موبائل پر خبریں

موبائل پر خبریں لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خبر مختصر ہو اور سادہ ہو جس کے لیے ضروری ہے کہ آپ الفاظ کو دھیان سے چنیں اور ان کے درست استعمال پر توجہ دیں-

مختصر ہی بہتر ہے- موبائل پلیٹ فارم کے لیے خبریں لکھنا اور دیگر مواد تیار کرنا بذاتِ خواد ایک فن ہے۔ اس میڈیم کی سب سے بڑی قوت اس کا لچکدار ہونا اور ہرجگہ آپ کے ساتھ موجود ہونا ہے۔ مگر آپ کو موبائل کی حدود کا بھی پتہ ہونا چاہیے تا کہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ موبائل کی سکرین کا سائز اس کی حدود کا ایک حصہ ہے۔

پروڈیوسرحسن مہیلا کہتے ہیں کہ موبائل کے لیے آپ کو خبروں کو نئے انداز میں ڈھالنا ہوگا۔

یعنی اپنی خبروں کو مختصر رکھیں۔ ہر لفظ کو تولیں۔ اور لکھنا شروع کرنے سے پہلے خبر کو اچھی طرح سوچ سمجھ لیں۔

حسن مزید کہتے ہیں کہ یوں کرنے سے ’آپ صحیح الفاظ کا انتخاب کر پائیں گے اور خبر کو جانتے ہوئے الفاظ سے ہر ممکن حد تک کھیل سکیں گے‘۔

ان کا کہنا ہے کہ ’موبائل کے لیے آپ کی خبریں مختصر ہی نہیں، انتہائی مختصر ہونی چاہیں‘۔

[pullquote]سادہ رکھیں[/pullquote]

اکثر افراد کے پاس چھوٹی سکرین کے موبائل ہوتے ہیں، اس لیے آپ کو سادہ زبان استعمال کرنی چاہیے جو آسانی سے پڑھی اور سمجھی جا سکے۔

جب آپ کے سامعین، ناظرین یا قارئین عالمی سطح پر ہوں تو سیدھی سادی زبان زیادہ کار آمد ہوتی ہے۔

حسن کہتے ہیں کہ ’ایک قاری افغانستان، عراق، افریقہ یا امریکا، کہیں کا بھی ہوسکتا ہے‘۔

’خبر سبھی کی سمجھ میں آنی چاہیے، بہت ہی سادہ زبان میں‘۔

سکرولنگ تکلیف دہ ہوتی ہے۔

یاد رکھیں، جب آپ موبائل کے لیے لکھتے ہیں، تو جتنا مختصر ہو اتنا ہی بہتر ہے۔

جب آپ ایک عام ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں تو آپ بیس یا اس سے زیادہ پیراگراف لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ چھوٹی سکرین کے لیے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

تو خود کو ایک سو الفاظ تک محدود رکھیں یعنی تقریباً چار سے پانچ مختصر پیراگراف۔

صفات ہٹا دیں اور مخففات استعمال نہ کریں۔

یہ سادہ طریقے آپ کی خبروں کو مختصر کرنے میں مدد دیں گے۔

[pullquote]آن لائن سرخیاں[/pullquote]

سرخیاں سادہ اور جاذب ہونی چاہیں۔

اس طرح آپ اپنے قاری کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔

بہترین طوالت اڑتیس حروف تک محدود رہنا ہے۔ اس سے زیادہ موبائل کی سکرین پر دو سطروں سے زیادہ ہوجائے گا۔

اگر آپ اڑتیس حروف تک محدود رہیں گے تو آپ کی سرخی دوسری سطر میں نہیں جائے گی۔

اس سے موبائل کی سکرین پر ایک آسانی سے پڑھی جانے والی سرخی ملے گی۔

[pullquote]ٹیکسٹ الرٹ[/pullquote]

آپ جو لکھ رہیں ہیں وہ ایک خود کار ٹیکسٹ الرٹ کے طور پر بھی استعمال ہوگا: سرخی اور مختصر سی خبر سکرین پر فلیش کرے گی۔

اسے بہت سادہ اور مختصر رکھیں۔

حسن کہتے ہیں کہ ’بی بی سی سواحیلی میں ہم سرخی اور سمری کو ایک سو چالیس کیریکٹرز تک ہی محدود رکھتے ہیں‘۔

[pullquote]حوالے / اقوال[/pullquote]

اقوال / حوالے بہت اہم ہوتے ہیں، مگر یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ صرف مختصر اقوال / حوالے ہی موبائل کی چھوٹی سکرین پر زیادہ اچھے لگیں گے۔

طویل اور بے ربط اقوال اور حوالوں سے اجتناب کریں، صرف مختصر اقوال اور حوالے استعمال کریں وہ بھی، جہاں ضروری ہو۔

اس لیے پرمغز حوالوں اور اقوال کا انتخاب کریں اور انہیں وہاں استعمال کریں جہاں وہ زیادہ سے زیادہ اثر پیدا کریں۔

[pullquote]الفاظ دھیان سے چنیں[/pullquote]

اپنے الفاظ کا چناؤ خیال سے کریں تا کہ کہیں خبر کا مطلب ہی نہ بدل جائے۔

آپ نہیں جانتے کہ آپ کی خبر کون پڑھے گا۔ وہ افریقہ، افغانستان، امریکا یا یورپ کہیں بھی ہو سکتا ہے۔

اس لیے اسے عالمی سطح پرسمجھا جانا چاہیے۔

اپنی خبر کو عالمی سطح پر قابلِ فہم بنانے کے لیے، اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں اور ان الفاظ کا استعمال کریں جس سے غلط فہمی یا تشریح میں غلطی کی گنجائش نہ ہو۔

ایک دو بار نہیں کئی بار نظر ڈالیں۔

نیٹ پر کسی غلطی کا جانا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس لیے آپ کو دو بار بلکہ تین بار پڑتال کرنی چاہیے۔

ایک بار غلطی چلی گئی تو پھر اس کے بارے میں کچھ نہیں ہو سکتا اور پوری دنیا اسے دیکھ سکتی ہے۔

پروڈیوسر حسن مہیلا کہتے ہیں کہ ’آن لائن جانے سے پہلے ہی غلطیاں درست کرلیں‘۔

[pullquote]اسلوب کا فرق[/pullquote]

اپنی خبروں میں چاہے آپ کسی بھی زبان میں لکھیں لیکن ڈائلیکٹس یا زبان کے ضمنی لہجوں سے گریز کرنا چاہیے، آپ جن الفاظ کا انتخاب کریں گے اور جس انداز میں لکھیں گے وہ آپ کی زبان کے یا لہجے سے خراب بھی ہو سکتا ہے۔

یہ ایک نازک سی بات ہے مگر آپ کو اسے اپنے ذہن میں مستقل رکھنا ہوگا۔

اپنی کاپی کو تنقیدی نظر سے دیکھیں۔

اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا کانگو یا کینیا میں رہنے والے بھی آپ کی خبر کو اتنی ہی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں جتنی آسانی سے کہیں اور کے۔

یعنی جو بھی اسے پڑھے اسے خبر پوری طرح سمجھ میں آنی چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے