مردہ سپرم وہیل کے معدے سے 115 کپ، 25 پلاسٹک بیگز اور دو ہوائی چپلیں برآمد

انڈونیشیا میں حکام کے مطابق ایک نیشنل پارک کے ساحل سے ملنے والی مردہ سپرم وہیل کے معدے سے تقریباً چھ کلوگرام پلاسٹک نکلا ہے۔وہیل کے پیٹ سے جو چیزیں نکلیں ان میں تقریباً 115 کپ، چار پلاسٹک کی بوتلیں، 25 پلاسٹک بیگز اور دو ہوائی چپلیں شامل تھیں۔تقریباً 9.5 میٹر (31 فٹ) لمبی سپرم وہیل مردہ حالت میں پیر کو کپوٹا جزیرے کے ساحل کے قریب سے وکٹوبی نیشنل سے ملی تھی۔اس مردہ وہیل کی وجہ سے ماہر ماحولیات میں سراسیمگی پھیل گئی ہے۔

خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن انڈونیشیا میں بحری حیات کے بچاؤ کی کوآڈینیٹر ڈوی سپراپٹی کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ ہم اس کی موت کی وجہ نہیں جان سکے لیکن جو حقائق ہم نے دیکھے وہ واقعی خوفناک ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ممکن نہیں کہ پلاسٹک وہیل کی موت کی وجہ بنا کیونکہ وہ خاصا گل سڑ چکا تھا۔

ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن انڈونیشیا نے ایک ٹویٹ میں اس جانور کے اندر سے ملنے والی تمام اشیا کے بارے میں بتایا۔’سخت پلاسٹک (19 ٹکڑے، 140 گرام)، پلاسٹک کی بوتلیں (چار ٹکڑے، 150 گرام)، پلاسٹک بیگز (25 ٹکڑے، 250 گرام)، ہوائی چپل (دو ٹکڑے، 270 گرام)، رسی کے ٹکڑے ( 3.26 کلوگرام) اور پلاسٹک کے کپ (115 ٹکڑے، 750 گرام)۔‘


خیال رہے کہ استعمال کے بعد ضائع کر دینے والے پلاسٹک کا استعمال انڈونیشیا سمیت جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں خاص طور پر ایک مسئلہ ہے۔ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم اوشیئن کنزروینسی اور مک کنسی سینٹر فار بزنس اینڈ انوائرمنٹ کی سنہ 2015 کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ ایشیائی ممالک چین، انڈونیشیا، فلپائن، ویتنام اور تھائی لینڈ سمندر میں پائی جانے والی پلاسٹک کی گندگی کے 60 فیصد تک حصے کے ذمہ دار ہیں۔

یہ خیال کیا جاتا ہے پلاسٹک بیگز یا لفافوں کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں سمندری جانور ہلاک ہوتے ہیں، جون میں ایک وہیل تھائی لینڈ کے جنوبی حصے میں 80 پلاسٹک بیگز نگلنے کی وجہ سے ہلاک ہوئی تھی۔رواں برس کے آغاز میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں تنبیہ کی گئی تھی کہ اگر گندگی پر قابو نہ پایا گیا تو سمندروں میں پلاسٹک کی مقدار ایک دہائی میں تین گنا بڑھ سکتی ہے۔گذشتہ سال کے اواخر میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ ہر سال سمندروں میں تقریبا ایک کروڑ ٹن پلاسٹک پہنچنے سے سمندری حیات ‘ناقابل تافلافی نقصان’ کا سامنا کر رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے