مولانا الیاس گھمن پر الزامات اور میرا موقف

سوشل میڈیا پر مولانا الیاس گھمن کی سابقہ اہلیہ کا ایک مبینہ خط وائرلہوچکا ہے ، اور اس خط لکھنے والی خاتون کا انٹرویو لینے والے مفتی رضوانکا آئی بی سی اُردو نامی ویب سائیٹ پر کالم بھی منظرِ عام پر آچکا ہے ۔
خط میں خاتون نے مولانا الیاس گھمن پر قومِ لوط والی حرکات میں ملوث ہونے
، اپنی سوتیلی بیٹی سمیت کئی لڑکیوں کی عزتین تار تار کرنے اور مدارس کے
لیے چندے اکٹھے کرکے کھانے کا الزام عائد کیا ہے ۔ متاثرہ خاتون کا کہنا
ہے کہ اس حوالے سے اُس نے وفاق المدارس کی انتظامیہ کو بھی آگاہ کیا مگر
کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی ۔ دونوں جانب کے توپ خانوں سے برابر گولہ باری
جاری ہے ۔ مولانا کے حامی کہیں گالیوں سے تو کہیں دلیل سے مولانا کا دفاع
کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ دوسری جانب مولانا مخالف طبقہ متاثرہ خاتون کی
آواز بن کر ابھرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں
تاہم دونوں جانب سے گالیوں کا تبادلہ جاری ہے ۔ کچھ لوگ جنہوں نے مہینوں
سے دینی مدارس کے خلاف اپنا زہر جمع کررکھا تھا آج وہ زہر بھری دیگیں
اُلٹا رہے ہیں۔ کچھ لوگ مسلکی بغض کی انتہاؤں پہ پہنچ چکے ہیں ۔ اس موقع
پر میں نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا تاہم صاحبزادہ مولانا محمد احمد ندیم
، پیر عبد الکریم ندیم صاحب کے صاحبزادے کے کہنے پر( جن کا کہنا میرے
لیے حکم کی حیثیت رکھتا ہے ۔) میں نے بھی اپنا موقف لکھنے کا فیصلہ کیا
۔ اپنا موقف لکھنے سے قبل مولانا کا مختصر تعارف بھی پیش کرتا چلوں ۔

مولانا الیاس گھمن کا تعلق پنجاب کے ایک مشہور شہر سرگودھا سے ہے ۔ آپ
ایک عالم دین ہیں اور تعلق دیوبندی مسلک سے ہے ۔ آپ کے زیرِ انتظام بچوں
اور بچیوں کے مدارس اسلام کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ آپ امام اہلسنت مولانا
سرفراز خان صفدر ؒ کے شاگرد ہیں ، اور عالمی اتحادِ اہلسنت الجماعت نامی
جماعت کے امیر بھی ہیں ۔ آپ بیک وقت اُستاد ، پیر ، مہتممِ مدرسہ ، مناظر
، مبلغ ، متکلم ، مصنف اور بہترین مقرر بھی ہیں ۔ آپ کی تقاریر اور علمی
کاوشوں کا مرکز و محور ختمِ نبوت، دفاعِ صحابہ ، ردِ بدعت ، حیات النبی ﷺ
اور تقلیدَ آئمہِ اربعہ ہیں ۔ مولانا الیاس گھمن کی ایک خاص بات جو
انھیں دوسروں سے جدا کرتی ہے وہ اُن کا ڈنکے کی چوٹ پر مدلل انداز میں
اپنا موقف بیان کرنا اور پھر اُس پر ڈٹ جانا ہے ۔ آپ نے دینی مدارس میں
کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے طلباء کو روشناس کرانے اور مرکزِ احناف کا سوشل
میڈیا پر حلقہِ احباب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ آپ کی قائم کردہ
احناف میڈیا سروس کے ذریعے لاکھوں لوگ مفت دینی کتب ، بیانات ، مسائل اور
دیگر اسلامی معلومات سے مستعفد ہوتے ہیں ۔ آپ روزنامہ جنگ ، اوصاف اور
نوائے وقت سمیت کئی قومی اخبارات میں تفصیلی مضامین بھی لکھتے ہیں اور
کئی ٹی وی چینلز پر درسِ قرآن بھی دے چکے ہیں ۔ تصوف میں آپ شاہ حکیم
اختر ؒ جیسے عظیم بزرگ ، مولانا پیر عبد الحفیظ مکی جیسے جامع شریعت و
طریقت اور پیرعزیزالرحمان ہزاروی جیسے عظیم ولی کے خلیفہ بھی ہیں ۔

مفتی ریحان نامی کردار نے متاثرہ خاتون سے لیے جانے والے انٹرویو میں کچھ
ایسے الفاظ کا انتخاب کیا ہے جس کے بعد یہ کہنا مشکل نہیں رہتا کہ یہ ایک
گھناؤنی سازش ہے ۔ میں ایک ایک نقطے کو بیان کیے دیتا ہوں ۔

1۔ مفتی صاحب نے پیر عزیز الرحمٰن ہزاروی صاحب جیسے معتبر عالمِ دین اور
خلیفہِ مجاز حضرت شیخ ذکریا کے بارے میں نامناسب الفاظ کا انتخاب کیا ۔
”ایک پنڈی کے پیر جن کے نام کے ساتھ ہزاروی کا لاحقہ بھی آتا ہے کے
بیٹھے کو میرے پیچھے لگایا ”۔ گویا الزامی لابی کا مقصد الیاس گھمن کے
ساتھ ساتھ پیر عزیز الرحمان ہزاروی اور ان کے بیٹے مفتی اویس عزیز صاحب
کو بھی بدنام کرنے کا پروگرام بنایا۔

2۔ پھر صاحبِ تحریر ( مفتی ریحان ) لکھتے ہیں ” جب شیخ صاحب ( پیر عبد
الحفیظ مکی امیر عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت ﷺ ) نے دیکھا کہ بندہ میری
لائن کا ہے تو مرید کے ساتھ ساتھ اپنا خلیفہ بھی بنادیا ”۔
ایک اور مقام پر لکھا کہ پیر عبد الحفیظ مکی نے معاملات کو دبانے اور
لوگوں کے ذہنوں میں مولانا کی محبت برقرار رکھنے کے لیے مولانا کے مدرسے
میں آنا شروع کیا ۔
پیر عبد الحفیظ مکی صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ ایک طرف آپ خانہ
کعبہ کےسائے میں درسِ قرآن دیتے ہوئے ملیں گے تو دوسری جانب خانقاہوں میں
اللہ اللہ کی صدا لگاتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ اور بقیہ وقت آپ پوری دنیا
میں ختمِ نبوت ، سنو سنو حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں کی
صدا لگاتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ آپ کے لیے یہ کہنا کہ انہوں نے دیکھا کہ
مولانا اپنی لائن کا بندہ ہے تو خلافت دے دی ۔ مولانا الیاس کی لائن (
بقول خاتون کے ) زنا، ہم جنس پرستی اور چندہ خوری ہے ، تو کیا خاتون نے
یہی الزام ( زانی ، ہم جنس پرست ، چندہ خور) حضرت مکی صاحب پر نہیں
داغا؟

3۔ صاحبِ تحریر نے مولانا محمد احمد لدھیانوی کے خط کا حوالہ دے کر بھی
قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مولانا لدھیانوی نے خط میں لکھا کہ
میری جماعت کے سٹیج پر مولانا الیاس گھمن نہیں آسکتا ۔ لیکن اُس کا سبب
مولانا پر لگائے جانے والے الزامات نہیں ۔ بلکہ سپاہِ صحابہ رض کا یہ
کہنا ہے کہ مولانا صاحب ہمارے بندے توڑ کر اپنی جماعت مضبوط کرتے ہیں
جبکہ مولانا الیاس گھمن کا کہنا ہے کہ دیوبند کی ساری جماعتیں ان کی اپنی
ہیں اور وہ کسی کے بندے توڑنے میں یقین نہیں رکھتے ۔ مولانا لدھیانوی کی
اپنی جماعت کے لوگ ان کے فیصلوں سے ناخوش ہیں اور وہ خود طرح طرح کے
الزامات کا شکار ہیں ، اس لیے ان کا خط کسی طور بھی دلیل نہیں مانا
جاسکتا ۔ قارئین کی معلومات کے لیے لکھتا چلوں مولانا علی شیر حیدری کی
شہادت کے بعد سپاہِ صحابہ کے اجتماع میں مولانا الیاس گھمن نے ہی مولانا
لدھیانوی کی بطورِ جماعتی سربراہ تعیناتی کا اعلان کیا تھا ۔

4۔ صاحبِ تحریر نے وفاق المدارس کے مولانا الیاس گھمن بارے اشتہار کا بھی
حوالہ دیا ۔ وفاق المدارس کو نہ ہی فریق مانا جاسکتا ہے اور نہ ہی منصف
کیوں کہ وفاق المدارس کا غیر جابندار نہیں ہے ، وفاق المدارس میں ”
جمعیت ” پسند طبقے کا پلڑا بھاری ہے اور وفاق کی مبہم پالیسیوں کی وجہ
سے لوگ دور ہوتے جارہے ہیں ، کئی نئے وفاق بنانے کے منصوبوں پر بھی غور
ہورہا ہے ۔ وفاق المدارس کے اشتہار کے باوجود قاری حنیف جالندھری اور
مولانا الیاس گھمن کئی مذہبی اجتماعات میں خوش گپیوں میں مصروف پائے جاتے
ہیں ۔

5۔ صاحبِ تحریر نے خاتون کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے اس بات پر شدید زور
دیا ہے کہ وہ ایک عالمِ دین اور تبلیغی بزرگ کی بیٹی ہیں ، تو کیا اتنا
کافی ہے؟ پھر تو مولانا الیاس گھمن تین اولیاءِ کرام کے خلیفہ ہیں اور
سرفراز خان صفدر جیسے عظیم اُستاد کے شاگرد ہیں ، تو کیا اُنھیں بے گناہ
ثابت کرنے کے لیے یہی کافی ہوگا؟
علاوہ ازیں خط کے معاملے میں مذہبی سیاسی جماعت جماعتِ اسلامی کے کارکنوں
کا غیر معمولی دلچسپی دکھانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں
ہے

۔
مولانا الیاس گھمن کو اگر مسلکِ دیوبند کی زبان کہا جائے تو درست ہوگا ،
کیونکہ اگر مولانا طارق جمیل پر بات آئے تو جواب الیاس گھمن سے ملے گا ۔
سپاہِ صحابہ پر اعتراض ہو تو جواب مولانا الیاس گھمن سے ملتا ہے ۔ تبلیغی
جماعت پر اُٹھنے والے سوالات کا جواب مولانا الیاس گھمن سے ملتا ہے ۔
جمعیت علماء اسلام کے طرزِ سیاست پر اُٹھنے والے اعتراضات پر علمی جواب
بھی مولانا کے آستانے سے آتا ہے ۔ شاید یہ ”زبان” کاٹنے کی کوشش بھی ہو
۔

مفتی ریحان کو بھی اپنی کوٹھری سے باہر آنا چاہیے ، خاتون کو بھی سامنے
آنا چاہیے اور مولانا الیاس گھمن کو بھی خود کو کٹہرے میں پیش کرنا چاہیے
اور اپنی ” کلئیرنس ” کرانی چاہیے ۔ اگر ثابت ہوجائے کہ ” زبان ”
واقعی گندی ہے تو اِسے کاٹ کر الگ کردیا جائے ۔ تاہم اگر خاتون کے
الزامات غلط نکلیں تو اُس کے لیے بھی مناسب سزا تجویز کی جائے ۔ ساتھ ہی
مولانا الیاس کی آڑ میں شیخ عبد الحفیظ مکی ، پیر عزیز الرحمٰن مکی اور
ان کے صاحبزادے مفتی اویس عزیز کو بدنام کرنے کے پیچھے کارفرما قوتوں کو
بھی بے نقاب کیا جانا چاہیے ۔

اگر مولانا قصور وار ثابت ہوتے ہیں تو اُنھیں شریعت کے مطالق سزا دی
جائے اور اگر خاتون کے الزامات جعلی نکلتے ہیں تو پتہ چلانا چاہیے کہ
خاتون کا ریموٹ کسی مذہبی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں ہے ، یا کوئی غیر مقلد
اس سٹوری کا خالق ہے یا کسی ہم مسلک کی چال ہے یا پھر حیاتی مماتی اختلاف
کا شاخسانہ ؟

کیا یہ اہلِ تصوف کو بدنام کرنے کی سازش ہے یا پھر مسلکِ دیوبند کو؟
تاہم بنا ثبوت ” ایک روتی ہوئی عورت ” اور ایک ” پراسرار مفتی ” کے
الفاظ پر مولانا الیاس گھمن کو گالیوں سے نوازنا درست امر نہیں کیونکہ
ضروری نہیں ” جو آنکھیں روتی ہوں وہ سچی بھی ہوں ”۔
تو جناب توپیں بند کیجئے ، بہت ہوچکی گولہ باری ، ذرا گریباں میں جھانکیے
کیونکہ ” فرشتے آپ بھی نہیں ”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے