پاکستان اور تعلیمی ترقی کا دشوار ہدف

یہ ستمبر 2015 کی بات ہے جب پائیدار ترقی کے حوالے سے ہونے والی ایک میٹنگ میں اقوام متحدہ کے تمام ممبر ممالک کے ارکان نے ایک اہم دستاویز پر دستخط کیے‘ جو اس بات کا عہد تھا کہ وہ مل کر اگلے پندرہ سال میں سترہ اہداف کے حصول کی کوشش کریں گے۔ پائیدار ترقی کے اہداف (Sustainable Development Goals) کے اس اہم معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اس سے پیشتر میلینئم ڈویلپمنٹ گولز کا ایک تجربہ کیا جا چکا تھا جو اتنا کامیاب نہیں رہا تھا‘ لہٰذا اس بار اقوام متحدہ کی طرف سے اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا کہ 2015 میں پائیدار ترقی کے جن اہداف پر اتفاق کی گیا‘ ان کے حصول کے لیے پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا رہے گا۔

2018 میں اقوام متحدہ کے تشکیل کردہ اعلیٰ سطح کے ایک فورم (High Level Political Forum) نے جب 2015 میں طے پا جانے والے اہداف کا جائزہ لیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اگرچہ کچھ شعبوں میں ترقی ہوئی ہے لیکن ابھی تک کئی شعبوں میں رفتار بہت کم ہے۔ ایک بار پھر اس امر کا اعادہ کیا گیا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں کوئی پیچھے نہ رہ جائے۔

2015 میں پائیدار ترقی کے اہداف کی فہرست میں ہدف نمبر4 تعلیم سے متعلق تھا۔ اس کے مطابق 2030 تک ممبر ممالک کو یہ امر یقینی بنانا تھا کہ تمام لڑکوں اور لڑکیوں کو پرائمری اور سکینڈری سطح پر معیاری تعلیم کے مفت اور مساوی مواقع میسر ہیں۔ تعلیم کے اس ہدف کی سات جہتیں بھی مقرر کی گئیں‘ جن میں بارہ سال تک مفت، مساوی اور انکلوسیو تعلیم، ارلی چائلڈ ہڈ اور یونیورسل پری پرائمری ایجوکیشن، ٹیکنیکل، ووکیشنل اور ہائر ایجوکیشن تک رسائی مناسب روزگار کے حصول کیلئے متعلقہ مہارتیں مہیا کرنا، صنفی مساوات اور انکلوسیو ایجوکیشن، یونیورسل اور یوتھ لٹریسی اور تعلیم برائے پائیدار ترقی شامل ہیں۔اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس ہدف کے حصول میں پاکستان کو کس حد تک کامیابی ہوئی۔

ساتھ ہی یہ جائزہ لینا بھی انتہائی اہم ہے کہ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی کارکردگی کیسی رہی۔ اس کے لیے ہمیں ایس جی ڈی سکور اور ایس جی ڈی انڈیکس کی مدد درکار ہو گی۔ جہاں ایس جی ڈی سکور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے سفر میں ہر ملک کی کامیابی کا سکور ہے‘ اسی طرح ایس جی ڈی پائیدار ترقی کے اہداف میں ممبر ممالک کی کارکردگی کی فہرست ہے۔ آئیے اب ہم پائیدار ترقی کے چوتھے ہدف یعنی تعلیم کے حوالے سے پاکستان اور جنوبی ایشیا کے ممالک کی کارکردگی دیکھتے ہیں۔

2016 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا SDG سکور 45.7 تھا جب کہ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک بھوٹان (58.2)، سری لنکا (54.8)، نیپال (51.5)، انڈیا (48.4) کے سکور کے ساتھ ہم سے آگے تھے۔ اسی سال SDG کے انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 115 پر تھا جبکہ بھوٹان (82)، سری لنکا (97)، نیپال (103)، انڈیا (110) درجے پر ہم سے آگے تھے۔2017 کی SDG رپورٹ کے مطابق پاکستان کا SDG سکور 55.6 تھا۔ اس سال بھی جنوبی ایشیا کے ممالک مثلاً انڈیا (58.1)، نیپال (61.6)، بھوٹان (65.5)، سری لنکا (65.9) پاکستان سے آگے تھے۔

جہاں تک SDG انڈیکس کا تعلق ہے 2017 میں پاکستان کا درجہ اوپر جانے کے بجائے تنزلی کا شکار ہو کر (122) ہو گیا جبکہ بنگلہ دیش (120)‘ انڈیا (116)، نیپال (105)، بھوٹان (83) اور سری لنکا (81) کے ساتھ ہم سے آگے تھے۔

یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ بنگلہ دیش‘ جو 2016 کے جائزے میں پاکستان سے پیچھے تھا‘ وہ 2017 کے جائزے میں SDG سکور اور SDG انڈیکس‘ دونوں میں پاکستان سے سبقت لے گیا۔2018 کی SDG انڈیکس رپورٹ کے مطابق پاکستان کا SDG سکور 54.9 تھا جو 2017 کے سکور کے مقابلے میں مزید کم ہو کر رہ گیا جبکہ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک بنگلہ دیش (59.3)، انڈیا (59.1)، نیپال (62.8)، سری لنکا (64.6) اور بھوٹان (65.4) سکور کے ساتھ پاکستان سے آگے تھے۔ اسی طرح اس سال SDG انڈیکس میں پاکستان چار درجے تنزلی کا شکار ہو کر 126 پر آ گیا۔ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک بنگلہ دیش (111)، انڈیا (112)، نیپال (102)، سری لنکا (89) اور بھوٹان (83) درجے کے ساتھ پاکستان پر سبقت لیے ہوئے تھے۔

یہاں یہ امر باعث تشویش ہے کہ جہاں جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک SDG انڈیکس میں درجہ بہ درجہ اوپر جا رہے تھے پاکستان کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں تھی اور ہر سال SDG اہداف کے حوالے سے اس کی تنزلی کا سفر جاری رہا۔ 2016 میں SDG انڈیکس میں پاکستان 115 درجے پر تھا۔ 2017 میں کم ہو کر 122 اور 2018 میں مزید کم ہو کر 126 درجے پر چلا گیا۔ یہ اعدادوشمار پاکستان میں پالیسی ساز حلقوں کیلئے یقیناً باعثِ تشویش ہونے چاہئیں۔اب ہم تعلیم کے ہدف کی ایک اور کیٹیگری کا جائزہ لیتے ہیں جس کا تعلق پرائمری انرولمنٹ سے ہے۔

پاکستان نے اس حوالے سے پیش قدمی کی ہے۔ یہ 2016 میں 71.9 فیصد، 2017 میں 73.8 فیصد اور 2018 میں 77.8 فیصد رہی‘ لیکن اس انفرادی بہتر کارکردگی کے باوجود جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک مثلاً بھوٹان 81 فیصد، سری لنکا 98.9 فیصد، نیپال 94.7 فیصد، انڈیا 92.3 فیصد، بنگلہ دیش 90.5 فیصد کے ساتھ اس کیٹیگری میں بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ معیاری تعلیم کی ایک اور کیٹیگری یوتھ لٹریسی (15سے 24 سال کے نوجوان) ہے۔ اس میں پاکستان کی شرح 72.8 فیصد ہے۔ اسی کیٹیگری میں جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک مثلاً بھوٹان (87.3 فیصد)، سری لنکا (98 فیصد)‘ نیپال (84.8 فیصد)، انڈیا (86.1 فیصد)، بنگلہ دیش (92.2 فیصد) کے ساتھ اس کیٹیگری میں بھی پاکستان سے آگے ہیں۔

تعلیم برائے پائیدار ترقی کا جائزہ لینے کیلئے دو معیار مقرر کیے گئے۔ ایک SDG انڈیکس اور دوسرا SDG سکور۔ SDG سکور ملک کی کامیابی کی پرسنٹیج پر مبنی ہے جبکہ SDG انڈیکس ملک کی پائیدار ترقی کے اہداف میں کامیابی کے درجے کو ظاہر کرتا ہے۔ پائیدار ترقی کے اہداف (Sustainable Development Goals) کے حوالے سے اب تک کے سارے جائزوں میں پاکستان کی کارکردگی جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک سے کم رہی ہے۔ یہ امر مزید تشویش کا باعث ہے کہ ان اہداف کے حصول میں ہماری کامیابی کا سکور بڑھنے کے بجائے ہر سال کم ہوتا جا رہا ہے جبکہ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک ہر سال اپنا سکور بہتر بنا رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ High Level Political Forum Help کی چوتھی میٹنگ SDG کے اہداف کا تازہ ترین جائزہ لینے کیلئے جولائی کے مہینے میں منعقد ہو رہی ہے۔ پاکستان نے اس میٹنگ میں شرکت اور والینٹیری نیشنل ریویو پیش کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر آخری وقت میں ریویو میں تعلیم کے ہدف کے حوالے سے ذکر مناسب نہیں سمجھا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب فیصلہ ساز اداروں کے پاس ہی ہو سکتا ہے۔

اکیسویں صدی‘ جو علمی مسابقت کی صدی ہے‘ میں وہی ممالک بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے جن کے شہری علم و ہنر میں بہتر ہوں گے۔ پاکستان کے تعلیمی چیلنجز بڑے ہیں جن میں اڑھائی کروڑ بچوں کی سکول تک عدم رسائی، امیروں اور غریبوں کے تعلیمی اداروں میں فرق‘ تعلیمی اداروں میں معیار کا مسئلہ‘ غیر اطمینان بخش شرحِ خواندگی، تعلیم میں مختلف امتیازات شامل ہیں۔ یہ ساری صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ تعلیم کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذکیا جائے۔ تعلیم کیلئے مختص فنڈز میں اضافہ کیا جائے اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے وزیراعظم کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بنائی جائے جو مختلف قومی اداروں کی کوششوں کی براہ راست نگرانی کرے۔ یہی وہ صورت ہے کہ جس کے تحت ہم جنوبی ایشیا کے ممالک میں تعلیم کے ہدف میں بہتر مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے