وحدت الوجود کا خلاصہ ،یہ مسائل تصوف، یہ تیرا بیان غالب!

وحدت الوجود کو انگر یزی زبان میں
Unity of being, Unity of existence, Sufi meta-physic
جیسی اصطلاحات سے تعبیر کیا جاتاہے،
اور کھبی کھبار اس کا ترجمہ (Pantheism) سے بھی کیا جاتاہے۔ ان اصطلاحات یا تعبیرات سے اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر تاریخی طور پر اس نظریہ کے ڈانڈے قبل اسلام کی تہذیبوں ملتے ہیں۔ چنانچہ ابلی ، مصری ، فنیقی ، رومی ، یونانی ، یہودی اورعیسائیوں اور ہندوؤں میں بھی یہ فکر کسی قدر اختلاف سے پائی جاتی ہے۔1
پروفیسر والٹر(Walter Trance) لکھتے ہیں:

It has been a common assumption of writers on the subject that mysticism is a religious phenomenon. Having western religions especially. Christianity, always in their mind, they may even simply define the mystical consciousness an ‘‘ union with God’’ 2
ترجمہ: تصوف کے موضوع پر لکھنے والوں کے درمیان قدر مشترک مفروضہ یہ ہے کہ سبھی تصوف کو دین کا ایک مظہر مانتے ہیں۔ یورپی مذاھب خصوصا مسیحیت کے بارے ان کی فکر کی آسان تعریف ” اللہ کے ساتھ اتحاد” سے کی جاسکتی ہے۔

[pullquote]اہل اسلام میں وحدۃ الوجود کی بازگشت [/pullquote]

اہل اسلام میں سے مغلوب الحال بزرگوں کیطرف سے مختلف اوقات میں ایسی باتیں صادر ہوتی رہیں، جن کی کوئی مقبول شرعی تشریح بظاہر ممکن نہ تھی، اس لئے اہل علم نے انہیں ” شطحا ت ” کے نام وعنوان سے تعبیر کیا، کیونکہ شطح کا لغوی معنی ” بہت دور چلے جانا” ہے، عربی زبان میں کہاجاتاہے ” شطح به خياله” یعنی اس کے خیالات اس کو لے گئے ۔ اور فقہی طور پر اس کی تعریف ” كلمات يتكلمون بها ظاهرها مخالفة الشريعة۔ 3 (ایسے جملے بولنا جن کا ظاہری معنی شریعت سے متصادم ہو)

اب ان شطحا ت کی رسائی کہاں تک ہے؟ یعنی کس کس ہستی پر اس کا اثر ہوسکتا ہے ؟ یہ بہت ہی حساس اور محنت طلب موضوع ہے (اس لئے اس کو کسی مناسب وقت کیلئے اٹھائے رکھتے ہیں) البتہ تاریخی اعتبار سے تیسری صدی ہجری کے اہل معرفت میں سے بایزید بسطامی( 188 ھ – 261ھ ) منصور حلاج (858 – 26 مارس، 922) (244 هـ 309 هـ) کے علاہ پانچویں صدی ہجری کے مشہور حنبلی المسلک بزرگ شاہ عبد القادر جیلانی (470 – 561 ھ) تک سے ایسے کئی اقوال منقول ہیں۔ 4- حالانکہ حنبلی الفقہ حضرات ظواہر النصوص سے کتنے چپکے ہوئے ہوتے ہیں اہل علم پر مخفی نہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ علامہ طبری نے امام احمد بن حنبل کا نام فقہاء کرام کی فہرست میں سے نکال دیاتھا۔5- جس کی وجہ سے حنبلی فقہ کے ماننے والوں کی طرف سے ان کو شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ بعض اہل علم کے مطابق امام طبری پر رفض کے الزام کے پیچھے بھی یہی بات کار فرما تھی۔ 6- بہرحال بایزید بسطامی اور منصور سے اگرچہ ایسے اقوال مروی ہیں جن سے ” وحدت الوجود” کی فکر کشید کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کو باقاعدہ تصوف میں بطور شعار(symbol &slogan کےسب سے پہلے محی الدین ابن عربی(638ھ ) نے متعارف کروایا ، اس کے بعد آسمان تصوف پر اس کے بادل اس سختی سے چھائے رہے، کہ بعد مین آنے والوں میں سے بہت ساروں نے اس کو تصوف و سلوک کا ایک لازمی جزء سمجھ لیا ، حتی کہ اس سے انحراف کرنے والوں کو تصوف سے جاہل سمجھاجاتا تھا۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس فکر پر سب سے زیادہ شدید ردعمل دینے والے علامہ ابن تیمیہ بھی اسی صدی کی شخصیت ہیں، چنانچہ شیخ ابن تیمیہ شیخ ابن عربی کی وفات کے تیئیس سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ (7)
غربت کدہ ہند وسند ھ میں فکر وحدت الوجود کی آمد تقریبا آٹھویں صدی میں ہوئی، ہندوستان کی مٹی جس کی خمیر میں پہلے ہی ” ہمہ اوست ” ( سب کچھ و ہی ہے ) کی کی آمیزش موجود تھی ، نے اس فکر کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا اور دیکھتے دیکھتے ہی اس فکر کو بھی پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس فکر میں غلو پر اس وقت کے اہل علم نے کافی کچھ لکھا، مثلا خراسان ( موجودہ ایران کے 31 ویں صوبہ ) سمنان کے ایک مشہور عالم علامہ علاء الدولہ سمنانی نے اس پہ روشنی ڈالی اور دلائل سے ثابت کیا کہ سالک طریقت کی منزل ” بندگی ” ہے، وحدت نہیں۔8

[pullquote] اس مختصر سے تعارف کے بعد اس کی تشریحات کیطرف آتے ہیں۔[/pullquote]

[pullquote]وحدت وجود کی تشریحات [/pullquote]

[pullquote]1۔ فلسفیانہ تشریح َ[/pullquote]

وحدت الوجود کی تین تشریحات عمومی طور پر کی جاتی ہیں، جن میں سے پہلی اور سر فہرست فلسفیانہ تشریح ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا کہ تما کائنات ، موجودات سب کی سب یا بعض افراد اور شخصیات ذات خداوندی کا عین ہیں، بایں طور کہ ذات خداوندی ان میں حلول کر گئی ہے، لہذا اب ” ہمہ او است” جو کچھ بھی ہے، وہ اسی کی ذات ہے جو مختلف اشکال اور رنگوں مین ظاہر ہوتاہے ۔ اس تشریح نعوذباللہ کفر ہونے میں کسی کو کیا تامل ہوسکتا ہے؟

کیونکہ اس سے تکالیف شرعیہ (Sharia’s obligations)، حضرات انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام ، سابقہ اور موجودہ شریعت ، حشر اجساد اور جنت وجہنم کے وجود کا انکار لازم آتاہے۔ اور اس سے بقول علامہ شبلی رحمہ اللہ اس عقیدہ کے اعتبار سے ہم ہر شے کو خدا کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح حباب اور موج کو بھی پانی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ جس طرح انسان کے سائے کو انسان کہنا محال ہے۔ حالانکہ اہل اسلام کے تمام قابل ذکر فرقوں کے اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ ان چیزوں کا انکار آدمی کو – العیاذباللہ – ایمان کے دائرہ سے نکال دیتا ہے۔
علامہ ابو عبد اللہ السنوسی لکھتے ہیں :
وأما الجنة والنار فثبوتهما مما علم من الدين ضرورة، وهما مخلوقتان بدليل قوله تعالى :{ أعدت للمتقين}[21] ۔۔۔ يقول الشيخ عبد القادر الفاسي: "الجنـة والنار، وكلاهما مخلوقتان موجودتان الآن دائمتان۔ ".9
ترجمہ: جنت اور جہنم کا ثبوت دین کی بنیادی اور بدیہی معلومات میں سے ہے، وہ دونوں مخلوق ہیں، ارشاد باری تعالی ہے (ترجمہ)” وہ تیاری کی گئی ہے متقین کیلئے ۔ شیخ عبد القادر الفاسی کے الفاظ میں کہا جائے تو جنت وجہنم دونوں مخلوق اور اس وقت موجود ہیں، اور ہمیشہ رہیں گی۔
شرح عقائد میں لکھا ہے :
والبعث حق۔۔۔ والجنة حق والنار حق لأن ا لآيات و الأحاديث في شأنهما أشهر من أن يخفى و أكثر من من أن يحصى. 10
ترجمہ: روز حشر اٹھایا جانا ، جنت وجہنم یہ سب حق ہیں، ان کی حقانیت کے بارے آیات اور احادیث اتنی مشہور ہیں کہ کسی پر مخفی نہیں رہ سکتیں، اور اتنی زیادہ ہیں کہ گننا مشکل ہے۔
قاضی عیاض مالکی لکھتے ہیں:
وهو الخروج من القبور أو التفرق إلى الجنة والنار (والثّواب) على الحسنات (والعقاب) على السيئات (معنى غير ظاهره) وفي نسخة معنى على غير ظاهره (وأنّها لذّات) وعقوبات (روحانيّة) بفتح الراء ويجوز ضمها لا جسمانية (ومعان باطنة كقول النّصارى) لعل هذا قول بعضهم (والفلاسفة) من الحكماء الجاهلية (والباطنيّة وبعض المتصوّفة) كالوجودية القائلة بالعينية (وزعم أنّ معنى القيامة الموت) ولم (والفلاسفة) من الحكماء الجاهلية (والباطنيّة وبعض المتصوّفة) كالوجودية القائلة۔11
خلاصہ : یہ کہنا کہ ” روز قیامت قبروں سے نکلنا ، جنت و جہنم کی طرف جانا ، نیکیوں پر ثواب اور گناہوں پر عذاب کا ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ یہ سب کچھ صرف روحانی اور باطنی طور ہوگا، جسمانی نہیں،یہ عقیدہ بعض عیسائیوں زمانہ جاہلیت کے بعض حکماء، باطنی اوربعض خود ساختہ اہل تصوف مثلا وجودیہ فرقہ جو خالق اور مخلوق کی عینیت کا قائل ہے۔
شیعہ مسلک کے مشہور ( اور متنازعہ) عالم شیخ باقر مجلسی لکھتے ہیں:
اعلم أن الايمان بالجنة والنار على ما وردتا في الآيات والاخبار من غير تأويل من ضروريات الدين، ومنكرهما أو مؤولهما بما أولت به الفلاسفة خارج من الدين، وأما كونهما مخلوقتان الآن فقد ذهب إليه جمهور المسلمين إلا شرذمة من المعتزلةَ۔12
خلاصہ : جان لو کہ جنت جہنم پر بغیر کسی تاویل کے ایمان لانا ضروریات دین میں سے ہے، کیونکہ اس بارے ہمارے پا س بے شمار آیات و روایات موجود ہیں۔ ان کا انکار کرنے والا یا فلاسفہ کیطرح تاویل کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ باقی جہاں تک ان کے اس وقت موجود ہونے ہونے کا تعلق ہے تو جمہور مسلمانوں کے نزدیک وہ دونوں اس وقت موجود ہیں۔ البتہ معتزلہ کی چھوٹی سی جماعت اس کی انکاری ہے۔

[pullquote]2۔ وحدت الوجود علمی[/pullquote]
اس تشریح کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والا وجود صرف اور صرف ذات باری تعالی کا ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، وہ اسی وجود ربانی کا پرتو، عکس اور اثر ہے، وحدت الوجود کی سب سے بے غبار تشریح یہی ہے، اور مسلمانوں کے تمام گروہوں میں مقبول اور متفق علیہ ہے۔

علامہ شیخ صالح الغرسی لکھتے ہیں:
مانسميه بوحدة الوجود العلميّة، و هي أن يعتقد الإنسان أن الوجود الحقيقي و الوجود الواجب إنّماهو لله تعالى، و أنّ وجود ماسواه ظلّ لوجوده تعالى و أثر عنه و هذه هي عقيدة كل المسملين.13
ترجمہ: جسے وحدت الوجود علمی کا نام دیا جاتاہے، اس کا یہی مطلب ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ حقیقی وجود اور واجب الوجود صرف اور صرف باری تعالی جل جلالہ کی ذات ہے۔ اور اس کے سوائے جو کچھ ہے وہ سب اسی وجود حقیقی کا پرتو اور اثر ہے، یہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔
یہاں زندان مصر میں لیلائے شہادت سے ہم آغوش ہونے والے مظلوم سید قطب رحمہ اللہ کی ایک عبارت نقل کرنے کو دل چاہتاہے، عبارت کیا ہے؟ گویاعشق الہی کا ایک آب رواں ہے، جس کی روانی سے صدائے استقامت اور مقام عبدیت کی موجیں بلند ہوتی ہیں اور ماسوی اللہ کو خس وخاشاک کیطرح بہاکر لیجاتی ہیں۔ آپ بھی پڑھئے ، لکھتے ہیں:
إنها أحدية الوجود. فليس هناك حقيقة إلا حقيقته. وليس هناك وجود حقيقي إلا وجوده. وكل موجود آخر فإنما يستمد وجوده من ذلك الوجود الحقيقي، ويستمد حقيقته من تلك الحقيقة الذاتية وهي- من ثم- أحدية الفاعلية. فليس سواه فاعلا لشيء، أو فاعلا في شيء، في هذا الوجود أصلا وهذه عقيدة في الضمير وتفسير للوجود أيضافإذا استقر هذا التفسير، ووضح هذا التصور، خلص القلب من كل غاشية ومن كل شائبة.14
خلا صہ یہ کہ : لفظ ” احد” میں ( رب تعالی کی) یکتائی کا اظہار ہے، یعنی اس بات کا اظہار کہ اس کی حقیقت کے سوا کوئی حقیقت ہے ہی نہیں، اور اس کے وجود کے علوہ کو ئی حقیقی وجود موجود ہی نہیں، بلکہ اس کے سوا جو کچھ ( اس عالم ہست وبود میں ) موجود ہے وہ اسی وجود حقیقی سے مستمد، اور لیا ہوا ہے، اور اس کے سوا ہر چیز کی حقیقت بھی اس حق کی حقیقت کی مرہون منت ہے۔ نیز اس میں اس کے موثر اور کارساز حقیقی اور یکتا ہونے کا بھی اعلان ہے ۔ پس اس کے سوا کوئی بھی موثر اور فاعل حقیقی نہیں۔ ضمیر انسانی کی گہرائیوں میں اترنے والے عقیدہ کی تعبیر اور وجود کائنات کی تفسیر بھی یہی ہے۔ بس ( ایک بار ) یہ تفسیر قلب انساں مین اترجائے ، اور یہ تفسیر اس پر آشکارا ہوجائے تو پھر اس کے دل کو ہر اندھیرے اور شبہ سے نجات مل جاتی ہے

[pullquote]3۔ صوفیانہ تشریح [/pullquote]

وحدت الوجود کی صوفیانہ تشریح یہ ہے کہ یہ ایک کیفییت اور حالت کا نام ہے جوحب الہی سے سرشار، اور باری تعالی کے شراب عشق سے مخمور صوفیا اور سالکین پر اس وقت طاری ہوتی ہے ، جب ان کے قلب وجگر پر اپنے کریم رب کی کبریائی، عظمت اور بزرگی کا غلبہ ہوجاتاہے، جس کی وجہ سے ان کو باقاعدہ طور پر یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ ذات باری تعالی کے سوا سب عدم محض ہے، کچھ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ دیگر موجودات یا شریعت مطہرہ کا انکار نہیں کرتے، بلکہ اس کے احکام کے تابع رہتے ہیں۔ یہ کیفیت کھبی ایک ساعت، کھبی ایک دن تو کھبی زیاہ دیر تک بر قرار رہتی ہے۔ اور اکثر زائل بھی ہوجاتی ہے۔ البتہ بعض ایسے بندگان خدا بھی ہوتے ہیں کہ ان پر تمام عمر یہ کیفیت چھائی رہتی ہے۔ اور ایسے حضرات پر بسا اوقات ایک بے خودی سی چھاجاتی ہے، جس کے بعد ان کے حواس بر قرار نہیں رہتے، صوفیا اس کو حالت سکر سے تعبیر کرتے ہیں۔ نیز اس حالت میں بسا اوقات ان سے ایسے افعال یا اقوال بھی صادر ہوجاتے ہیں جو شرعی تقاضوں اور احکام سے میل نہیں کھاتے، لیکن چونکہ وہ اس وقت بے خود ہوتے ہیں لہذاان کے ( اس کیفیت کے دوران صادر ہونے والے) اقوال وافعال قابل گرفت بھی نہیں۔

چنانچہ مسلم کی ایک حدیث میں انسان کے توبہ کرنے پر اللہ تعالی کی خوشی کی ایک تمثیل بیان کی گئ ہے ، جیساکہ ایک مسافر شخص جس کا سارا زادراہ اس کی سواری پر رکھا ہوا ہو، اور دوران سفر کسی جنگل یا بیابان میں وہ سواری اس سے گم ہوجائے اور تلاش بسیار کے باوجود نہ ملے تو یہ شخص مایوس ہوکر ایک درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے تاکہ اپنی آخری سانسیں پوری کرسکے، اسی دوران – جب وہ کہ موت کا انتظار کر رہاہوتاہے کہ اس کی سواری پورسے سازوسامان کے ساتھ اس کو مل جاتی ہے۔ اب فرط مسرت کی وجہ سے اسے اپنے الفاظ پر قابو نہیں رہتا، اور بجائے یہ کہنے کہ یا اللہ میرا تیرا بندہ اور تیرا میرا رب ہے، کہ بیٹھتا ہے ” الّلهم أنت عبدي و أنا ربك ".15
علامہ ابن حجر اس حدیث کی تشریح میں قاضی عیاض کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
قَالَ عِيَاضٌ فِيهِ أَنَّ مَا قَالَهُ الْإِنْسَانُ مِنْ مِثْلِ هَذَا فِي حَالِ دَهْشَتِهِ وَذُهُولِهِ لَا يُؤَاخَذُ بِهِ وَكَذَا حِكَايَتُهُ عَنْهُ عَلَى طَرِيقٍ عِلْمِيٍّ وَفَائِدَةٍ شَرْعِيَّةٍ لَا عَلَى الْهَزْلِ وَالْمُحَاكَاةِ وَالْعَبَثِ۔ 16
ترجمہ: قاضی عیاض مالکی کا کہنا ہے کہ اس دہشت وذہول کی کیفیت میں انسان کی زبان سے نکلنے والے کلمات پر شرعا مواخذہ نہیں، اسی طرح علمی طور پر یا کسی شرعی فائدہ کیلئے ایسے واقعات کو نقل کرنا بھی قابل گرفت نہیں۔ البتہ مذاق، نقل اور بے فائدہ ایسی باتیں نقل کرنے کا معاملہ دوسرا ہے،(ان پر گرفت ہوگی)
یہی بات علامہ ابن القیم نے بھی لکھی ہے۔ ملا علی القاری لکھتے ہیں :
فَإِنَّ شِدَّةَ الْفَرَحِ وَالْحُزْنِ رُبَّمَا يَقْتُلُ صَاحِبَهُ وَيُدْهِشُ عَقْلَهُ، حَتَّى مَنَعَ صَاحِبَهُ مِنْ إِدْرَاكِ الْبَدِيهِيَّاتِ. 17
یعنی: فرط مسرت یا فرط غم و فکر کھبی کبھار انسان کو ماردیتا ہے اور اس کی عقل کو دہشت زدہ کردیتاہے، یہاں تک کہ وہ بدیہی چیزوں کا بھی ادراک نہیں کرپاتا۔
دیگر حضرات تو رہے خود شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی اس کیفیت میں مبتلا افراد کو معذور قرار دیتے ہیں، حالانکہ شیخ کا اسلوب اور انداز اہل علم پر مخفی نہیں۔
والذين يذكرون عن أبى يزيد وغيره كلمات من الاتحاد الخاص ونفي الفرق ويعذرونه في ذلك يقولون إنه غاب عقله حتى قال : "أنا الحق” و "سبحاني” ، و "ما في الجبة إلا الله” . ويقولون إن الحب إذا قوي على صاحبه وكان قلبه ضعيفا يغيب بمحبوبه عن حبه ، وبموجوده عن وجوده ، وبمذكوره عن ذكره ، حتى يفنى من لم يكن ، و يبقى من لم يزل . . . فمثل هذا الحال التي يزول فيها تمييزه بين الرب والعبد وبين المأمور والمحظور ليست علما ولا حقا ، بل غايته أنه نَقَصَ عقلُه الذي يفرق به بين هذا وهذا ، وغايته أن يعذر لا أن يكون قوله تحقيقا۔ 18
مخدم بہاری(782 ھ ) نے اپنے مکتوبات میں اسی قسم کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ” نابودن دیگر و نادیدن دیگر” یعنی کسی چیز کا سرے سے موجود ہی ہونا اور چیز ہے جبکہ نظر نہ آنا یا اس کو نہ دیکھنا بلکل دوسری چیز۔
اسی کو امام ربانی مجدد الف ثانی نے نئی تعبیر ” وحدت الشہود ” کے ذکر کیا ہے اور خوب کیا ہے، نیز وہ اسے راہ سلوک کی ایک منزل قراردیتے ہیں ، جہاں سے سالک گذرا ہے یا اسے گذرنا ہے، اس کا یہ مطلب نہین کہ وہ یہاں پہنچ کر تمام موجودات کا منکر ہوجاتاہے یا سب کو ملا کر ایک سمجھتا ہے، بلکہ موجودات اور کائنات اپنی جگہ پر برقرار ہیں لیکن لیکن واجب الوجود حقیقی کے نور نے ان پر ایسا پردہ ڈالا ہے کہ وہ معدوم نظر آتے ہیں، جسیساکہ طلوع آفتاب کے بعد اس کی روشنی کے سامنے تمام ستارے ایسے ماند پڑجاتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ ستارے موجود ہی نہیں تو وہ سچا کہلائے گا، اسی طرح موجودات بھی حق تعالی کے وجود حقیقی کے سامنے ایسے بے حقیقت نظر آتے ہیں کہ گویاکہ ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
اور قریب قریب یہی بات علامہ صالح غرسی نے لکھی ہے ، چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
وهي حالة تعرض للإنسان من غلبة تولهه بالله و شدة تعلقه به و غلبة استيلاء الشعور بعظمته و كبرياءه على قلبه و حسه فيرة كأن ما عداه عدم محض وفان، أي يغلب هذا الوهم و الخيال ومع ذلك يبقى معتقدا لوجود ماعداه و يبقى مقيدا بالشريعة و قد يسكر بشرب هذا الوهم والخيال ويتفلت من الشريعة، و تصدر عنه أمور ربما تكون مخالفة للشرع، لكنه لكونه سكران مغلوبا على أمره لا يؤاخذ بها. 19
مام ربانی مجدد ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
” جو توحید راہ سلوک طے کرنے کے عرصہ میں اس بزرگ گروہ( صوفیائے کرام ) کو حاصل ہوتی ہے، وہ قسم کی ہے توحیدی وجودی اور توحید شہودی۔ توحید شہودی ایک ذات ہی کو دیکھنا ہے یعنی سالک کو ایک ذات کے سوا کچھ مشہود نہیں ہوتا، اور توحید وجودی ایک ہی ذات کو موجود جاننا ہے اور اس کے غیر کو نیست ونابود سمجھنا۔ عدم جاننے کے باوجود اس کی جلوہ گاہیں اور مظاہر کو ایک سمجھنا ہے۔ پس توحید وجودی کا تعلق علم االیقین کی قسم ہے اور توحید شہودی عین الیقین۔ 20
خود اپنے بارے لکھتے ہیں کہ :
” مخدوما مکرما معتقد فقیر ازخودی بارمشرب اہل توحید بود والد فقیر قدس سرہ بظاہر بر ہمیں مشرب بودہ اند بر سبیل دوام بہمیں طریق اشتغال داشتہ اند باوجود نگرانی تمام درباطن کہ بجانب مرتبہ بے کیفی داشتہ اند ب/بحکم ابن الفقیہ نصف الفقیہ فقیر را ازین مشرب ازروئے علم حظ وافر بود ولذت عظیم داشت تاآنکہ حق سبحانہ وتعالی بہ محض کرم خویش بخد مت ارشاد پناہی حقائق ومعارف آگاہی ۔۔۔ 21
مفہوم یہ ہیکہ : راقم بھی پہلے اسی ( توحیدی وجودی) کا قائل تھا، اور فقیر کے والد بھی اسی راہ کے راہرو تھے، اور پوری باطنی نگرانی کے باوجود ایک بے کیفی سی طاری تھی ۔ بقول ولد الفقیہ نصف الفقیہ یعنی فقیہ زادہ بھی آدھا فقیہ ہوتاہے ، فقیر کو اس مشرب سے بہت فائدہ اور بہت لذت حاصل تھی تاآنکہ حق تعالی جل شانہ نے محض اپنے فضل وکرم سے ہارے مولی اور شیخ وقبلہ محمد باقی قدس سرہ کی خدمت و صحبت نصیب فرمائی اور ایسی راہ پر ڈال دیا کہ اس تنگی سے خلاصی ہوگئ۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت مجدد کے نزدیک بھی یہ ایک وقتی کیفیت یا راہ سلوک کی ایک منزل ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کی درست یا بے غبار تعبیر وحدت الشہود ہی ہے ، جیساکہ امام ربانی نے اختیار فرمائی ہے۔
حکیم الامت شاہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں :
حاصل یہ ہے مجدد صاحب کے مشرب کا جس کا لقب حدۃ الشہود ہے اور حقیقت اس کی یہی وحدت الوجود ہے کیونکہ اوپر معلوم ہوچکا کہ ان کے نزدیک بھی حقیقی وجود واحد ہی ہے جیساکہ شیخ اکبر کے نزدیک تھا، صرف فرق یہ ہے کہ شیخ اکبر وجود ظلی کی نفی کرتے ہیں اور مجدد صاحب اثبات کرتے ہیں۔ 22
شیخ الاسلام محمد تقی العثمانی لکھتے ہیں:
وحدت الوجود کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود صرف اور صرف ذات باری تعالی کا ہے، اس کے سوا ہر وجود بے ثبات ، فانی اور نامکمل ہے۔ ایک تو اس لئے کہ وہ ایک نہ ایک دن فنا ہوجائے گا، دوسرے اس لئے کہ ہر شئی اپنے وجود میں ذات باری تعالی کی محتاج ہے، لہذا جتنی اشیاء ہمین اس کا ئنات میں نظر آتی ہیں، انہیں اگرچہ وجود حاصل ہے ، لیکن اللہ کے وجود کے سامنے اس وجود کی کوئی حقیقت نہیں، اس لئے وہ کالعدم ہے۔

اس کی نظیر یوں سمجھئے جیسے دن کے وقت آسمان پر سورج کے موجود ہونے کی وجہ سے ستارے نظر نہیں آتے ، وہ اگرچہ موجود ہیں لیکن سورج کا وجود ان پر اس طرح غالب ہوجاتاہے کہ ان کا وجود نظر نہیں آتا۔
اسی طرح جس شخص کو اللہ نے حقیقت شناس نگاہ دی ہو، وہ وہ جب کائنات میں اللہ تعالی کے وجود کی معرفت حاصل کرتاہے تو تمام وجود اسے ہیچ، ماند بلکہ کالعدم نظر آتے ہیں۔ بقول حضرت مجذوب رح
جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے
تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا!

وحدت الوجود کا یہ مطلب صاف، واضح اور درست ہے، اس سے آگے اس کی جو فلسفیانہ تعبیرات کی گئی ہیں، وہ بڑی خطرناک ہیں، اور اگر اس میں غلوّ کیا جائے تو اس عقیدے کی سرحدیں کفر تک سے جا ملتی ہیں۔ اس لئے ایک مسلمان کو بس سیدھا سادا یہ عقیدہ رکھنا چاہیئے کہ کائنات میں حقیقی اور مکمل وجود اللہ تعالی ہے، باقی ہر وجود نامکمل اور فانی ہے۔ 23
اس پوری تفصیل سے کچھ باتیں معلوم ہوئیں

1۔ وحدت الوجود کی بے غبار تعبیر وحدت الشہود ہے اور اس کی تین قسم کی تشریحات کی جاسکتی ہیں۔

2۔ پہلی قسم تمام مسلمان تھیالوجینز کے نزدیک مردود اور ناقابل قبول ہے۔ البتہ بعض عیسائی اور بعض ہندو اور کچھ دیگر اس کے قائل ہیں۔ جبکہ دوسری اور تیسری قسم/ تشریح مقبول ہے۔

3۔ یہ کوئی عقیدہ نہیں، بلکہ ایک کیفیت یا عارضی حالت ہے، جوکہ راہ سلوک کے مسافر کو پیش آتی ہے۔ کیونکہ عقیدہ دائمی اور ہمیشہ کیلئے ہوتاہے، ایک یا چند دن یا چند ماہ تک ہو پھر زائل ہوجائے تو وہ عقیدہ نہیں کہلا سکتا۔

4۔ جب یہ عقیدہ نہین بلکہ ایک غیر اختیاری کیفیت ہے تو پھر اس کو بنیاد بناکر یا عقیدہ کا نام دیکر کفر و شرک کے فتاوی لگانا، اور اس کے قائلین پر بدعت اور شرک جیسے گھناونے الزام لگانا، فقہ، تصوف اور علم الاصول سے ناواقفی کی دلیل ہے، بالخصوص جب کہ ایسی کیفیت سے دوچار افراد کے اقوال سے چشم پوشی کی مثال سنت مطہرہ میں بھی موجود ہو۔ واللہ اعلم۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے