کپتان نے واشنگٹن کو لاہور بنا دیا

ویسے تو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کا ہر اقدام ہی میڈیا کی زینت بن جاتا ہے لیکن ان کے تین روزہ دورہ امریکہ پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب بحث ہو رہی ہے۔ اس بحث میں اس وقت زیادہ شدت دیکھنے میں آئی جب انھوں نے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔

یہ جلسہ عمران خان کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات سے پہلے منعقد کیا گیا جس سے یہ امید کی جارہی ہے کہ اس سے میزبان پر بھی ان کی مقبولیت کی دھاک بیٹھ چکی ہو گی۔ شاید واشنگٹن میں کسی بھی پاکستانی وزیر اعظم کا یہ اپنی نوعیت کا واحد جلسہ تھا۔ اس سے قبل انڈین وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنے دورہ امریکہ کے دوران وہاں پر مقیم انڈین شہریوں سے خطاب کر چکے ہیں۔

عمران خان کے اس جلسے میں بڑی تعداد میں امریکہ میں مقیم پاکستانی شریک ہوئے تو عمران خان کے جلسوں کے سٹیج سیکرٹری سینیٹر فیصل جاوید خان نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا نام لیے بغیر ٹوئٹر پر لکھا کہ ’وہ لاہور کو پیرس بناتے رہے کپتان نے واشنگٹن کو لاہور بنا دیا۔‘

[pullquote]سب سے پہلے پاکستان[/pullquote]

تجزیہ کار ہمایوں گوہر خان نے بتایا کہ عمران خان کے جلسے سے امریکی حیران ہوگئے ہو نگے۔ یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ عمران خان ایک پاپولر لیڈر ہیں جبکہ سیلیکٹڈ کا طعنہ محض الزامات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جلسے سے امریکی میزبانوں پر بھی ایک اچھا تاثر پیدا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے جلسے کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ملک کی معاشی حالت میں بہتری لانا ہے۔

تاہم یہ بات اہم ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے جلسے میں شریک بڑی تعداد تو ایسے پاکسانیوں کی تھی جو سرے سے ووٹر ہی نہیں ہیں اور امریکی شہریت اختیار کرنے کے بعد اب وہ پاکستان میں انتخابات میں حصہ لینے کے بھی اہل نہیں رہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جلسے کے مقاصد کیا تھے اور وزیر اعظم اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

اس حوالے سے سوشل میڈیا پر خوب بحث ہو رہی ہے۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے تبصرہ کیا کہ انھیں اس بات پر خوشی ہو رہی ہے کہ آج باہر رہنے والے پاکستانیوں کے اوصاف گنوائے جا رہے ہیں۔

اینکر پرسن فریحہ ادریس نے عمران خان کے جلسے پر لکھا کہ سیلیکٹڈ وزیر اعظم کے الزامات بری طرح پِٹ چکے ہیں۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اب عمران خان امریکہ میں بھی سیلیکٹڈ ہی ہیں یا وہ بہت مشہور لیڈر کے طور پر ابھر کے سامنے آئے ہیں۔

اس ٹویٹ کے جواب میں ٹی وی اینکر اور صحافی امبر رحیم شمی نے لکھا کہ یہ درست ہے کہ عمران خان سمندر پار پاکستانیوں میں بہت مقبول ہیں۔ یہ جلسہ امریکہ اور پاکستان میں کچھ حلقوں تک ایک واضح پیغام ہے۔ لیکن کسی باہر ملک میں ایسی ریلی کا کیا کرنا جس میں شریک افراد نے گذشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں کسی کو ووٹ تک نہیں دیا۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری تو اس جلسے سے اتنی خوش نظر آئیں کہ جیسے ان کی جماعت نے امریکہ ہی فتح کرلیا ہو۔ انھوں نے لکھا کہ یہ ایک ایسا جلسہ ہے جو پہلے کسی بھی پاکستانی رہنما نے نہیں کیا۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی میم تو ویسے بھی بہت مشہور ہیں لیکن اس جلسے پر تبصرہ کرنے سے وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ انھوں نے اپنے ٹویٹ میں ایک طرف سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دورہِ امریکہ کی تصویر لگائی اور ساتھ واشنگٹن میں عمران خان کے جلسے کی تصویر لگاتے ہوئے کہا کہ فرق صاف ظاہر ہے۔

[pullquote]عمران خان کے خطاب پر ردعمل[/pullquote]

جہاں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں متعدد موضوعات پر بات کی وہیں انھوں نے واشنگٹن کے جلسے میں اپوزیشن پر بھی کڑی تنقید کی۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ واپس جا کر بد عنوانی کے الزامات میں گرفتار اپوزیشن رہنماؤں کی جیل سے اے سی اور ٹی وی بھی نکلوا دیں گے۔

عمران خان کے اس اعلان پر بھی خوب تنقید کی جارہی ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ مل کر چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے سے متعلق مشاوت کررہے تھے، جب میڈیا کے نمائندوں نے عمران خان کے اس اعلان پر ردعمل جاننا چاہا تو ان کا کہنا تھا کہ ’عمران کو اس کے علاوہ کرنا کیا آتا ہے۔‘

سابق صدر آصف زرداری کو نیب کی حراست میں اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو وہاں پر موجود صحافیوں نے ان سے بھی یہی سوال پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’عمران خان نے پہلے کون سی سہولتیں دی ہیں جو واپس لے لیں گے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے