میرا بدلتا تصورِ تاریخ

تاریخ بدل گئی ہے یامیں بدل گیا ہوں؟کل میں جسے ولن سمجھتاتھا، آج وہ میرے لیے ہیرو کیوں ہے؟

ایک کشمکش ہے جسے میں نے ایک سوال کی صورت میں آپ کے سامنے رکھاہے۔میں روز اس کشمکش سے گزرتا ہوں۔میں آج شخصیات اور واقعات کی اس تعبیرپرنہیں کھڑا،جسے میں کل تک درست مانتا تھا۔کالم میں تاریخی واقعے کاحوالہ دیتے ہوئے رک جا تا ہوں۔کیا معلوم کل اس سے رجوع کرنا پڑ جا ئے۔انبیا اورصحابہ کا معاملہ الگ ہے کہ ان کے باب میں اللہ کا آخری الہام گواہ ہے۔قرآن مجید اللہ کے آخری رسول سید نا محمد ﷺ کی سرگزشتِ انذار ہے۔آ پؐ کی پاک زندگی اورآپؐ کے عہد کی تاریخ ، الہامی فیصلے کے تحت محفوظ ہو گئی کہ یہ ختم ِنبوت کا ناگزیر تقاضا تھا اور دینی ضرورت بھی۔ اس کے بعد جو کچھ ہے،تاریخ ہے، الا یہ کہ اللہ کی کتاب نے پیش گوئی کی ہو یا اللہ کے رسول ﷺ نے اطلاع دی ہو اور وہ مصدقہ ذریعے سے ہم تک پہنچی ہو۔

زیادہ پرانی بات نہیں کہ جنرل ضیاالحق میرے لیے ہیرو تھے اورذوالفقار علی بھٹو ولن۔آج ضیا مرحوم کی شخصی خوبیوں کے ا عتراف کے باوجود، انہیں ہیرو مانے کو دل نہیں چاہتا۔اس سماج کی جڑوں میںاترے جس المیے کو کھولتا ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ اکثر موصوف ہی کی عطا ہیں۔

یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا۔اس معاشرے میں بہت سے لوگ ہیں ،تاریخ کے معاملے میں جن کے خیالات بدل رہے ہیں۔کل ہی میں جاوید ہاشمی صاحب کو سن رہا تھا۔عدالتِ عظمیٰ کے باہر کھڑے تھے اور ماضی کی واقعات کو اپنے رائے کے حق میں بطور دلیل پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کو جبری فیصلہ قرار دیا۔ ہاشمی صاحب ضیاالحق کی کابینہ کے رکن اور بھٹو صاحب کے ستم رسیدہ ہیں۔خواجہ آصف سمیت کتنے لوگ ہیں جو آج بھٹو اور نوازشریف کو ایک صف میں کھڑا کرتے ہیں۔

بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھانے کے لیے ، ضیاالحق صاحب کوجس سیاسی حمایت اور عوامی تائیدکی ضرورت تھی ،وہ مسلم لیگ نے فراہم کی یا جماعت اسلامی نے۔ ضیاالحق صاحب نے میاں صاحب کودعا دی کہ اُن کی عمر بھی اِن کو لگ جائے۔مریم نواز لیکن آج نوازشریف صاحب کا مقدمہ پیش کر تی ہیں تو بھٹو صاحب کے ذکر کے ساتھ۔یہ تاریخ کا جبرہے یا سیاسی ضرورت؟

اہلِ سیاست کے بارے میں تو میں کوئی فتویٰ نہیں دے سکتالیکن اپنے بارے میں عرض کر سکتا ہوں کہ یہ کیا ہے؟اسی طرح بہت سے ایسے لوگوں کے بارے میں بھی جن کے احوال سے میں بڑی حد تک آگاہ ہوں، ایک رائے کا اظہار کر سکتا ہوں۔میرا احساس ہے کہ لوگ اپنے تصورِتاریخ پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔

میرا تاریخی شعور دوباتوں سے عبارت ہے۔ایک میرا تصورِ اخلاق اوردوسرا میرا شخصی تجربہ۔میں جس عہد میں جیتا ہے اور جو مجھ پر گزرتا ہے،اسی کی روشنی میں ،میں اپنے ماضی کا ادراک کر تاہوں۔مثال کے طور پر فرض کیجئے اگر میںآج آزادیٔ رائے کے حق سے محروم ہوں تو مجھے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جو لوگ ضیاالحق صاحب کے دور میں اس آزادی سے محروم تھے،وہ حکمرانوں کے بارے میں کیا سو چتے ہوں گے۔یاکسی زمانے میں اگر لوگوں سے بات کہنے کا حق چھین لیا جا ئے تو ان پر کیا گزرتی ہے اور اس کے سماج پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

ایک سوال سے پھر بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔بنیادی انسانی حقوق،جمہوریت،آمریت،مذہبی آزادی،ان گنت مو ضوعات، جن کا تعلق آپ کے تصورِ اخلاق سے ہے،آپ کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔اس طرح انسان شعوری ارتقا کے مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ ارتقا اس کے تاریخی تصورات پر بھی اثر اندازہوتا ہے۔اپنے عہد کے واقعات کی روشنی میں،وہ ماضی کی شخصیات کو پرکھتا ہے اور یوں اس کا تصورِ تاریخ بدلتا چلا جا تاہے۔

ہمارااجتماعی مزاج غلامی کا خوگر ہے۔مذہب اور سیاست کی یک جائی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے۔اسلام ،اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنے پروردگار کی منشا کے سامنے سرجھکا دیا جائے۔ہمارے تصورِ مذہب میں انسان عبدیعنی اللہ کا غلام ہے۔تاہم یہ سرافگندگی سراسرانسانی ارادے اورعمل کے تابع ہے۔خارج سے کوئی قوت اسے مجبورنہیں کر سکتی کہ وہ خدا کا بندہ بن کر جیے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا توخود مذہب اس کے راہ کی دیوار بن جا ئے گا۔انسان اگرخدا کے حکم کے سامنے اپنی آزادی سے دست بردار ہوتا ہے تو یہ تما م تر ایک ا ختیاری عمل ہے۔

جب امتِ مسلمہ کی تاسیس ہوئی توپہلے مرحلے میں دنیا کا اقتدار امت کے اجتماعی شعورکا حصہ تھا۔پیغمبرؐ صرف اللہ کے رسول ہی نہیں تھے،حاکمِ وقت بھی تھے۔آپؐ کے بعد جو نظمِ اجتماعی تشکیل پایا،اس میں اقتدار کو بھی ایک مذہبی تقدس حاصل ہو گیا۔خلافتِ راشدہ میں ابوبکر و عمر، رضی اللہ عنہما جیسی جلیل ا لقدر شخصیات نے حکمرانی اور خدا خوفی کواس طرح یک جاکردیا کہ تقدس کو اقتدار سے الگ کر ناممکن نہیں ہو سکا۔ بعد کے ادوار میں یہ یک جائی باقی نہیں رہی۔اس کے باوجود،تصور یہی رہا کہ حکمران ظل اللہ فی الارض ہے۔یعنی زمین پر اللہ کا سایہ۔گویا غلامی کا جو تصور خدا سے منسوب ہے،مجازی حوالے سے، وہ حکمرانوں سے وابستہ کر دیا گیا۔یوں ہمارا مزاج بادشاہی کا خو گر بن گیا۔

یہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہوا۔دنیامیں طویل عرصہ بادشاہت رہی۔بادشاہ زمین پر طاقت کی علامت تھا اور عوام کا وظیفہ صرف اطاعت تھا۔مطلق اقتدار اور مطلق غلامی۔یورپ اس کا اتنا خوگر ہوا کہ جمہوریت آنے کے بعد بھی بادشاہت کا ادارہ ختم کر نے پر آمادہ نہیں۔یہی معاملہ ہمارا بھی ہے۔ہم آج بھی کسی بادشاہ یامطلق العنان حکمران کو آئیڈیلائز کرتے ہیں جو کسی قانون کا پابند نہ ہو اور جس کو چاہے چور اور منشیات فروش قرار دے کر جیل میں بند کر دے۔

مذہب دراصل انسانی آزادی کا سب سے بڑا علم بردار تھا۔اس نے اعلان کیا کہ دنیا میں کسی کا اختیار مطلق نہیں ہے۔اللہ اور رسول کے علاوہ،کوئی اطاعت غیر مشروط نہیں ہے۔تاہم یہ بھی دل چاہنے کا معاملہ ہے۔دنیا میں کسی کو جبر کے ذریعے اس اطاعت کا پابند نہیں بنا یا جا سکتا۔اگر انسان اپنی مرضی سے اللہ کی غلامی کا طوق اتار پھینکتا ہے تو پھر اس کو وہ عذر تیار رکھنا چاہیے جو وہ کل اپنے رب کے حضور میں پیش کر سکے۔ بادشاہوں نے جب بعد میں اپنے حق میں مذہبی مقدمہ قائم کیا تو مسلسل جبر نے لوگوں کے تصورِ مذہب ہی کو بدل ڈالا۔انہوں نے بادشاہ کی غیر مشروط اطاعت کو مذہبی حکم سمجھ لیا۔

یہ وہ انسانی تجربات ہیں جن سے ہمارا تصورِ تاریخ پھوٹا ہے۔بادشاہت میں رہنے والوں کا اندازِ نظران کے تجربات کے تابع ہے۔مغرب میں تھامس ہوبس،جان لاک اور روسوجیسے اہلِ دانش نے یورپ کے تصورِ تاریخ اور تصورِ اقتدار کو چیلنج کیا اور یوں مغربی معاشرے ایک طویل سفر طے کر کے جمہوریت تک آ پہنچے۔۔مسلم معاشرے ہنوز سفر میں ہیں۔

میرا تصورِ تاریخ طویل عرصہ، اقتدارکے مسلم تجربے کے تابع رہاجس میں بادشاہ ظل ا للہ فی الارض ہے۔اسی لیے میں بآسانی آمریت کو قبول کر تارہاہوں۔میرے نزدیک آئین،عمرانی معاہدے یااجتماعی امور میں عہد کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔چار پیسے کا فراڈمیرے لیے ایک ناقابلِ معافی جرم تھا لیکن آئین شکنی سرے سے کوئی جرم نہیںتھا ۔ میں اسحاق ڈار کو تو واپس لاکر قانون کے سامنے پیش کر نا چاہتا تھا لیکن میرے نزدیک مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔

میرا یہ تصورِ تاریخ مگر آج بدل چکا۔میں بھوک سہہ سکتا ہوں لیکن آزادیٔ رائے پر قدغن مجھے جان لیوا معلوم ہو تی ہے۔میں کسی کے مطلق العنان اقتدار کو تسلیم نہیں کر سکتا۔اس لیے ضیاالحق صاحب کی شخصی خوبیوں کے اعتراف کے باوجود،میری طبیعت انہیں ہیرومانے پر آمادہ نہیں۔میرا یہ تصورِ تاریخ میرے اخلاقی شعور اور میرے تجربات ومشاہدات سے پھوٹا ہے۔آپ کا تصورِ تاریخ کیا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے