پی ٹی آئی اور ’’خاموشی‘‘ کی پریکٹس

سمجھ نہیں آتی پی ٹی آئی والوں کا مسئلہ کیا ہے۔ان کے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے، زبانیں تالو سے نہیں لگتیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ جلتے کوئلے کھا کر سندھ کی سرخ مرچوں کا مربہ بطور سویٹ ڈش استعمال کرتے ہیں۔ کان ان کے قدیم سٹیم انجنوں سے زیادہ دھواں چھوڑے ہیں۔

انہیں نارمل کرنے کے لئے میری تجویز ہے کہدگلے پہنا کر، سر پہ اونی ٹوپیاں چڑھا کر کسی برفانی علاقہ میں چھوڑ دیا جائے۔ ٹھنڈے پڑ جائیں تو واپس بلالیں۔ سیاست میں تو گنڈا پور کی گیسودرازی بھی عجیب لگتی ہے لیکن قابل برداشت ہے جبکہ زبان درازی بالکل نہیں جچتی۔

زبان لمبی اور عقل چھوٹی دیکھ کر وہ کریلے یاد آجاتے ہیں جو نیم پر چڑھ جاتے ہیں یا زبردستی چڑھادئیے جاتے ہیں۔ انہیں چاہئے اپنے لیڈر کی طرح خود کو ’’بریک‘‘ دیں۔ عمران خان نے مسلسل اعصاب شکن مصروفیات کے بعد دو دن کے لئے سرکاری اور پارٹی مصروفیات ترک کرنے کا جو فیصلہ کیا وہ بہت مثبت اور عمدہ ہے سو انہیں بھی چاہئے کہ زیادہ نہ سہی زبانوں کو ہی کچھ ریسٹ دے لیں۔

نجانے کیوں میرا جی چاہتا ہے کہ میں گفتگو کی ان’’زندہ مشینوں‘‘ کو’’ خاموشی‘‘ کے بارے بریف کروں کہ زندگی میں زیادہ تر خاموشی بولنے سے کہیں زیادہ کارآمد ہوتی ہے۔ چپ رہنا اور مٹھ رکھنا حکمت عملی کا حصہ ہے مثلاً اگر ان کے گھر کی مثال ہی لے لیں کہ عمران خان اگر 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں زبان کے اوپر لانے کی بجائے دل کے اندر ہی رکھتے تو بہتر نہ تھا؟ آج ہر کوئی جگتیں ماررہا ہے،

اگر یہ گھر بن جاتے ، جتنے بھی بن جاتے، خود بولتے اور واہ واہ ہوجاتی۔ نوکریاں ایک کروڑ کیا ایک لاکھ بھی مل جاتیں تو لوگ کس طرح صدقے واری جاتے لیکن اب؟

سادہ سا سبق یہ ہے کہ ضروری نہیں اگر ز بان پر خارش ہو تو سرعام بیان خارج کردیا جائے۔ خارش زیادہ تنگ کرے تو باتھ روم میں گھس کر کوئی گیت گنگنالینا کئی گنا بہتر ہوگا۔ فائدہ ہو نہ ہو نقصان سے ضرور بچے رہو گے لیکن وہ پی ٹی آئی ہی کیا جو محو پرواز تیر کو خالی ہاتھ جانے دے۔ ان بیچاروں کا حال تو میرے اس شعر سے بھی گیا گزرا ہے؎زندگی مشکل تھی میں نے اس کو مشکل تر کیااک جھروکہ ہی جہاں کافی تھا میں نے در کیا

شاعر لوگ تو ایسی بونگیوں بیہودگیوں سے یوں بچ نکلتے ہیں کہ ان کے پاس گنوانے کے لئے ہوتا ہی کچھ نہیں لیکن بھائی لوگو! تمہارے پائوں کے نیچے تو اقتدار کا بیڑا ہے۔

شاید انہیں ابھی تک اقتدار میں آنے کا یقین نہیں آیا ورنہ بولیں کم اور کبھی بولنا بھی ہو تو تولنا کبھی نہ بھولیں۔خاموشی کے حوالہ سے اگر آپ نے یہ محاورہ کبھی نہیں سنا تو مجھ سے سن لیں۔”A MAN OF SILENCE IS A MAN OF SENSE.”ذرا اپنے چہروں پر ہی غور کرلیں جنہیں بہت عمدہ احسن ترین طور پر ڈیزائن کیا گیا کہ زبان ایک اور کان دو اس لئے ہیں کہ سنو زیادہ بولو کم اور پھر زبان کو آوارہ، بے لگام بھی نہیں چھوڑا گیا، اس کے آگے دانتوں کا ’’زندان‘‘ ہے کہ یونہی گشت نہ کرتی پھرے۔ یہی نہیں دانتوں کے بیرئیر کے بعد دو ہونٹ ہیں جن کا اصل مطلب ہے …….. شٹ اپ!

سیانے کہتے ہیں’’خاموشی سونا گفتگو پیتل ہے‘‘سچ یہ کہ بولنا نہ آتا ہو تو پیتل بھی نہیں کہ ڈھینچوں ڈھینچوں تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔

واہ کیا جملہ ہے”TALKING COMES BY NATURE, SILENCE BY WISDOM.”

لیکن پرابلم یہ کہ ’’وزڈم‘‘ کس شاپنگ مال پر دستیاب نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو شریف خاندان کے پاس جتنی دولت ہے ، وہ ’’وزڈم‘‘ کے انبار خرید لیتے لیکن مجھے یقین ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف وغیرہ اپنے بچوں سمیت نہ فوج میں جانے کے لئے ISSBکلیئر کرسکتے ہیں نہ پی سی ایس جیسا معمولی ا متحان ہی پاس کرسکتے ہیں۔

واہ کیا نظام ہے، کیسی جمہوریت ہے کہ جو سب انسپکٹر بھرتی نہیں ہوسکتا وہ پرائم منسٹر کے طور پر بھرتی ہوسکتا ہے۔

ہور چوپو، ہو چوپو اور مسلسل چوپتے ہی رہو۔’’جاگنے والو! جاگو مگر خاموش رہو‘‘بات چلی تھی یہاں سے کہ پی ٹی آئی والوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ’’خاموشی‘‘ صبح دوپہر شام کی چپڑ چپڑ سے کئی گنا بہتر ہے۔

پی ٹی آئی کو جتنا نقصان’’بولنے‘‘ نے پہنچایا، ’’خاموشی‘‘ اس سے آدھا نقصان بھی نہ پہنچاتی کیونکہ آخری فیصلہ بہرحال’’ڈلیور‘‘ کرنے نہ کرنے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی اقتدار میں آنے کے بعد مقبولیت کے حوالہ سے آدھی بھی نہیں رہ گئی اور اس میں پون حصہ اس بات کا ہے کہ یہ بولتے بہت ہیں۔

کوئی ہے جو انہیں’’زپ دی لپ‘‘………’’ایک خاموشی ہزار سکھ‘‘ والی سٹریٹیجی سمجھا سکے لیکن اس کا احساس تو ان کے لیڈر کو بھی نہیں جسے بولتے ہوئے یاد ہی نہیں رہتا کہ اسے کہیں رکنا بھی ہے۔

"YOU MUST SPEAK UP TO BE HEARD, BUT SOMETIMES YOU HAVE TO SHUT UP……. SHUT UP …….. SHUT UP TO BE APPREMCATED.”

یہ بات اگر عمران خان کو ہی سمجھ نہیں آرہی تو باقیوں کو خاک سمجھ آئے گی۔ صدیوں کی دانش کا نچوڑ یہ ہے کہ”IF THERE IS A SUBSTITUTE FOR BRAINS, IT HAS TO BE SILENCE.”

کاش کوئی ایک آدھ وفادار ہی ایسا ہو جوEDMUND MUSKIEکا یہ جملہ سنا سکے”IN MAINE, WE HAVE A SAYING THAT THERE IS NO POINT IN SPAEAKING UNLESS YOU CAN IMPROVE ON SILENCE.”

خاموش رہو اور تب تک خاموش رہو جب تک تمہارے پاس خاموشی سے زیادہ خوبصورت کلام نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے کیونکہ بہت سی صحبتیں مجبوری کے سبب ہوتی ہیں۔

درست بات یہ ہے کہ انسان اپنی خاموشی سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ خاموشی ہی اک ایسی دلیل ہے جسے جھٹلانا ممکن نہیں۔

سیانوں کے بارے میں صدیوں سے مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ دماغ اور دل کو کھلا اور منہ کو اکثر بند رکھتے ہیں۔

"WISDOM IS MADE UP OF TEN PARTS, NINE OF WHICH ARE SILENCE…….THE TENTH, BREVTIY.”

پی ٹی آئی صرف چھ مہینے خاموشی پریکٹس کرکے دیکھے، افاقہ ہوگا لیکن پھر وہی مسئلہ کہ …….تھوتھا چنا باجے گھنا اور دوسری بات یہ کہ چھ مہینے ہیں بھی کہ نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے