پاک چائنا اکنامک کاریڈور۔ پاکستان کو کیا ملے گا؟

اسلام آباد سے سفر کرتے ہوئے جب حسن ابدال سے قراقرم ہائی وے پر سفر شروع ہوتا ہے تو سفری فاصلے بتانے والے بورڈز پر اردو اور انگلش کے ساتھ چائینیز لکھی نظر آتی ہے۔ جب کہ مانسہرہ کے بعد جگہ جگہ مختلف عمارتوں اور ریستورانوں پر بھی چایئنیز زبان میں نہ سمجھ آنے والےتعارفی کلمات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف سکولوں اور کالجوں میں بھی چائنیز زبان کی ترویج جاری ہے۔ یہ سب پاک چا ئنا اکنامک کاریڈور کی برکات ہیں۔ پاک چائنا اکنامک کاریڈور کا منصوبہ شروع دن سے ہی قیاس آرائیوں کا شکار رہا ہے۔

ان قیاس آرائیوں کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ قومی نوعیت کے اس اہم اور بڑے منصوبے کے حوالے سے حکومت کی طرف سے کوئی واضح دستاویز جاری نہیں کی گئی۔ چاروں صوبے اس بات پر بھی تضادات کا شکار ہیں کہ سی پیک کے تحت بننے والا یہ روٹ کہاں سے گزرے گا۔ مغربی کاریڈور پہلے بنے گا یا مشرقی کاریڈور۔ مختلف صنعتی زون اور ڈرائی پورٹس کے حوالے سے بھی کوئی واضح موقف نہیں دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اربوں ڈالر کے ان منصوبہ جات میں پاکستان کو کیا ملے گا ۔

۔کیا چائنیز انڈسٹری کی آمد سے یہاں روزگار میں اضافہ ہو گا ؟
۔کیا انرجی کے منصوبے صرف انڈسٹری کو چلانے کے لئے ہوں گے یا عوام بھی اس سے فا ئدہ اٹھا سکیں گے؟
۔کیا سی پیک پر خرچ ہونے والی 54 بلین ڈالر کی یہ رقم مدد ہے کہ قرض اور اگر قرض ہے تو یہ کس طرح لوٹائی جائے گی؟ اس کا بوجھ کس پر پڑے گا؟ یہ کتنے عرصے میں لوٹائی جائے گی؟ اور اس پر کتنا شرح سود ادا کیا جائے گا؟
۔کیا اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں پاکستان میں غربت کا خاتمہ یا کمی ہو سکے گی؟
کیا ان منصوبوں سے چھوٹے صوبوں یعنی بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی پسماندگی دور ہونے میں مدد ملے گی؟ اس منصوبے کے حوالے سےہر حکومتی وزیر اپنی بساط کے مطابق متضاد رائے دیتا نظر آتا ہے ۔ بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ کابینہ سمیت ، حکومتی نمائندے بھی پاک چائنا منصوبے کے حوالے سے اتنے ہی با خبر ہیں جتنے میں اور آپ۔

وزیر اعظم پاکستان اپنی کابینہ ممبرز اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی سمیت اس وقت چائنا کے دورے پر ہیں ۔ دورے کا مقصد ’’ون بیلٹ ون روڈ سمٹ‘‘ میں شرکت کے ساتھ ساتھ پاک چائنا اقتصادی راہداری کے حوالے سے طویل مدتی منصوبے کو حتمی شکل دینی ہے ۔ اس حوالے سے ڈان نیوز کو منصوبے کی دستاویز موصول ہوئی ہیں ۔ جن میں پہلی دفعہ کچھ تفصیلات مہیا کی گئی ہیں ۔ دستاویز میں چائنا کی اگلے دس سے پندرہ سال میں پاکستان میں ترجیحات اور منصوبوں کے بارے آگاہ کیا گیا ہے۔
ان ترجیحات میں تین اہم بڑے نکات ہیں۔ جن پر کام کیا جائے گا۔
۱: ذراعت کے شعبے میں چائنا کی سرمایہ کاری
۲: پورے ملک میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے سڑکوں کی نگرانی کو بڑھانا
۳: چائینیز کے لئے پاکستان میں ویزا فری انٹری

AFP-Photo

دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ چائنیز تاجروں کو ہزاروں ایکڑ زمین لیز پر دی جائے گی تا کہ وہ ان زمینوں میں مختلف بیجوں کی ورائٹی اور آب پاشی کے نظام میں ٹیکنالوجی کے نئے تجربات متعارف کروا سکیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کراچی تا پشاور مانیٹرنگ اور نگرانی کا نظام قائم کیا جائے گا جس کے زریعے مصروف تجارتی مراکز اور سڑکوں کی چوبیس گھنٹے ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی ۔

اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں فائبر آپٹک کے زریعے نہ صرف انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے گی بلکہ فا ئبر آپٹک کے ذریعے ٹیلی وژن نشریات کی تقسیم کا نظام بھی بنایا جائے گا ۔جس کا مقصد چائنیز میڈیا کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے پاکستان میں چائنا کے کلچر کی ترویج و تعارف کروایا جائے گی ۔ منصوبے کے تحت چا ئںا کے شہریوں کو سیاحت کے لئے ویزا فری انٹری بی دی جائے گی ۔ پاک چائنا منصوبہ کی دستاویز سے واضح ہوتا ہے کہ چائنا ، پاکستان کی معاشیات سے لیکر کلچر تک گہری رسائی رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔

چائنا پاکستان میں انڈسٹری لگانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر چا ئنا موبائل، اپلائنسز بنانے کی کمپنی Haier ، Huawei اور China Metallurgical Group Cooperation کے ما ئننگ اینڈ منرل پاکستان میں پہلے سے ہی کام شروع کر چکے ہیں ۔ دستاویز بتاتی ہے کہ گارمنٹس ، سیمنٹ ، ایگریلکلچر اور فرٹیلائزر اور دیگر شعبوں کو بہتر بنانے کی غرض سے انڈسٹریل پارک بنائیں جائیں گے جن میں انڈسٹری کی بنیادی ضروریات جیسا کہ ماحول کے ساتھ ہم آہنگی، پانی اور بجلی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات کو یقینی بنایا جائے گا۔ لیکن منصوبے میں سب سے زیادہ فوکس ذراعت کے شعبے پر کیا گیا ہے۔ جس کے تحت بڑے بڑے منصوبے لگائے جائیں گے ۔

ان سارے منصوبوں سے پاکستان کو اقتصادی ، معاشی اور معاشرتی سطح پر کیا فائدہ ملے گا ۔ اس پر ابھی بھی سوالیہ نشان ہے۔
۔ پاکستان کونسل آن چائنا کے ایگزیکٹو ڈائیریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمن سمجھتے ہیں کہ پاک چائنا اقتصادی راہداری کے نام کی وجہ سے عام طور پر اس کو ایک شارٹ ٹرم منصوبہ سمجھا جا رہا ہے جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے کہ شاید اس کے نتائج فورا ملنا شروع ہو جائیں گے ۔ ان کے خیال میں یہ ایک معاشی ترقی کا پروگرام ہے ۔ جس کے نتائج آنے میں ابھی وقت لگے گا ۔

ڈاکٹر فضل الرحمان نے بتایا کہ ابھی اس پروگرام کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں ۔ ابتدائی منصوبوں میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری انرجی سیکٹر میں ہو گی جن کے ذریعے قریب دس ہزار میگاواٹ بجلی پپدا ہو گی۔ (لیکن واضح رہے کہ یہ بجلی چائنیز کمپنیاں پیدا کریں گی۔ جن سے بجلی خریدنے کے لئے پاکستان اور پاکستانی عوام کو رقم درکار ہو گی۔) ڈاکٹر فضل الرحمان کے نزدیک یہ ایک اچھا منصوبہ ہے لیکن ان منصوبوں میں ٹرانسپرنسی انتہائی ضروری ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے