وادی نیلم کے بچے گداگرکیسے بنے؟

اے گداگر خدا کا نام نہ لے
اس سے انساں کا دل نہیں ہلتا
یہ ہے وہ نام جس کی برکت سے
اکثر اوقات کچھ نہیں ملتا

عبد الحمید عدم نے جانے یہ شعر کن گداگروں کےلیے کہا ہے اور کس خدا کے نام لینے سے خبردار کیا ہے۔ ہمارے ہاں گداگر تو خدائے واحد کا نام لیتے ہیں اور اسی خدائے واحد کے نام کی برکت سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔

گداگری عصر حاضر میں ایک بڑھتا ہوا موذی مرض ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ بڑے شہروں میں گداگروں کی بھر مار تو تھی ہی ، لیکن رفتہ رفتہ یہ مرض شہر سے نکلتا ہوا گاؤں اور گاؤں سے نکلتا ہوا وادیوں میں پھیل گیا۔ اب وادیوں کے باسی زمین سے سونا نکالنے کی بجائے اور محنت مزدوری کرنے کی بجائے اسی مرض کو ہی اپنی محرومیوں اور معاشی بیماریوں کا علاج سمجھ بیٹھے ہیں۔

وادی نیلم کرہ ارض پر قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔ جا بجا بہتے ندی نالے، بلند و بالا پہاڑ ، سر سبز اور گھنے جنگلات، چوٹیاں معدنیات سے بھری ہوئیں اور رنگینیاں دنیا جہاں کی نباتات کو اپنے اندر سموئی ہوئی ہیں۔ قدرت نے اس وادی کو حسن کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے بھی بے تحاشا نوازا ہے۔

اس وادی کشمیر جنت نظیر کا ایک حصہ انڈیا کے قبضے میں ہے جبکہ ایک حصے پر پاکستان آرمی کے جواں ہمالہ سے بلند حوصلے لیے "محاذوں” پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ 1989 سے لے کر 2003 تک یہ وادی قہر بنی رہی اور اس کی سرسبز و بلند و بالا چوٹیاں آگ برساتی رہیں۔ اس کے شفاف ندی نالوں سے بارود کی بو آنے لگی اور یہ جنت دنیا پر جہنم کا نقشہ پیش کرنے لگی۔ خدا بھلا کرے میرے "بہادر” فوجی جرنیل جنرل مشرف کا جو نیلم میں امن بحال کروا گیا۔

نیلم میں امن قائم ہونے کے بعد اہل نیلم نے آنکھیں کھولیں اور اپنی سوئی ہوئی تقدیر کو جھنجوڑا۔ اس قوم نے تعلیم میں ترقی تو پائی مگر تربیت کا فقدان رہا۔ اسی عرصہ میں کشمیر و پاکستان کے سیاحوں نے اس وادی کا رخ کیا اور اسے ٹوریسٹ پوائنٹ بنا دیا۔ جہاں کے مکینوں نے 14 سال گولیاں کھائی ہوں اور اپنے پیاروں کی لاشیں ڈھوئی ہوں، ان بےچاروں کی معاشی حالات کیسے ہوں گے ، اس کا اندازہ وہیں کے مکین ہی کر سکتے ہیں۔ سیاحت کے آنے سے لوگوں کے کاروبار نے جنبش کی اور پیسہ قطرہ قطرہ کر کے نیلم میں گرنے لگا۔


2005 کے زلزلے نے جہاں پورے کشمیر کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو بدل کر رکھ دیا وہیں تقدیر کو بھی انگڑائی لینے پر مجبور کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے "ریلیف "(امدادی سامان) نے اجڑے گھروں کو کمبلوں،رضائیوں ، گھی کے ڈبوں اور ایمپورٹڈ اشیاء سے پھر سے بسا دیا۔ قوم آٹے کی بوری اور گھی کے ڈبے کے پیچھے اپنی دیہاڑ ضائع کرتی اور پورے دن کی انتھک محنت کے بعد ساتھ میں چند کھجوریں لے کر گھر کو چلتی بنتی۔

زلزلے کے اثرات اور ریلیف کے درجات جب کم ہوئے تو پھر سے سیاحوں نے وادی کا رخ کیا۔ مقامی آبادی نے خود سے گیسٹ ہاؤسز بنانے کی بجائے اوروں کو دعوت دی اور اونے پونے داموں زمینیں لیز پر دے کر خود ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے۔ باہر سے آنے والوں نے وہیں سے پیسہ کما کر مزید سرمایہ کاری کی اور پیسے کے ساتھ پیسہ کھینچتے رہے جب کہ اہل وادی حیرت کدے میں کھڑے بارود کی گھن گرج اور اس کی بو میں غلطاں رہے۔ وہ ماضی کی تلخیوں سے نہ سیکھ سکے ، انھوں نے اپنا حال نہ بدلا اور مستقبل کی فکر سے بے فکر ہو گئے۔ خود اپنے ہاتھوں سے روزگار گنوا بیٹھے اور خود ہی اپنی نسل کو آگ میں جھونک دیا۔

گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی دوستوں کے ساتھ ویلی گھومنے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ نیلم ویلی میں گداگری زور پکڑتی جا رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے گداگر بچوں اور بچیوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ایک فاریسٹ نرسری میں آیندہ نسل کے لیے دیودار تیار ہو رہے ہیں (جو نسل کےلیے فائدے کی بجائے وہاں کے حکمرانوں کےلیے زیادہ سودمند ثابت ہوتے ہیں)۔ بالائی وادی میں اس مرض کی بہتات ہے۔ گداگران نیلم سیاحوں کا تب تک پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک کم ازکم دس روپے نہ لے لیں۔

گداگری کو فروغ بھی سیاحت نے دیا۔ جہاں کہیں ننھا معصوم اور حسین بچہ نظر آتا فوراً سے پہلے سیاح اس کی ہتھیلی پہ بابائے قوم کی تصویر کو رکھ دیتے ۔ پھر وہاں کے بچوں نے ٹوریسٹ گائیڈ کے پیشے کو اپنایا اور تھوڑے سے سفر کے ہزاروں دام بٹورنے لگے۔ رفتہ رفتہ تعلیم کا شوق کم اور پیسے کمانے کا شوق بڑھتا گیا۔

یوں گھر والوں کےلیے آسانیاں پیدا ہوئیں اور ٹوریسٹ گائیڈ اور سیاح کی نوازشات سے اچھی بھلی رقم گھر کے آنگن میں آنے لگی۔ دیکھا دیکھی ان گنت بچے اس آگ میں کود گئے اور والدین کل سے بے خبر بچوں کی مکمل سر پرستی کرنے میں مصروف عمل ہو گئے۔ یعنی پوری کی پوری ایک نسل اس آگ میں دھکیل دیا جو پانچ سال بعد جوان ہو گی اور صرف مانگنے و ہاتھ پھیلانے کے سوا کچھ نہ کر سکے گی۔ جس سے جرائم بڑھیں گے اور پرامن وادی میں آئے روز سیاح کے ساتھ بدتمیزی اور لڑائی جھگڑوں کی اطلاعات آئیں گی۔ گاڑیوں کے شیشے توڑے جائیں گے اور کئی جیب کترے تیار ملیں گے۔ منشیات کا استعمال اب بھی کم نہیں مگر عروج پر ہو گا۔

(اڑنگ کیل جنگل میں سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کی ایک گینگ جو بستوں سے لیس تھے شام چار بجے کے قریب سگریٹ میں چرس بھرنے میں مصروف عمل تھے۔ جب ان سے اس حرکت کی وجہ پوچھی تو بڑے دھیمے لہجے میں گویا ہوئے کہ یہ تو ہمارا روز کا معمول ہے۔ )

میں حیران ہوں کہ نیلم کی سینکڑوں اور چپے چپے اور انچ انچ پر پھیلی ہوئی یوتھ کی تنظیموں سے یہ معاشرتی مسئلہ کیوں پوشیدہ ہے ؟ کیا نیلم کی یوتھ ساری فیس بک پر نیلم کے مستقبل کی جنگ لڑتی ہے؟ کیا یوتھ تنظمیں زمینی حقائق سے بے خبر ہیں ؟

ہم نے اپنے مستقبل کو خود بچانا ہے ورنہ آج سے پانچ دس سال بعد ہم بھی "مری والے” ہوں گے جو جہاں چاہیں سڑک پہ گاڑی کھڑی کر دیں اور رستہ بند کر دیں، جو جہاں چاہیں سیاح سے بدتمیزی کریں، جو اپنی مرضی کے ریٹ وصول کریں اور عورت کی بھی ٹھکائی کر دیں۔ کیا ہمارا مستقبل کچھ ان سے مختلف ہو گا؟ میرے خیال سے نہیں۔

اس مرض کو دور کرنے کےلیے مقامی آبادی کو آگے آنا ہو گا۔

ہر گاؤں کی سطح پر رضاکاروں کی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی جو مقامی بچوں کو بلا ضرورت بازار اور سڑک پر پھرنے سے روکیں اور والدین کو پابند بنائیں کہ غیر ضروری طور پر بچوں کو بازار کی طرف نہ بھیجا جائے۔
گدا گری کے خلاف مہم چلائی جائے اور عوام الناس کو اس کے بھیانک مسقبل سے آگاہ کیا جائے۔

سیاح حضرات کو سختی سے پابند کیا جائے کہ وہ کسی بھی صورت مقامی بچوں کو پیسے نہ دیں اور نہ ہی ان سے اپنا سازو سامان اٹھوائیں۔

گیسٹ ہاؤسز اور دیگر تجارتی مراکز کو پابند کیا جائے کہ ضرورت مند مقامی نوجوان کو باعزت ملازمت دی جائے۔
اساتذہ سکولوں کے اندر بچوں کو اچھے اور برے کا شعور دیں۔

ٹوریسٹ پولیس سیاح حضرات کو ہدایت جاری کرے کہ مانگنے والے بچوں کی ہر گز حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔
ضلعی انتظامیہ اس حوالے سے اصلاحات نافذ کرے۔

نیز ہر شخص اپنے اپنے حصے کا کام کرے تو امید قوی ہے کہ نیلم کا مستقبل تاب ناک ہو گا ۔ ورنہ ایک پوری نسل نیلم کو کسی زلزلے ، کسی سیلاب اور کسی حادثے سے اور جنگ سے زیادہ نقصان پہنچائے گی۔

آج نہیں سنبھالو گے تو کل بھگتو گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے