں۔ قابلیت اور ایمانداری کی بجائے ذاتی پسند ہی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طاقتور آدمی کا اپنا جج ہے۔ اگر پانامہ نہ آتا اور اس پر میڈیا کا اور عوامی دبائو نہ ہوتا تو کبھی شریف خاندان کا احتساب نہیں ہوسکتا تھا۔

لیکن اب جس طرح کی ویڈیو سامنے آئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ پانامہ پر جو دو تین سال محنت کی گئی تھی وہ ایک جج ارشد ملک صاحب کے دوست ناصر بٹ کی نذر ہو گئی ہے۔ کئی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ناصر بٹ جج صاحب کو بلیک میل کر رہے تھے جس طرح وہ ان سے تعاون کر رہے تھے یا پھر کچھ اور اداروں نے انہیں بلیک میل کرکے سزا دلوائی؟ موصوف نے ایک ججمنٹ میں شریف خاندان کو کلین چٹ تو دوسرے میں سزا سنائی لیکن ساتھ ہی اپنے دوست ناصر بٹ کو بھی ٹپس دیتے رہے کہ کیسے کیسے فلاں پوائنٹ کو اٹھا کر اپیل کرکے بری ہو جائیں۔ یہ ہو رہا ہے پاکستان میں اور اس کے انصاف کے اداروں میں۔

اس سارے کھیل میں اب تک فتح شریف خاندان کی ہوئی ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں۔ انہوں نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ پاکستان میں انصاف کا تماشہ کیسے بنایا جاتا ہے۔ ان کے خلاف ثبوتوں کے انبار عدالتوں میں پیش کیے گئے اور وہ ان کا دفاع نہ کر سکے لیکن ایک ہی ویڈیو سے کلیئرنس مل گئی۔ اب سب چپ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جج صاحب کی ویڈیوز چل رہی ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

ہر دفعہ پاکستانی قوم ہی دھوکا کھا جاتی ہے۔ ہم ہی گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔

ویسے اپنی دھرتی ماں کو کیسے برباد کرتے ہیں اگر دیکھنا ہو تو پاکستان کو دیکھ لیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے