میں، میرا بڑھاپا اور سرور سکھیرا!

سچی بات یہ ہے کہ میں بوڑھا ہو کر بہت پچھتا رہا ہوں، حالانکہ مجھے بچپن ہی سے بوڑھا ہونے کا شوق تھا، میں خاندان بلکہ پورے محلے پر بوڑھے افراد کی چوہدراہٹ دیکھتا تھا تو میرے دل میں بوڑھا ہونے کی خواہش جاگنے لگتی تھی۔

خاندان میں کسی بچے کی پیدائش ہوتی تو ’’گڑھتی‘‘ ان سے دلوائی جاتی، نام ان سے رکھوایا جاتا، کسی کے رشتے کی بات چلتی تو آخری فیصلہ انہی کا ہوتا، کسی تقریب کا آغاز اس وقت تک نہ ہوتا جب تک خاندان کے بزرگ کی آمد نہ ہوتی۔ کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا تو تصفیہ بھی انہی سے کرایا جاتا۔ اس کے علاوہ بوڑھوں کو ’’سیانا‘‘ بھی کہا اور سمجھا جاتا تھا، چنانچہ ہر اچھی بات ان سے منسوب کر دی جاتی۔ آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ’’سیانے کہتے ہیں‘‘ اور اس کے بعد جو مقولہ بیان کیا جاتا یوں لگتا جیسے بو علی سینا کا ارشاد ہے۔ بعض دفعہ تو واقعی انہی کا نکلتا۔

یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مجھے بچپن ہی سے بوڑھا بننے کا شوق تھا، صرف میری نہیں بلکہ میرے جوانی کے دوست سرور سکھیرا کی بھی یہی خواہش تھی۔ اب ہم دونوں بوڑھا ہوکر پچھتا رہے ہیں۔ پچھتانا تو ہے ہی، اب بوڑھوں کو کون پوچھتا ہے، ان کی کون سنتا ہے، انہیں کون سیانا سمجھتا ہے، بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں یہ ’’سیانا‘‘ دوست احباب کی موجودگی میں کہیں سے نہ آ ٹپکے اور کوئی ایسی بونگی نہ مار دے کہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہی نہ رہیں۔ ان نام نہاد ’’سیانوں‘‘ کی ’’تربیت‘‘ کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ کہیں رشتے کی بات چل رہی ہو تو اس سیانے کو اس وقت تک اس کے کمرے سے باہر نہیں نکلنے دیا جاتا جب تک بات پکی نہ ہو جائے۔

اس حوالے سے شنید ہے کہ ایک غریب مالی نے اپنا پیٹ کا ٹ کر اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلائی اور بالآخر وہ ایک بہت بڑا افسر بن گیا۔ ایک دن گریڈ بائیس کا یہ بیوروکریٹ اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں اپنے ہم مرتبہ دوستوں سے گپ شپ میں مشغول تھا کہ اس کا باپ دھوتی اور بنیان میں غلطی سے ڈرائنگ روم میں آ نکلا، یہ دیکھ کر بیوروکریٹ گھبرا گیا اور گھبراہٹ کے عالم میں دوستوں سے کہا ’’یہ بزرگ میرے والد کے دوست ہیں‘‘۔ اس روز یہ بزرگ ’’بونگی‘‘ مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے فوراً تصحیح ضروری سمجھی اور کہا ’’میں اس کے والد کا نہیں، اس کی والدہ کا دوست ہوں‘‘۔

اور ہاں کالم کے آغاز میں میں نے اپنے دیرینہ دوست سرور سکھیرا کا ذکر کیا تھا جو میری ہی طرح بوڑھا ہونے پر مسلسل پچھتاتا ہے اور مجھے بھی اپنی ’’غلطی‘‘ پر برا بھلا کہتا ہے کہ تمہیں کس نے بوڑھا ہونے کو کہا تھا۔ ممکن ہے آپ میں سے چند ایک لوگ سرور سکھیرا کو نہ جانتے ہوں تو میں انہیں بتاتا چلوں کہ یہ سرور سکھیرا وہی ہے جس نے رجحان ساز جریدہ ’’دھنک‘‘ نکالا تھا اور ہند سندھ میں اس کی دھوم مچ گئی تھی۔ سکھیرا نے چند برس پیشتر کالم بھی لکھنا شروع کئے اور بالکل ہی وکھری ٹائپ… پھر نجانے کیا ہوا کہ یہ سلسلہ بھی بند کر دیا۔ اب صرف اپنے بوڑھا ہونے پر پچھتاتا ہے، سکھیرا کے حوالے سے ایک واقعہ بھی یاد آگیا، ’’دھنک‘‘ کے زمانے میں حکومت ِ وقت کسی بات پر اس سے ناراض ہوگئی اور شاہی قلعہ کے ایک ’’تنگ و تاریک‘‘ سیل میں بند کر دیا۔ وہاں درد ناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں، جو دوسرے عقوبت خانوں سے آ رہی تھیں۔

سکھیرا بتاتا ہے کہ شدید سردیوں کے دنوں میں وہ اس سیل کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک سات فٹا کالا سیاہ شخص کہ جس نے سفید کرتا اور سفید دھوتی باندھی ہوئی تھی اور ہاتھ میں حقہ تھاما ہوا تھا، اس کے سیل کے سامنے سے گزرا اور حقے کا کش لیتے ہوئے کہا ’’بائو کپڑے اتار، میں آ رہا ہوں‘‘ سکھیرا بتاتا ہے کہ اس کی یہ نازیبا فرمائش اور اس کا قد کاٹھ دیکھ کر اس کا رنگ فق ہوگیا۔ دوسری دفعہ وہ پھر ادھر سے گزرا اور کہا ’’تم نے سنا نہیں، میں نے کیا کہا‘‘ اور حقے کا لمبا کش لیتے ہوئے آگے نکل گیا۔ سکھیرا انتہائی ستم ظریف شخص ہے، اپنا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتا۔ چنانچہ اتنا افسوسناک واقعہ سناتے ہوئے بھی اس نے اس ’’المناک فرمائش‘‘ کا جو کلائمیکس بتایا وہ یہ تھا کہ ’’میں نے بالآخر اس کے حکم کی تعمیل کی‘‘۔ میں نے پوچھا ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ بولا ’’میں انتظار ہی کرتا رہا وہ آیا ہی نہیں‘‘؛ تاہم سکھیرا کے اس بیان کی تصدیق یا تردید نہیں ہو سکی۔

میں موضوع سے نہیں ہٹا بلکہ یہ بتانا ضروری تھا کہ اتنے دبنگ اور بذلہ سنج شخص نے بوڑھا ہو کر تو پچھتانا ہی تھا، اور کچھ اسی قسم کی صورتحال میری بھی ہے، مجھے ایک دورِ حکومت کی ایک سفاک شخصیت سے پیغام ملا تھا کہ ’’انٹ شنٹ لکھنا بند کرو، تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی خوبصورت ہے‘‘۔ مگر اب میں اس طرح کے کسی پیغام کی نوبت ہی نہیں لاتا! اور یوں میرا بوڑھے ہو کر پچھتانا تو بنتا ہی ہےنا!۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے