ٹرمپ مودی اور کشمیر ۔۔۔۔ مایوسی کس بات کی؟

ٹرمپ نے مودی کے پلڑے میں وزن ڈال دیا ہے تو حیرت کیسی ؟ سینہ کوبی کاہے کی اور مایوسی کس بات کی؟ کیا تحریک آزادی کشمیر عزت مآب ڈونلڈ ٹرمپ کی آشیر باد سے مشروط تھی اور سدھن قبیلے کے اس سپوت سردار ابراہیم خان نے جب یہ کٹھن راستہ اختیار کیا تھا تو کیا وصیت لکھ چھوڑی تھی کہ جس روز وائٹ ہائوس کے مجتہد العصر نے اپنی رائے بدل دی اس روز میری قبر پر بھی ترنگا لہرا جانا ؟ عزیمت کے راستے اتنے ہی آسان ہوتے ہر گورکن رستم کہلاتا ۔ ہوائیں تیز ہوں تو کیا لوگ دیے جلانا چھوڑ دیتے ہیں ؟ جو محض ایک جلسے کی ایک تقریر کے ایک فقرے سے مایوس ہوئے بیٹھے ہیں ، انہیں یہیں سے لوٹ جانا چاہیے کیونکہ جدو جہد کی یہ مسافت طویل بھی ہوگی اور کٹھن بھی ۔ دکھوں نے البتہ ہماری شہریت نہیں لے رکھی کہ سدا ادھر ہی بیٹھے رہیں گے ۔ وقت کا موسم بدلے گا اور سچ تو یہ کہ موسم نے کروٹ لینا شروع کر دی ہے اور اسی کروٹ کی تکلیف ہے جس کا اظہار ٹرمپ نے کسی اور پیرائے میں کیا ہے۔

ذرا سوچیے تو سہی کیا وجہ ہے ٹرمپ کو یوں بھارت کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان کو چتاونی دینا پڑی ؟ اتنا غصہ آخر کس بات کا ہے؟ کشمیر پر اپنی حکومت سے میرے بھی شکوے ہیں اور بہت شدید لیکن ٹرمپ نے یوں اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالا ہے تو اس کی وجہ ہماری حکومت کی نا اہلی نہیں اس کی وجوہات کچھ اور ہیں ۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں ۔

دنیا میں نئی صف بندی ہو رہی ہے ۔ چین ، روس ، ایران ، ترکی اکٹھے ہو رہے ہیں ۔ ایک بلاک بن رہا ہے ۔ پاکستان کا واضح جھکائو اس بلاک کی طرف ہے ۔ یہ اتفاق نہیں ہے کہ کشمیر کے مسئلے پرجن ممالک نے ہمارا ساتھد دیا وہ اسی بلاک سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ ایک غیر معمولی بلاک ابھر رہا ہے جو آگے چل کر امریکی ڈالر کے تسلط کو چیلنج کر سکتا ہے ۔ ڈالر امریکی اقتدار کی علامت ہے ۔ اس علامت کو زوال امریکہ کو زوال کے مترادف ہے۔ امریکہ اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا ۔

اس وقت عالم یہ ہے کہ تیل سعودی عرب کا ہے اور خریدار ہم لیکن ہمیں پہلے ڈالر خریدنا ہوتا ہے پھر ہم تیل خریدتے ہیں ۔ چین نے سعودیہ کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اسے ڈالر کی بجائے یوآن میں تیل بیچے۔ اب سعودی عرب پر حملے کے بعد امریکی افواج وہاں جا رہی ہیں تو شاید اب سعودیہ چین کو یوآن میں تیل نہ بیچ سکے۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ ایران پر امریکہ نے پابندی لگا رہی ہے لیکن چین اور روس نے نہ صرف ایران سے تیل خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے بلکہ یہ تجارت بھی ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں ہو گی ۔ یو اے ای کھل کر امریکی کیمپ میں ہے کیونکہ گوادر سے اسے بھی تکلیف ہے۔ وہ اپنے حجم سے بڑی سیاست کر رہا ہے۔ یمن میں سعودیہ کو پھنسا کر خود معاہدہ کرکے وہاں معاملات طے کر چکا ہے۔ یو اے ای میں مودی کی غیر معمولی پزیرائی پاکستان کو دیا گیا ایک پیغام تھا کہ اس کیمپ میں جانے کی یہ قیمت ہو سکتی ہے۔

عمران خان نے جب چین کا دورہ کیا تو وہاں بھی یہ سوال اٹھا کہ چین اور پاکستان باہمی تجارت ڈالر میں کیوں کرتے ہیں ۔ جب خریدو فروخت ہمارے درمیان ہے تو ہم پہلے مارکیٹ سے ڈالر لینے کیوں بھاگتے ہیں ؟ چنانچہ یہ معاہدہ ہو گیا کہ باہمی تجارت مقامی کرنسی میں ہوا کرے گی ۔ ابھی دو دن پہلے پاکستان نے صوبوں کو مراسلہ بھی جاری کر دیا ہے کہ چین کے ساتھ لین دن اب ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں ہوا کرے گا ۔ ڈالر کی با لادستی اب خطرے میں ہے ۔ یو آن اب تیسری ’’ گلوبل ریزرو کرنسی ‘‘ ہے ۔ ذرا سوچیے کہ ون بیلٹ ون روڈ کے بعد یہ ممالک اگر یوآن سے منسلک ہو گئے تو ڈالر کہاں ہو گا ؟ یاد رہے کہ آسیان کے دس ممالک کے ساتھ وہ پہلے ہی مقامی کرنسی میں تجارت کر رہا ہے ۔ ڈالر کی بالادستی کو صدام حسین اور قذافی نے چیلنج کرنے کی کوشش کی تو ان کا انجام آپ کے سامنے ہے۔ اس بار مگر ایک مضبوط بلاک اسے چیلنج کرنے جا رہا ہے۔ امریکہ کو اس کی بہت تکلیف ہے۔ وہ پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے تا کہ وہ اس بلاک سے الگ ہو جائے۔ مودی کے ساتھ جا کھڑا ہونا اسی دبائو کی ایک شکل ہے اوراس کی ابھی مزید کئی صورتیں سامنے آ سکتی ہیں۔

ٹرمپ کی بھارت سے قربت کی اور وجوہات بھی ہیں ۔ امریکہ میں بھارتی تارکین وطن کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے ، بھارت کے پاس دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ ہے اورمعاشی حجم بھی کافی بڑا ہے لیکن ان امکانات کو سفارت کاری میں توازن برقرار رکھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کا تازہ بیانیہ اصل میں دوسری تکلیف کا اظہار ہے ۔ یہ پاکستان کو ایک پیغام دیا جا رہا ہے کہ جس بلاک کے ساتھ تم جا رہے ہو ہم اس سے بہت خفا ہیں ۔ جس بات سے امریکہ خفا ہے وہ کام کرنے پر ہمارے ہاں اتفاق پایا جاتا ہے۔ سی پیک کو شروع نواز شریف حکومت میں کیا گیا اور اب جب مقامی کرنسی تک بات پہنچ رہی ہے تو یہ عمران خان کی حکومت ہے۔ معاشی مسائل پاکستان کے بڑھ گئے ہیں، ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے اور کام کی رفتار دھیمی پڑ گئی ہے لیکن کام ختم نہیں ہو رہا۔ ہماری مجبوریوں کو چین اچھی طرح سمجھتا ہے ۔

ہم امریکہ کے مخالف نہیں ہوئے، صرف مقامی سطح پر اپنے لیے امکانات تلاش کرنا شروع کیے ہیں لیکن امریکہ کو یہ بھی قبول نہیں ۔ اب اس راستے میں مسائل تو آئیں گے۔ معاشی بھی ، تزویراتی بھی اورداخلی بھی ۔ ہمیں ان کا سامنا کرنا ہے۔ یہ ہر قدم پر سینہ کوبی کرنے اور مایوس ہو جانے سے یہ کام نہیں ہو گا ۔ یہ ایک طویل جدو جہد ہو گی اور اس میں بہت سے اتار چڑھائو آئیں گے۔ جو محض ایک جلسے کی ایک تقریر کے ایک فقرے سے مایوس ہوئے بیٹھے ہیں ، انہیں یہیں سے لوٹ جانا چاہیے۔ ہمیں یکسوئی اور استقامت سے اپنے کاز سے جڑے رہنا ہے۔ یاد رکھیے اپنی آگ میں خود جلنا پڑتا ہے اور کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے