کشمیر، ہم سب مجرم ہیں

پچھلے 71 سال سے کشمیرکے ایک کروڑ 71 لاکھ عوام کوان کے حق خود ارادیت اور آزادی سے محروم رکھنے کے سب سے بڑے مجرم بلا شبہ، جواہر لعل نہرو ہیں جو خود کشمیری النسل ہوتے ہوئے کشمیریوں کی خواہشات سے باخبرتھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کشمیری قوم پرستی کے مقابلہ میں ہندوستان کی قوم پرستی کو ترجیح دی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے کشمیریوں کے امنگوں کے ترجمان اور خود اپنے دیرینہ ساتھی شیخ عبداللہ کو ہندوستان کے خلاف نام نہادسازش کے الزام میں گرفتار کر کے گیارہ سال تک قید وبند کی اذیت میں مبتلا رکھا۔ جرم در اصل شیخ عبداللہ کا نہرو کے نزدیک یہ تھا کہ وہ ہندوستان سے کشمیر کے الحاق کے خلاف تھے۔

شیخ عبداللہ اور پنڈت جواہر لعل نہرو

ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کی سرگرم کارکن اور مشہور صنعت کار مردولا سارہ بائی جنہیں جواہر لعل نہرو نے 1946میں کانگریس پارٹی کے جنرل سیکریٹریوں میں سے ایک مقرر کیا تھا، شیخ عبداللہ کی رہائی کی کوششوں میں پیش پیش تھیں۔ 1961میں اسی سلسلہ میں جب وہ دلی آئیں تو میں نے ان سے ملاقات کی تھی ۔ اس ملاقات میں مردولا سارہ بائی نے انکشاف کیا کہ شیخ عبداللہ ہندوستان سے کشمیر کے الحاق کے سخت خلاف تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ گو شیخ صاحب سیکولرزم کے زبردست حامی تھے اور اسی بنیاد پرانہوں نے پاکستان کے دو قومی نظریہ کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔

مردولا سارہ بائی

میں نے مردولا سارہ بائی سے پوچھا کہ شیخ عبداللہ کیا چاہتے تھے؟ انہوں نے ایک لمحہ کے توقف کے بغیر کہا۔ کشمیر کی آزادی۔کہنے لگیں کہ اپریل 1946میں شیخ عبداللہ نے کیبنٹ مشن کو ایک تار بھیجا تھا جس میں انہوں نے کشمیریوں کی آزادی کے حق کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کا استدلال تھا کہ کشمیری ایک الگ قوم ہیں جو ہندوستان کے ایک منفرد علاقہ میں آباد ہیں۔ مردولا سارہ بائی نے کہا کہ شیخ عبداللہ کا موقف تھا کہ ہم نہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کر کے ہندوستان کے ساہو کاروں کے غلام بننا چاہتے ہیں اور نہ پاکستان سے الحاق کر کے وہاں نوابوں کے درباری بننا چاہتے ہیں۔

اسی زمانہ میں کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کے ایک قریبی ساتھی، جی ایم صادق نے دلی میں ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ شیخ صاحب نے 1953 میں اپنی گرفتاری سے بہت پہلے، انہیں اور بخشی غلام محمد کو کشمیر کی آزادی کے بارے میں بات چیت کے لئے پاکستان بھیجا تھالیکن پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے انہیں وزیراعظم لیاقت علی خان سے نہیں ملنے دیا۔ جی ایم صادق کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اس رویہ پر شیخ صاحب کو شدید قلق تھا۔

پخشی غلام محمد

یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان نے کشمیریوں کی قوم پرستی اور آزادی کے جذبہ کو سمجھنے سے صاف انکار کیا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور عوام نے اپنے ذہنوں پر یہ طاری کر لیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے،کشمیر پاکستان سے ملحق ہے، اس کے بیشتر دریاوں کے منبعے کشمیر میں ہیں اور کشمیریوں کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے لہذا کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے۔ خود غرضی کی کالی پٹی اہل پاکستان نے اپنی آنکھوں پر ایسے کس کر باندھ لی ہے کہ انہیں کشمیریوں کی قوم پرستی اور آزادی کے جذبہ کا نہ ادراک ہے اور نہ احساس۔

نہ کبھی بھلائے جانے اور نہ کبھی معاف کرنے والا المیہ ہے کہ کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کاونسل کی استصواب رائے کی قرار داد کی منظوری کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ پاکستان کے حکمرانوں نے استصواب کے موقف کو ترک کر کے کشمیر کی تقسیم اور اس کے علاقوں کے بٹوارے کی راہیں تلاش کرنی شروع کر دیں تھیں۔

اس المیہ کا آغاز 1953میں اس زمانہ کے گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں ہوا جب انہوں نے منتخب وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اچانک برطرف کر کے امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کیا تھا۔امریکا سے آئے ہوئے تازہ تازہ، اپنی تقرری کے فورآ بعد محمد علی بوگرہ نے ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کی مہم شروع کی اور ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو کراچی آنے کی دعوت دی۔

اس دورہ کے بعد جنوری 1955کو گورنر جنرل غلام محمد لکھنو کے قریب،بارہ بنکی میں دیوا شریف کی زیارت کے بہانے دلی گئے اور پالم کے ہوائی اڈہ پر، نہرو کو ایک بند لفافہ دیا جس میں، کاغذ کے ایک پرزے پر کشمیر کے مسلہ کا 4 نکاتی حل تجویز کیا گیا تھا۔ بنیادی نکتہ سلامتی کاونسل کی استصواب کی قرارداد پر عم لدرآمد کا نہیں تھا بلکہ اس پر زور دیا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کو کشمیر کا مسئلہ آپس میں طے کرنا چاہیے ، کسی بیرونی مداخلت کے بغیر۔ بلا شبہ، نہرو کے لیے یہ انداز فکر طمانیت کا باعث تھا، کہ پاکستان یہ مسئلہ اقوام متحدہ سے باہر حل کرنا چاہتا ہے، دوسرے معنوں میں استصواب کی شرط اب لازمی نہیں۔

گورنر جنرل غلام محمد اور جواہر لعل نہرو

دیوا شریف سے واپسی کے فورا بعد غلام محمد نے 14 مئی 55ء کو اپنے وزیر اعظم بوگرہ اور وزیر داخلہ اسکندر مرزا کو دلی بھیجا جنہوں نے نہرو سے بات چیت کی ، جس میں مولانا ابوالکلام آزاد اور وزیر داخلہ پنڈت گوبند بلبھ پنتھ بھی شامل تھے۔ پاکستان کے وزراء نے اس بات چیت میں استصواب کا موقف ترک کر کے کشمیر کی تقسیم کی تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز میں کہا گیا تھا کہ جموں کا ایک بڑا علاقہ بشمول، پونچھ، ریاسی،اور ادھم پور وغیرہ پاکستان کو منتقل کر دئے جائیں اور اسکردو، ہندوستان کے حوالہ کر دیا جائے۔ کارگل کا علاقہ، کشمیر سے نتھی کردیا جائے اور آئیندہ دادی کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہو اس کے مطابق کارگل کا مستقبل طے کیا جائے۔ پاکستان کی تجاویز میں کہا گیا تھا کہ کارگل پر، ہندوستان اور پاکستان کا سیاسی اور فوجی لحاظ سے مشترکہ کنٹرول ہو۔ ان تجاویز میں کہا گیا تھا کہ استصواب کا امکان اگلے پانچ سال سے لے کر بیس سال تک موخر ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے حکمرانوں کے اس رویہ سے پنڈت نہرو کو جو دراصل دسمبر 1948ہی سے استصواب کو رد کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے لیکن مصلحت اور بدنامی کے پیش نظر اس کا اعلان نہیں کرنا چاہتے تھے، استصواب سے روکش کرنے کا موقع مل گیا۔

اس کے بعد جب ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ کے دوران نہرو نے ایوب خان سے، مصلحتآ تنازعہ کشمیر پر بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی ، جس کے نتیجہ میں، 62،63ء میں سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے تو ان میں بھی استصواب بنیادی مسئلہ نہیں تھا بلکہ تمام تر زور، کشمیر میں بین الاقوامی سرحد کھینچنے پر تھا۔

سورن سنگھ، کشمیر کی تقسیم کے لئے پاکستان کی رضامندی کے عوض، وادی کشمیر میں ہندواڑہ کا علاقہ پاکستان کو منتقل کرنے پر تیار تھے لیکن، چین کی جنگ میں ہندوستان کو شکست خوردہ تصور کرتے ہوئے بھٹو نے کتھوا کے علاوہ پوری وادی کو پاکستان میں شامل کرنے پر زور دیا۔ ان مذاکرات میں اس تجویز پر بھی غور ہوا کہ ٹیٹوال، اڑی اور پونچھ کے علاقے پاکستان کے حوالے کر دیے جائیں اور اس کے عوض پاکستان جموں کا چناب کا علاقہ اور کارگل کے قریب، دراس کا قصبہ، ہندوستان کے حوالہ کر دے۔

سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو

المیہ در المیہ جولائی 1972ء کو شملہ میں مسز گاندھی اور بھٹو کے درمیان مذاکرات میں جو سمجھوتہ طے پایا ، اس میں کشمیر کا تنازعہ، کشمیر کا مسئلہ قرار دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہندوستان اور پاکستان اپنے اختلافات باہمی مذاکرات کے ذریعہ حل کریں گے اور کسی تیسرے فریق کو حتیٰ کہ اقوام متحدہ کو اس میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یوں کشمیر کا تنازعہ، کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کے مسئلہ کی جگہ محض دونوں ملکوں میں اختلاف قرار دیا گیا اور اقوام متحدہ کے تحت استصواب کا موقف ہمیشہ کے لئے ترک کردیا گیا۔ یہی نہیں شملہ سمجھوتہ کے تحت کشمیر میں جنگ بندی لائین کو لائین آف
کنٹرول کا نام دیا گیا۔

1999ء میں نواز شریف کی دعوت پر ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے لاہور کے دورہ کے اعلامیہ میں شملہ سمجھوتہ کی منظوری کی ، پختہ مہر ثبت کر دی گئی کہ دونوں ملکوں نے شملہ سمجھوتہ پر مکمل عہد کا پیمان کیا۔ لاہور اعلامیہ میں کشمیر کے تنازع کا خاص ذکر نہیں تھا ، صرف اتنا کہا گیا تھا کہ دونوں ملک جموں اور کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کریں گے۔

نواز شریف اور اٹل بہاری واجپائی

فوجی آمر پرویز مشرف نے بھی آگرہ میں اٹل بہاری واجپائی سے مذاکرات میں کشمیر کو تنازعہ کی بجائے مسئلہ قرار دیا۔ یہی نہیں انہوں نے حریت کے رہنماوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔ آگرہ میں مشرف نے مذاکرات میں استصواب یا اقوام متحدہ کی قرارداد کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

آگرہ کے 9 نکاتی اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ کشمیر کے معاملہ کا حل دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار کرے گا۔

فوجی آمیر جنرل پرویز مشرف اور اٹل بہاری واجپائی، آگرہ

1955ء سے 2001 ء تک پاکستان کے حکمرانوں نے، جن میں فوجی آمر پیش پیش اور منتخب رہنما بھی شامل تھے، کشمیر کے تنازعہ کے بارے میں جو موقف اختیار کیا اس کے بارے میں بلا تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سلامتی کاونسل کی قرارداد کی صریح خلاف ورزی تھی، جس کے تحت کشمیروں سے پیمان کیا گیا تھا کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ، حق خود ارادیت کے اصول کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ خلاف ورزی کشمیر کے عوام سے بے وفائی سے زیادہ غداری تھی۔آج ہم کس منہ سے یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے