کابینہ کا اگلا اجلاس ڈی چوک اسلام آباد میں ہوگا. وزیر اعلی گلگت بلتستان

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گزشتہ دنوں گلگت کے صحافیوں اور سینئررپورٹروں کے ساتھ غیر معمولی نشست کا اہتمام کرکے وفاق سے اپنے خدشات کااظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اپنے حساب سے گیند وفاق کی جانب اچھالتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہمارے تحفظات دور نہیں ہوئے تو صوبائی کابینہ اجلاس ڈی چوک اسلام آباد میں طلب کریں گے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اس امر پر انتہائی تشویش کااظہار کیا تھا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی کی ’صوبے‘ سے تبادلے کے دوران نہ ہمیں اعتماد میں لیاگیا ہے اور نہ ہی پوچھا گیا اور اپنی مرضی سے ڈاکٹر مجیب الرحمن کو بطور آئی جی پولیس تبادلہ کرکے گلگت بلتستان بھجوایا گیا ہے جس پر ہمیں شدید تحفظات ہیں۔گلگت بلتستان امن و امان کے حوالے سے پورے ملک اور ایشیاء میں شہرت پاگیا ہے اور اگر آئندہ کسی بھی قسم کی تخریب ہوئی تو اس میں ہم بری الذمہ ہونگے اور وفاق زمہ دار ہوگا۔ وزیراعلیٰ کے مطابق وفاقی حکومت کے ساتھ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی، چار نئے ا ضلاع کا قیام اور فیڈرل پی ایس ڈی پی منصوبوں کی منظوری کے معاملے میں اختلافات ہیں۔ وزیراعلیٰ نے واضح طور پر 15 دنوں کی مہلت دیدی ہے کہ اس دورانیے میں مثبت جواب نہیں ملا تو کابینہ کا اجلاس احتجاجاً ڈی چوک میں طلب کریں گے۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی طویل عرصے کے بعد صحافیوں سے ایک بیٹھک تھی، اطلاعات کے مطابق سوال جواب اور رائے عامہ کو وزیراعلیٰ تک صحافیوں نے پہنچادیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے ان خدشات سے پہلے وقت دیکھنا لازمی ہے۔ مسلم لیگ ن کو گلگت بلتستان میں حکومت قائم کئے ہوئے ساڑھے چار سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے اور اب وہ فائنل عشرے میں داخل ہوگئی ہے۔ حافظ حفیظ الرحمن اور پوری حکومت اس حوالے سے انتہائی خوش قسمت رہی ہے کہ ان کی حکومت کے دوران پیسوں کی ریل پیل تھی، میاں محمد نوازشریف کے دور حکومت میں کسی منصوبے کی منظوری کے لئے وقت نہیں لگتا تھا، گلگت بلتستان میں حکومت قائم کرنے سے قبل ہی حفیظ الرحمن اور ٹیم نے جی بی میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنا شروع کردیا تھا، یوں حکومت آنے کے بعد انہیں منصوبوں پر کام کو آگے بڑھانے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ساڑھے چار سال کا عرصہ گزرنے کے بعد گلگت بلتستان بالخصوص گلگت ریجن میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے پاس کوئی ایسا بڑا منصوبہ نہیں ہے جسے عوامی مفاد کے اہمیت کا حامل قرار دیا جائے۔

گلگت شہر میں اس وقت نکاسی آب کا جو مسئلہ درپیش ہے اس سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ’پیسے‘ والے لوگ محفوظ ٹھکانوں پر منتقل ہوچکے ہیں جبکہ غریب اور نادار لوگ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے ’اللہ حافظ‘ کے کلمات ادا کرتے ہیں۔ اس وقت متعدد محلوں میں نکاسی کا پانی گھروں میں داخل ہوا پڑا ہے۔ کاشت کی قلیل مقدار والی زمینیں اس پانی کی وجہ سے ناقابل کاشت بن چکی ہیں۔ متعدد جگہوں میں نکاسی کا بندوبست نہیں ہونے کی وجہ سے پانی گھروں کے بنیادوں کی طرف جارہا ہے اور کسی بھی وقت گھروں کے منہدم ہونے کے خطرات لاحق ہیں۔ ان علاقوں میں کاروبار ٹھپ ہوا ہے کیونکہ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں، بالخصوص باران ’رحمت‘ کے دوران تو گلگت شہر میں لوگوں کو پیدل چلنے کی جگہ نہیں ملتی ہے، موٹرسائیکل سوار بھی سڑک پر پڑے گندے پانی سے محفوظ نہیں رہتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن ان کے دور میں منظوری نہیں مل سکی جبکہ حفیظ الرحمن نے اپنے دور میں اس کی منظوری لی مگر اس پر کام شروع نہیں کراسکا۔ ایسے آفت زدہ علاقوں میں رہتے ہوئے کسی شخص کو اپنا نمائندہ تصور کرکے ووٹ دینے والوں کو اس بات سے دلچسپی بہت کم ہوگی کہ منصوبہ کیوں شروع نہیں ہوسکا اور اس میں رکاوٹیں کیوں پیش آئیں۔

جس وقت مسلم لیگ ن نے گلگت بلتستان میں حکومت سنبھالی، اس وقت سردیوں میں تقریباً 20گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہورہی تھی، حکومت سے قبل حافظ حفیظ الرحمن نے بجلی بحران کے خلاف مظاہرے کئے تھے بلکہ اُس وقت کی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ساری زمہ داری ان پر عائد کردی تھی، حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی میڈیا سے جو پہلی بریفنگ تھی اس میں بھی بجلی لوڈشیڈنگ کی زمہ داری صرف سابقہ حکومت کی نااہلی پر ڈال دی اور کہا کہ ہم نے کام شروع کردیا ہے پہلی سال ہی عوام کو کو ’شدید‘ لوڈشیڈنگ سے نجات دلائیں گے لیکن پانچویں سیزن کے بعد بھی اس کی شدت میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں آئی ہے۔ دو سال قبل لوڈشیڈنگ سے نمٹنے کے لئے جنریٹرز منگوائے گئے اور وزیراعلیٰ نے اس وقت بتایا کہ ان جنریٹرز کی مدد سے پہلے سال چار میگاواٹ، دوسرے سال آٹھ میگاواٹ اور تیسرے سال 16 میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہوگی، اس نوید پر لوگوں نے وہ سال جیسے تیسے سہہ لیا لیکن اب ایسی باتیں دہرانا بھی سنگین اقدام بن گیا ہے۔ گلگت شہر اورہنزہ خصوصی طور پر بجلی کی لوڈشیڈنگ سے شدید متاثر ہیں، طلباء سے لیکر کاروباریوں تک کوئی بھی اس ازیت سے نہیں بچ سکا ہے۔

گلگت شہر کو ائیر مکس ایل پی جی کی فراہمی، ہینزل پاور پراجیکٹ، چار نئے اضلاع کا ڈھونگ، عدلیہ میں ججز کی تقرری، گلگت غذر روڈ جیسے مسائل سے وزیراعلیٰ وفاق پر الزام عائد کرکے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ ان میں کوئی ایسا مشق نہیں ہے جسے اس سے قبل دہرایا نہیں گیا ہو۔ صوبائی حکومت کے ساتھ یہ معاملات تب سے شروع ہوئے جب گلگت بلتستان میں جی بی آرڈر2018 کے نام سے نیا صدارتی آرڈر لایا گیا جس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی کیونکہ 2009کے صدارتی آرڈر میں جس طرح من پسند ترمیمات کئے گئے تھے اسی طرح نئی ترتیب سے اسی میں ترمیم کرکے ضرورت پوری کی جاسکتی تھی لیکن اپنی پارٹی کے ٹیگ کی وجہ سے ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا جس کی پیروی اب تحریک انصاف بھی کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ صوبائی حکومت گلگت بلتستان کے وفاقی حکومت سے تحفظات درست اور الزامات سچ بھی ہوسکتے ہیں لیکن ان کی آڑ میں صوبائی حکومت خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ دھیرے دھیرے اب ان ’بیانیوں‘ کی طرف آرہے ہیں جن پر مہدی شاہ قائم تھے۔ اس وقت ’صدارتی نظام‘کے بحران میں صوبائی حکومت نے جو چپ سادھ لی ہے وہ بھی ایک الگ پہلو ہے۔ البتہ حفیظ الرحمن حکومت کو اس بات کا بھرپور فائدہ ملا ہے کہ انہیں ’اپوزیشن‘ نہیں ملی، اندر کی اپوزیشن اختراعات کی بنیاد پر کھڑی ہے جبکہ باہر کی اپوزیشن آپس کے اختراعات پر کھڑی ہوئی ہے۔ عوامی مفاد کے اقدامات اس ساری کہانی میں پس پشت چلے گئے ہیں اور سب کی نظریں محض آنے والے انتخابات پر ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے