ہزارہ کمیونٹی کے لیے عالمی مہم کیوں چلائی گئی؟

گزشتہ ہفتے کوئٹہ کی ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے شہر کے مشہور ’’پسنی روڈ پر ‘‘ ٹارگٹ کلنگ کے ایک تازہ ترین واقعے میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک ہونہار طالبہ اوران کے بھائی کو سڑک پر روک کر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ پولیس اور ایف سی کی موجودگی میں ہونے والے اس نشانہ وار قتل کی نہ پولیس نے مزاحمت کی اور نہ ایف سی نے۔ سڑک پر دیر تک پڑی بہن بھائیوں کی لاشوں کے قریب جانے کے لیے بھی لوگ تیار نہیں تھے۔

اس واقعے پر کسی طرح کا خاص رد عمل نہیں آیا۔ میڈیا نے بھی اسے کوئی کوریج نہیں دی۔ انسانی حقوق کی علم بردار سول سوسائٹی نے بھی کوئی توجہ نہیں دی، اس واقعے پر خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں میں ہلچل مچی اور نہ ہی گرلز ایجوکیشن کے لیے متحرک اداروں نے اس کا نوٹس لیا۔ خواتین پر بہت حساسیت دکھانے والی مذہبی جماعتیں اور قبائلی تنظیمیں بھی اسے معمول کی کاروائی سمجھ کر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ لکھاریوں نے اہمیت دی اور نہ ٹی چینلز پر بولنے والوں نے، سوشل میڈیا پر متحرک صارفین نے بھی کوئی حساسیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ واقعہ کسی پولیس مقابلے کا شاخسانہ نہیں تھا اور یہ کسی گھر میں ’’ ریڈ ‘‘ کر کے یا ٹارگٹ کر کے مارے جانے کا واقعہ تھا نہ ہی کسی بم دھماکے کا۔ سڑک کنارے سر عام پڑی لاشیں جن کو کوئی ڈھانپنے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا تھا لیکن وہ دنیا کو ہماری بے حسی کی گواہی دے رہی تھیں۔

سب سے کم آبادی کا صوبہ بلوچستان، چھوٹا سا شہر کوئٹہ، آدھ کلومیٹر کی سڑک، ایف سی کا ہیڈ کوارٹر اور سڑک کے شروع اور آخر میں چوکیاں، پسنی روڈ پر ہزارہ برادری کو مسلسل نشانہ بنا کر قتل کرنے سمیت حالیہ واقعے میں سکیورٹی نااہلیوں اور خیانتوں سے قطع نظر ، ظلمِ مسلسل پر بے حسی اور لاتعلقی کا رویہ اور اس کے سماجی مضمرات ہر محب وطن شہری اور دردمند انسان کے لیے نہایت شاکنگ اور تکلیف کا باعث ہیں،

سوال یہ ہے کہ کیا ہم بطور قوم اس حد تک اخلاقی زوال کا شکار ہو گئے ہیں کہ راہ چلتے بے گناہ انسانوں کے قتل کے بعد بھی ان کی لاشوں کو سر عام رکھ کر اور ان کا تماشہ دیکھ کر خوشی محسوس کریں، مسلکی و نسلی تعصبات اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ اب ہم سڑک پر پڑی نوجوان طالبہ کی لاش بھی ڈھانپنے کے لیے روادار نہیں رہے، کیا ہم اپنی بے حسی کی انتہا کو چھو رہے ہیں کہ کسی وحشت و دہشت کا ادرک نہیں کر پا رہے ہیں، کیا ہم اس قدر ایک دوسرے سے لاتعلق ہو چکے ہیں کہ سڑک کے کنارے بے گناہ مرنے پر کم از کم یہ پوچھ سکیں کہ انہیں کیوں مارا گیا ہے۔ کیا ہم اتنے تشدد مزاج بن چکے ہیں کہ ہم ظلم و تشدد کو مذہبی و سیاسی جواز کے ساتھ ساتھ اب اسے سماجی قبولیت اور جواز فراہم کر نے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ کیا اب کسی بہن بھائی کا سر عام یوں مار دینا ایک معمول کی کاروائی ہی سمجھا جائے گا۔

ہزاراہ برادری تقریباً گزشتہ بیس سال سے مسلسل ظلم و بربریت کا شکار ہے۔ ہزارہ برادری کے رہنما عبد الخالق ہزارہ کے مطابق پاکستان میں‌دہشت گردی کے لیے کل قربانی کا ساڑھے چار فیصد صرف ہزارہ برادی نے دی ہے جس کی آبادہ صفر اعشاریہ چار فیصد ہے. یعنی جتنی ایک کروڑ کی آبادی نے قربانی دی ہے اتنی صرف پانچ لاکھ کی آبادہ پر مشتمل ہزارہ کمیونٹی نے دی ہے. لشکر جھنگوی، تحریک طالبان اور ان کے فرقہ پرست سہولت کار ہزارہ برادری کے قتل کی ‘‘سنچری‘‘ بنانے کا اعلان سر عام کرتی رہی ہے۔ مسلک کے لحاظ سے شیعہ ہونے، پوری آبادی صرف مخصوص علاقوں میں آباد ہونے، چہرے کی ساخت سے پہچانے جانے، پُرامن ہونے، گولی اور گالی کے مکاتب فکر سے دور رہنے، صوبے میں علیحدگی اور عسکریت پسند تحریکوں کے لیے اپنی اعلیٰ تعلیم و تہذیب کی بنیاد پر رکاوٹ بننے، ہمسایہ ممالک سمیت کسی بھی غیر ملکی ایجنڈے کا حصہ نہ بننے کے باعث ہزارہ برادری مسلسل دشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ درجنوں بم دھماکوں میں سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں، سینکڑوں زندگی بھر کے لیے مفلوج ہو چکے ہیں، درجنوں لوگ اغوا کیے جا چکے ہیں، ہزاروں لوگ اپنی جان بچانے کے لیے ملک کے اندر دیگر شہروں اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں لوگ مختلف ممالک میں پناہ گزین بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، مسلسل دہشت و وحشت کے باعث پوری آبادی اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں محبوس و محصور ہو چکی ہے۔ خوف و ہراس کی پھیلی فضا کے باعث لوگ تعلیم، تجارت، زراعت اور دیگر ذرائع معاش سے محروم اپنے گھروں میں جان بچا کر رہنے پر مجبور ہیں۔ کاروباری لوگ مفلوک الحال بن چکے ہیں، عباد ت گاہ کا تقدس برقرار رہا اور نہ درسگاہ گا تحفظ۔ ہر طرف تباہی، بربادی اور ویرانی کا عالم ہے، اب صرف قبرستان آباد ہے جہاں پر ننھے بچوں سے لے کر بوڑھے ماں باپ تک سب شہادت کی حیات جاوید سے سروخرو ہیں،ہزاروں یتیموں ، بیواؤں، ماؤں، بہنوں، بوڑھوں کی سسکیوں کو سننے والا کوئی نہیں۔

A man prepares graves for the burial of victims of Saturday’s bomb attack in a Shi’ite Muslim area, in the Pakistani city of Quetta February 17, 2013. Pakistan’s unpopular government, which is gearing up for elections expected within months, faced growing anger on Sunday for failing to deliver stability after the sectarian bombing in the city of Quetta killed 81 people. REUTERS/Naseer Ahmed (PAKISTAN – Tags: CIVIL UNREST CRIME LAW POLITICS RELIGION TPX IMAGES OF THE DAY) – RTR3DWYP

ریاست ایسی بے حس کہ گزشتہ وزیر اعلیٰ سو سے زائد لاشوں کے سامنے رونے والی ماؤں کی اشک شوئی کے لیے ’’ٹشو پیپر کا ٹرک‘‘ بھیجنے کا ہی حس اور ہمدردی رکھتے ہیں، موجودہ حکومت بھی ان کا تحفظ کرنے اور دہشت گردوں کے سروں سے دست شفقت اٹھا کر ان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، سیاسی و مذہبی جماعتیں زندوں کو بچانے سے زیادہ لاشوں پر سیاست کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ سول سوسائٹی ایسی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتی جس پر کہیں سے فنڈنگ کی امید نہ ہو، عوام کا ایک بڑا طبقہ ایسے اندوہ ناک واقعات سے یا تو لاعلم رہتے ہیں یا لا تعلق۔ پاکستان کی متحرک فرقہ پرست تنظیم ’’سپاہ صحابہ‘‘ شیعہ قوم کو دنیا کا غلیظ ترین کافر قرار دے کر ملک بھر میں سر عام کافر کافر شیعہ کافر کے نعرے لگواتی ہے ، ان کے کارکن شیعہ مسلمانوں کو ایسے کھٹمل سمجھتے ہیں جس کا کام کسی خاص موسم میں متحرک ہونا اور انسانوں کا خون چوسنا ہے، اس لیے انہی نفرت انگیز نعروں کی شہہ لے کر بعض شدت پسند ان کو ’’کھٹمل مار‘‘ مہم کے تحت پاکستان بھر میں نشانہ بنا کر قتل عام کرتے ہیں، وہ ایسی مجرمانہ کاروائیوں کو اپنی جماعت کی فتح سمجھ کر شادیانے بجاتے ہیں۔جس کے لیے ہزارہ برادری سب سے آسان نشانہ ہے۔ نہتا ہونے اور جرم ضعیفی کے باعث بین الاقوامی تنظیمیں اور عالمی برادری بھی اس مسلسل نشانہ باز قتل و غارت کو رکوانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ہمارے وفاقی وزیر داخلہ پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ فرقہ پرست تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نہ دیکھا جائے۔

حالیہ واقعے کے بعد تشدد کی عوامی قبولیت کے خلاف ایسی منظم اور بڑے پیمانے پر آواز اٹھانے اور عوام کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ قتل و غارت کو جہاں قبولیت حاصل ہوتی ہے ان معاشروں موت ننگی رقص کرتی ہے ۔ اس کی تہذیب وحشت کی علامت بنتی ہے، اس کی تاریخ جلد ہی سیاہ کاریوں سے مرقع ہوتی ہے اور آئندہ نسلوں کے لیے باعث عبرت قرار دی جاتی ہے۔ یہ سوال اٹھانے کی ضرورت پیش آئی کہ دُور کی صحراؤں سے آنے والی آوازوں پر کان دھرنے والے سامنے کے اجڑے گھروں کے یتیم بچوں اور بیوہ ماؤں کی چیخیں سننے کے لیے ان کے کان کیوں بہرے اور زبانیں کیوں گونگی ہوجاتی ہیں

پاکستان کی تاریخ کے طول و عرض میں سب سے زیادہ ظلمِ مسلسل سہنے والی ہزارہ برادری کے نشانہ وار قتل عام کے سارے عوامل اب بھی متحرک اورموقع کی تلاش میں ہیں اس لیے عدم تشدد کی ایسی عوامی مزاحمت درکار تھی جس سے اس تقدس مآب تشدد کا راستہ روکا جا سکے، لاشوں پر گِدھوں کی طرح سیاست کرنے کے بجائے زندگی کے تقدس اور تحفظ کے اخلاقی و انسانی فریضے کو نبھانے کے لیے اپنی ترجیحات کا تعین اس طرح ہو کہ انسانی المیے پر کم از کم اتنی حساسیت پیدا کی جائے جتبی فروٹ مہنگائی، پانامہ اور دیگر نان سیریس ایشیوز پر نظر آتی ہے۔ شاید ساری قوم ہزارہ برادری کے ہر وقت نشانہ وار قتل کی خبریں سن سن کر تھک چکی ہوگی لیکن ہزارہ برادری لاشیں اٹھا اٹھا کر ابھی نہیں‌تھکی. اب تو کوئی گھر ڈھونڈ کر بھی نہیں‌ ملتا لہو سے رنگین نہ ہوا ہو لیکن ان کے جذبہ حبی الوطنی اور امن دوستی کو لاکھوں‌ سلام کہ اپنے تحفظ کے لیے بھی اسلحہ اٹھانے کا نہیں‌سوچا، اتنی قربانیوں‌کے باجود قوم اور ریاست سے امید لگائے بیٹھی ہے کہ یہ قوم اور ریاست کو کتابی اور زبانی شور وغل سے باہر عملی طور پر بھی کسی نہ کسی دن ان کے تحفظ کے عہد کی پاسداری کا خیال آئے گا. وہ وقت آ ہی جائے گا کہ ان کو بھی انسان کا درجہ سمجھا جائے جس کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے. ان کو بھی ایسا شہری سمجھا جائے جس کے تحفظ کی ضمانت تمام عالمی قوانین اور آئین پاکستان دیتا ہے.

یہ مہم اگر چہ ہزارہ نسل کشی کے خلاف مہم سے موسوم ہے لیکن بنیادی طور پر یہ مہم اس عمومی بے حسی، مسلکی و مذہبی تعصب و منافرت اور تشدد مزاجی کے خلاف ہے جس کے زد میں زیادہ تر مسلم اور غیر مسلم اقلتیں آتی ہیں۔ ظلم چاہے احمدی پر ہو یا مسیحی پر، ہندو پر ہو یا سکھ پر اسی طرح ریاست سے نبرد آزما مسلح دہشت گردوں کو چھوڑ کر ماروائے عدالت کوئی شیعہ مارا جائے یا سنی، دیوبندی مارا جائے یا بریلوی، سلفی مارا جائے یا صوفی اس کے قانونی جواز کا کوئی مہذب شہری قائل نہیں ہو سکتا۔ ہر باشعور انسان قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑ ا دیکھنا چاہتے ہے چاہے اس کا مسلک و مذہب، رنگ و نسل جو بھی ہو۔ انصاف ہر طرح کے لحاظ سے بالا تر ہوتا ہے۔

یہ مہم ہراس مذہبی و سیاسی جماعت کو برابر کی مجرم سمجھتی ہے جو اپنے مسلکی اثر رسوخ یا سیاسی فائدے کے لیے فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث عناصر کو سیاسی پناہ اور مسلکی چھتری کا سہارا دے. اشتعال انگیز گفتگو کرنے والے مقرر ہوں، یا گولی کا سہارا لینے والے قاتل دونوں مجرم ہیں،

یہ مہم پاکستان کے قومی مفاد، ملی یکجہتی اور سماجی و مذہبی ہم آہنگی سے متصادم ہر اس بیرونی سیاسی ایجنڈے کے خلاف ہے جس کی تکمیل کے لیے پاکستان کی مختلف مذہبی و سیاسی جماعتیں متحرک ہیں۔

یہ مہم ہر اس امتیازی سلوک، سماجی تفریق اور ظلم و نا انصافی کے خلاف جو کسی شہری کے مذہب و مسلک، رنگ و نسل اور زبان و علاقہ دیکھ کر کیا جائے۔
یہ مہم کسی بھی مسلک یا نسل و قوم کے خلاف ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ مہم پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ اور ان کی مذہبی آزادی کے انسانی حق کے تحفظ کی علم بردار ہے۔ یہ مہم پاکستان میں مذہبی رواداری اور باہمی احترام کے فروغ اور ملک کے استحکام و ترقی کے لیے ہے۔
اس عالمی مہم میں شمولیت کی ہم دعوت دیتے ہیں
انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار دوستوں، اداروں اور تنظیموں کو،
قومی اور بین الاقوامی میڈیا ٹی وی چینلز, اخبارات اور سوشل میڈیا ویب سائٹس اور ان میں لکھنے اور بولنے والوں کو
حکومت اور ریاست کے پالیسی ساز اداروں اور تنظیموں کو
قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان کو
مذہبی آزادی کے تحفظ، بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ اور تعمیر امن میں سرگرم اداروں اور تنظیموں کو
مذیبئ و سئاسئ جماعتوں اور ان کے متحرک قائدین اور کارکنوں کو

ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس مہم کو اپنے زخم رسیدہ دلوں کے لیے مرہم قرار دیا ہے۔ لہذا ہم انسانی ہمدردی سے معمور دل رکھنے والے تمام دوستوں سے گزارش کرتے ہیں کہ 12 جون سے 16 جون تک اس مہم کو مزید تیز کرنے کے لیے وہ سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر بلاگز کالمز اور پوسٹیں لکھیں، ویڈیو کلپس اپلوڈ کریں. مین سٹریم میڈیا پر اس پر پروگرام کریں وٹس ایپ اور فیس بک کے گروپس اور پیجز پر اس ایشیو کو اجاگر کریں اور ٹویٹر پر ٹرینڈز چلائیں.
ہم لکھنے والے اور بولنے والے تمام احباب سے امید کرتے ہیں کہ کم ازکم انسانی اقدار میں سے اولین قدر انسانی جان کے تحفظ کی خاطر اس ظلم وبربریت اور قتل عام کے اطمینان بخش خاتمے اور تشدد کی سماجی قبولیت کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اس سماجی شعور کو اجاگر کریں کہ ہم بطور قوم آئندہ ہزارہ سمیت کسی بھی کمیونٹی پر ظلم کو معمول کی کاروائی کے طور قبول کرنے کے بجائے مظلوم کے ساتھ سب کھڑے ہوں۔

بین الاقوامی سطح پر جاری اس مہم کی کامیابی اس بات میں مضمر ہے کہ قتل و غارت کی سماجی قبولیت میں کمی آئے اور ہم بطور قوم مُردوں کی لاشوں پر سیاست کرنے کے بجائے زندگی کے تقدس اور تحفظ کو یقینی بنائیں، ریاست کی بے حسی کو شہریوں کے تحفظ کے لیے سنجیدگی اور حساسیت میں تبدیل کرنے میں کسی حد تک مددگار ثابت ہو۔

یہ ایک تلخ بات ہے کہ< دنیا میں ہماری پہچان اب کافی حد تک منافرت اور تشدد سے کی جاتی ہے لہٰذا اس منفی تاثر کو زئل کرنے کے لیے ریاست اور عوام دونوں کو اشتعال انگیز خطیبوں، فتنہ انگیز مفتیوں، فتنہ پرور فرقہ پرستوں، تکفیری ٹولے اور مقدسات کی توہین کرنے والے دریدہ دہن ذاکروں، سمیت سیاسی و لسانی بنیادوں پر قتل و غارت میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث عناصر، اندرونی و بیرونی سرپرستوں خاص طور پر ’’برادر اسلامی ممالک‘‘ کے فتنہ انگیز نمک خواروں کو مسترد کرنا ہوگا۔ ریاست و عوام دونوں کو ان مذہبی یا نسلی بنیادوں پر پھیلائی جانے والی تمام نفرت انگیز تقریروں، تحریروں اور سرگرمیوں کا دھندہ بند کروانا ہوگا۔ یہاں ایسا پُرامن ماحول پروان چڑھانا ہوگا کہ کسی شہری کو تقدس کے لبادے میں اوڑھے تشدد کا نشانہ بننے کی نوبت نہ آئے، دنیا کے مختلف ممالک کے باشندوں اور ان میں مقیم پاکستانی نژاد شہری سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے مختلف مسالک، مذاہب، رنگ و نسل اور زبان و علاقہ سے وابستہ لوگ اس مہم میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس مہم میں بھرپور حصہ لینے والے تمام دردمند انسانوں کا شکریہ اور اس کی مخالفت میں کمر بستہ تمام لوگوں کے لیے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں تعصبات کی عینکوں سے عاری چشم ِ بینا اور انسانی دکھ و درد کو محسوس کرنے والے دردمند دل عطا کرے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے