مولانا فضل الرحمان کیا کرنے جا رہے ہیں؟

اک طرف نوازشریف ہیں ۔ آصف زرداری ہیں ۔ جیل میں ہیں ۔ ان کی پارٹیاں بات کرتے گھبراتی ہیں ۔ بلاول بولتا ہے تو کرنٹ پھرتا ہے ، پر تھوڑی دیر میں نارمل ہو جاتی صورتحال ۔ مریم بڑے جلسے کر رہی تھی اب اک کیس میں اندر ہے ۔

باقی نون لیگ منہ اٹھا کر ادھر ادھر دے رہی جو بہت انقلابی تھے گواچی گاں کی طرح پھر رہے ۔

مولانا فضل الرحمان نے لاک ڈاؤن کا اعلان کر رکھا ہے ۔ یہاں زرا ٹہریں منظور پشتین کو یاد کریں ۔ وہ جو نعرے لے کر اٹھا تھا اس کے بعد سیدھا تصادم ہوا ۔ دو ممبران جیل پہنچے اور پی ٹی ایم کو چپ لگ گئی ۔ کوئی مستقبل بظاہر دکھائی نہیں دیتا ،

مولانا اب اصل اپوزیشن کے طور پر ابھرتے ہوئے سامنے آ رہے ہیں ۔ وہ منظور پشتین والی باتیں بھی طریقے سے کر رہے ہیں ۔ سوال اٹھا رہے ہیں لیکن لائین کراس نہیں کر رہے ۔ دفاعی پوزیشن پر ضرور کھڑا کر دیا ہے انہوں نے حکومت کو بھی اور اسے لانے والوں کو بھی ۔

مولانا الیکشن جیتنے کے بعد اپنی پارلیمانی طاقت سے زیادہ شئر لیتے رہے ہیں حکومتوں سے ۔ البتہ انہوں نے جب بھی حکومت میں شمولیت اختیار کی ہے تو وہ منتخب حکومت میں پارلیمانی راستے سے ہی شامل ہوئے ہیں ۔

مشرف دور میں وہ سٹیک ہولڈر بھی بنے ۔ اپنے سٹیک بچا کر اپوزیشن بھی کرتے رہے ۔ ان کی سیاست تھی جس کے لیے انہوں نے الزام بھی سہے ۔

ایک الزام ان پر لگتا ہے کہ امریکی سفیر سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کبھی داڑھی والے پر اعتبار کرو زیادہ اچھے رہو گے ۔ اگر سوچا جائے تو اس بات میں کچھ غلط یوں بھی نہیں تھا کہ ہم اک عالمی نظام میں رہتے ہیں ، حکومت بنانے چلانے کے لیے حمایت صرف ووٹر صرف اداروں کی ہی کافی نہیں ہوتی بیرونی حمایت بھی درکار ہوتی ہے ۔

مولانا نے اپنی بات خود کی اس کا مذاق بنا دیا گیا باقیوں نے اس کے لیے بندے رکھے ہوئے ہیں تو وہ سارے زیر میٹر پھر رہے ۔ ابھی کپتان کو امریکہ دورے پر کامیاب کرنے کے لیے سر جی کو خود ساتھ جانا پڑا یہ کیا تھا ۔

اک حکومت کو حمایت دلوانے کے لیے اجتماعی کوشش ۔ مولانا پر بھی کوئی الزام بنتا نہیں ہے ۔

اگر تو ساری پارٹیاں ہماری پارٹیاں ہیں جو کہ یقینا ہیں تو مولانا کا بھی پورا حق ہے کہ وہ اس سسٹم میں اعلی ترین منصب کے لیے کوشش کریں ۔ سیاست ہے پاور گیم ہے ۔ مولانا اگر آج مذہبی جماعتی سیاست کے لیے نہیں کھڑے ہوتے تو ان کی سیاست تو ختم ہو گی ہی دیوبند سکول کے نام پر سیاست بھی اک لمبا عرصہ ممکن نہیں رہے گی ۔

مولانا ان حالات میں اپنا کیس کیسے لے کر آتے ہیں ۔ حل کیا پیش کرتے ہیں ۔ دباؤ کیسے ڈالتے ہیں حکومت کو بے بس کیسے کرتے ہیں جمہوریت پر اصرار کیسے کرتے ہیں یہ سب فیصلہ کر دے گا کہ انہیں بطور ووٹر اک آپشن سوچ جا سکتا یا نہیں ۔ اگر وہ راستے میں کہیں رک کر تھک کر کوئی ڈیل کرتے ہیں

تو اپنے سیاسی خاتمے کے لیے پھر خود ہی کافی ہونگے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے