محرم الحرام اور امام عالی مقامؓ

قرآن میں ہے کہ ”بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں ۔اللہ کی کتاب میں جس دن سے اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے‘ ان میں سے چار عزت والے ہیں‘ یہی سیدھا دین ہے۔ سو ان میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور تم سب مشرکوں سے لڑو‘ جیسے وہ سب تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے‘‘ (التوبہ:36)۔ان چار میں سے قمری سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے۔ قارئین کرام! کعبہ شریف کے چار کونوں میں سے دو کونوں کے نام ”رکن عراقی‘‘ اور ”رکن شامی‘‘ ہیں۔ حضرت حسین ؓ یہاں موجود ہیں‘ وہ اپنے نانا حضرت محمد کریمؐ کے شہر مدینہ منورہ سے یہاں تشریف اس لئے لائے ہیں کہ ظالم بدبخت یزید کا نمائندہ حضرت حسینؓ کی بیعت کا طلبگار تھا۔ حضرت حسینؓ اسی بیعت ہی کے تو انکاری تھے۔ حسینؓ کے نانا کائنات کی وہ عظیم ترین ہستی ہیں کہ جنہوں نے ہزاروں سال کی اک وراثتی زنجیر کو پاش پاش کر دیا تھا۔

یہ زنجیر حکمرانی کی وراثتی زنجیر تھی۔ حسینؓ کے نانا جان خود بھی کسی لشکر کی لشکر کشی یا اپنے قبیلے برادری کی قوت کے ساتھ حکمران نہیں بنے تھے۔ وہ مکہ میں ایک دعوت لے کر اٹھے تھے۔ اس دعوت کو مکہ والوں نے نہیں مانا۔ مدینہ والوں نے مان لیا۔ چودہ سو سال قبل مدینہ ایسے ہی تھا‘ جیسے اک دوسرا ملک ہو۔ وہاں کی اپنی حکمرانی تھی۔ قبیلے برادریاں تھیں۔ مذاہب تھے۔ حضرت محمد کریمؐ کا ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا‘ مگر ان لوگوں کی قسمت کہ شہر کے اکثر لوگوں نے حضورؐ کو اپنا حکمران مان لیا اور درخواست کر دی کہ مدینہ میں آئیں اور حکمرانی سنبھالیں ؛چنانچہ حضورؐ میرے وہاں مہاجر بن کر گئے اور جب مدینہ میں قدم رکھا تو یثرب کا نام ”مدینۃ الرسولؐ‘‘ بن گیا اور آپؐ حکمران بن کر شہر میں داخل ہوئے۔ حضور اس دنیا سے تشریف لے گئے تو نہ اپنے گھرانے‘ یعنی اہل بیت سے اور نہ اپنے قبیلے بنو ہاشم سے کسی کو اپنا جانشین بنایا۔ حکمرانی کے تسلسل میں یہ روایت شکنی پہلی روایات شکنی تھی۔ حضورؐ نے یہ کام امت پر چھوڑا تھا۔ امت کے لوگوں نے حضورؐ کے اشاروں کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا اور یار غار صدیق اکبرؓ کو حضورؐ کا جانشین بنا دیا۔ حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔

حضورؐ کی پیشگوئی نے بھی پورا ہونا تھا؛ چنانچہ حضرت حسنؓ نے امت کی طرف سے ملے ہوئی حقِ خلافت کو مسلمانوں کے اتحاد کی خاطر چھوڑ دیا اور یہ حق حضرت معاویہؓ کے حوالے کر دیا۔ حضورؐ کے فرمان کے مطابق‘ حضرت علیؓ حق پر تھے۔ حضرت معاویہؓ غلطی پر تھے۔ باپ کے بعد اب بیٹا بھی حق پر ہے‘ مگر اپنے نانا کی امت کے تحفظ کی خاطر حضرت معاویہؓ کے زیر تسلط علاقے سے پندرہ بیس گنا بڑے علاقے کو حضرت معاویہؓ کے تسلط میں دے رہے ہیں ۔جی ہاں! اپنے نانا محترم کی مبارک زبان سے جنت کے جوانوں کے بادشاہ جو تھے‘ لہٰذا دنیا کی حکمرانی کے حق کو چھوڑ دیا۔ نانا کے نواسے کا کردار کس قدر لاجواب اور بے مثال ہے کہ خراج تحسین کو الفاظ نہیں ملتے۔ جی ہاں! حضرت حسنؓ نے جلد ہی دنیا کو چھوڑا جنت میں جوانوں کے بادشاہ بن کر فردوس کے تخت پر تشریف فرما ہیں۔

حضرت معاویہؓ تو اہل بیت کے جنّتی سردار حضرت حسنؓ کے بخشے ہوئے اور عطا کیے ہوئے حق حکمرانی کی وجہ سے حکمران تھے؛ چنانچہ حضرت حسینؓ مدینہ میں اپنے نانا کے شہر میں خاموشی کے ساتھ اپنی علمی اور زاہدانہ زندگی بسر کرتے رہے۔ اچانک اک خبر نے نانا محترم حضرت محمد کریمؐ کی روایت شکنی کو پھر سے روایت پرستی بنا دیا۔ خبر یہ تھی کہ یزید کو ولی عہد بنا دیا گیا ہے۔ ولی عہدی کی بیعت کیلئے راستوں کی ہمواری کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

حضرت حسینؓ نے اپنے نانا کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑے رکھا اور کمال صبر کے ساتھ خاموش بھی رہے۔ حضورؐ نے فرما دیا تھا ”میری اور خلفائے راشدین کی سنّت کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا‘‘ ۔جی ہاں! دین تو حضورؐ پر مکمل ہو گیا۔ یہ جو خلفائے راشدین کی سنت ہے‘ یہ سیاسی حکمرانی کی سنت ہے۔ حضورؐ کی سنت پر ہی خلفائے راشدین چلے ہیں‘ لہٰذا امت پر لازم ہے کہ اس پر چلے۔ حضرت قائداعظم ؒ کے حکم پر پاکستان کی تحریک میں قیام پاکستان کا راستہ ہموار کرنے والے ایک طالب علم رہنما جو بہاولپور یونیورسٹی کے پروفیسر بنے۔ علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ ممتاز عالم دین تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ خلفاء کی سنت سے مراد سیاسی حکمرانی کی سنت ہے۔ جی ہاں!

جب یہ بدلی تو صحابہ نے حضرت معاویہؓ پر واضح کر دیا کہ یہ ملوکیت ہے۔ ان کی وفات کے بعد یزید حکمران بنا تو حضرت حسینؓ نے اپنے نانا کے راستے کو اختیار کرتے ہوئے اپنے خاندان کو لیا اور مکہ میں آ گئے۔ یہاں سے وہ اس سمت کوروانہ ہوئے جس کا اشارہ کعبہ کا رکن عراقی دے رہا تھا۔ جی ہاں! حضرت حسینؓ عراق کے شہر کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اس لیے کہ وہاں کے لوگوں نے یقین دہانی کروائی تھی۔ خود خطوط لکھے تھے۔ اصرار کیا تھا کہ اے حضرت محمد کریمؐ کے جگر گوشے! ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ ہم حکمرانی کے راستے کو دوبارہ اپنے پیارے رسولؐ کے راستے پر چلانے کیلئے آپؓ کے منتظر ہیں۔

لوگو! بات تو اس سے بھی کہیں آگے کی تھی۔ حکمرانی کے قابل ہونا تو دور کی بات ہے‘ وہ تو فسق و فجور میں بہت نمایاں اور آگے تک نکل چکا تھا۔ امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ”یزید میں جو برائیاں تھیں ‘ان میں شہوتوں کی طرف لپکنا۔ بعض نمازیں ترک کر دینا۔ اکثر اوقات وقت گزار کر نماز پڑھنا شامل تھا‘‘ (تاریخ ابن کثیر جلد 8ص 253)۔ امام ذہبی لکھتے ہیں ” آلِ رسولؐ سے بغض رکھتا تھا۔ بدگو‘ سنگدل‘ نہایت ہی بداخلاق تھا۔ نشہ کرتا تھا‘‘ (سیر اعلام النبلائ:ج 4صفحہ37) ۔امام شوکانی فرماتے ہیں” یہ شخص دائمی شرابی تھا۔ شریعت نے جن مقامات و شخصیات کا احترام واجب قرار دیا ہے ان کی بے حرمتی کرنے والا تھا‘‘ (نیل الاوطار ج 7صفحہ:201) ۔علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں” یزید کا فسق و فجور اس دور کے تمام لوگوں پر ظاہر ہو گیا تھا‘‘ (تاریخ ابن خلدون 1ص 26)۔ امام ابن قتیبہ فرماتے ہیں ”اس نے موسیقی کیلئے ایک گویا رکھا ہوا تھا‘‘ (عیون الاخبار: ج 2ص 213) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں ”گمراہی کی دعوت دینے والوں میں سے شام میں یزید بھی تھا‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ: ج1ص 188)۔

قارئین کرام! ایسے حوالوں سے آج کے دور کے ایک محقق عالم حضرت مولانا مصطفی مصحفی نے ”دفاعِ امام حسینؓ‘‘ لکھ کر بہت ساری بند آنکھیں کھولی ہیں۔ انہوں نے مجھے کتاب بھیجی اور فون کر کے کہا۔ میں نے آپ کی تقریروں اور تحریروں میں صحابہ کی محبت کے ساتھ اہل بیت کی محبت کو بہت زیادہ نوٹ کیا ہے۔ میں نے کہا آپ نے جو نوٹ کیا ہے‘ بالکل درست نوٹ کیا ہے۔ اہل بیت سے محبت اور ان کا دفاع میرے ایمان کا تقاضا ہے۔ جس دل میں حسینؓ کی محبت نہیں ‘وہ دل حسینؓ کے نانا کی محبت سے بھی محروم ہے اور جو رب کے محبوب کی محبت سے محروم ہو گیا وہ رب کریم کی محبت سے بھی محروم ہو گیا۔ مجھے بتلاؤ اس کے لیے پناہ کی جگہ کہاں ہے؟‘‘۔

قارئین کرام! مصطفی مصحفی اپنی کتاب ”دفاعِ امام حسینؓ‘‘ میں اک حدیث لائے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا ”میری سنت کو سب سے پہلے بنی امیہ کا ایک آدمی تبدیل کرے گا‘ جس کا نام یزید ہوگا۔‘‘ (مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 27صفحہ 266۔ سندہ حسن)۔

جی ہاں! حضرت حسین رضی اللہ عنہ واقعی امام عالی مقام ہیں کہ وہ اپنے نانا جان کی امت کی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہوئے اور استقامت کا ہمالیہ بن کر کھڑے ہوئے۔ اپنے خاندان کے ہمراہ اور چاہنے والے مٹھی بھر لوگوں کے ہمراہ کھڑے ہوئے جب حضورؐ کی چلائی ہوئی حکمرانی کی ٹرین کو ڈی ٹریک کر دیا گیا تھا۔ امت کا حق چھین کر خاندانی حق بنا لیا گیا تھا۔ میرٹ کو تار تار کر دیا گیا تھا۔ ایسے موقع پر۔ ایسے موڑ پر حضورؐ کی امت کا جو پہلا رہنما کھڑا ہوا۔ وہی رہنما امام عالی مقام ہیں۔ وہ فردوس بریں میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ جنت کے جوانوں کا سردار‘ یعنی بادشاہ ہے۔

میں سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ کی تحریر کو سامنے رکھوں تو کیوں نہ اپنی تحریر کچھ یوں لکھوں کہ صحابہ جنہوں نے حضورؐ کے وضو کا پانی حدیبیہ میں گرنے نہ دیا کہ اس پانی نے حضورؐ کے چہرے مبارک کو چوما ہے۔ یہ گرنے کیوں پائے۔ لعاب مبارک کو زمین کو چھونے نہ دیا کہ وحی کی زبان اور منہ سے لعاب مبارک آتا ہے اسے ہاتھوں میں تھام کر اپنے جسم کو بابرکت کیوں نہ کیا جائے۔ حضور کے بال مبارک منیٰ میں اتریں تو ہم آج تک محفوظ رکھ کر دیدار کرتے رہیں۔ حضرت انسؓ کی ماں حضرت ام سلیم حضور کے پسینے مبارک کو شیشی میں محفوظ کریں۔ وہ کستوری سے بڑھ کر خوشبو دے۔ لوگو! حسینؓ تو میرے حضورؐ کا خون ہے۔ جگر کا گوشہ ہے۔ دل کا ٹکڑا ہے۔ آنکھوں کا نور ہے۔

حضورؐ نے میرے حسینؓ کا منہ چوما ہے۔ ہونٹ چومے ہیں۔ ظالم یزیدی ہاتھوں نے اس مبارک سر کو جسم سے الگ کیا ہے۔ کوفہ کے دربار میں رکھا ۔ اس کا جلوس بنایا ہے۔ کربلاء سے کوفہ پھر دمشق۔ اورو ہاں یزید نے…آگے قلم لکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ میں تو حسین سے محبت کرتا ہوں۔ یہ نگینہ اور محبت کا کوہِ نور میرے دل میں ہے۔ حضورؐ کو دکھلاؤں گا کہ جب حوضِ کوثر پر جاؤں گا۔ امام عالی مقام حضرت حسینؓ مظلوموں اور اہل حق کا امام ہے۔ امام عالی مقام میرا بھی امام ہے۔

الغرض سچی مظلومیت ہی کا نام تو طاقت اور قوت ہے۔ وہ کشمیر کے مظلوموں کا امام ہے۔ کشمیر بنے گا پاکستان!(انشاء اللہ)۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے