ہیپاٹائٹس کا عالمی دن،مرض سے آگہی ضروری۔۔!!!

التہاب جگر یعنی ہیپاٹائٹس کا عالمی دن ہر سال 28 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد ہیپاٹائٹس جیسے تیزی سے بڑھتے ہوئے مرض کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینا ہے۔ہیپا ٹائٹس جگر میں انفیکشن کے باعث ہونے والی سوزش اور ورم کا نام ہے۔ یہ بیماری سب سے زیادہ انسانی جگر کو متاثر کرتی ہے۔طبی سائنس جگر کو انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو اور گلینڈ تصور کرتی ہے جو جسم کے سب سے اہم کام سرانجام دیتا ہے۔ جسم کے یہ سب اہم کام جگر کے خراب ہونے پر متاثر ہو جاتے ہیں۔ آج کل جگر کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ وائرس سے ہونے والی انفیکشن یعنی ہیپا ٹائٹس ہے۔ہیپاٹائٹس( جگر کی سوزش) ایک ایسا مرض ہے جس میں علاج معالجے میں اگر کوتاہی برتی جائے یا عطائیوں یا نا تجربہ کار معالجین سے علاج کرایا جائے تو اس سے انسانی جان کو خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔ علاج اور احتیاط کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس کی بیماری سے متعلق شعور اور آگہی اس میں کمی کا ایک موثر ذریعہ ہے۔پاکستان کی آبادی کا5 سے 7 فیصد اس موزی مرض میں مبتلا ہے،ضروری ہے کہ ہم اس بیماری سے متعلق اہم اور مفید معلومات سے آگاہ ہوں ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس اے کے 14لاکھ، ہیپاٹائٹس بی کے 2 ارب اور ہیپاٹائٹس سی کے 15 کروڑ سے زائد مریض ہیں اور اس مرض سے سالانہ دس لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں اور اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں دو کروڑکے لگ بھگ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔آلودہ پانی اور ناقص خوراک ہیپا ٹائٹس اے اور ای کے پھیلنے کی بڑی وجہ ہے۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی غیرتصدیق شدہ انتقال خون ،آلودہ آلاتِ جراحی،استعمال شدہ سرنجوں اور استرے وغیرہ سے پھیلتا ہے۔ اس کے علاوہ غیر محفوظ جنسی تعلقات اور ماں سے بچے میں بھی یہ مرض منتقل ہو سکتا ہےجبکہ بعض اوقات شراب نوشی، کچھ ادویات کا بے جا استعمال یا انسان کے اپنے مدافعاتی نظام کی خرابی بھی اس کا باعث بن سکتی ہےاور کئی دیگر وجوہات سے بھی یہ مرض پیدا ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ سے زائد افراد ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے مرض کا شکار ہیں۔اس مرض کے متعلق آگاہی پھیلانے اور عوام میں اس مرض کا بر وقت علاج کروانے کا شعور اجاگر کرنے کیلئے ڈاکٹرز کی تربیت بھی ضروری ہے۔ہیپا ٹائٹس کی چار بنیادی اقسام ہیں، A,B,Cاور E ان تمام اقسام میں سے سب سے عام ہیپاٹائٹس سی ہے۔ہمارے ہاں اکثر لوگ اس کا شکار ہیں اور اس مرض کے بڑھنے کی اصل وجہ ہماری لاعلمی ہے۔یہی مرض سب سے زیادہ خطرناک بھی ہے۔ہمیں بالخصوص اس سے بچنے کیلئے تدابیر اختیار کرنا چاہئیں اور اس کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پھیلنے کی وجوہات کا علم ہو اور صفائی کا خاص خیال رکھا جائے اور عطیہ خون لیتے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ خون عطیہ کرنے والا شخص اس مرض میں مبتلا تونہیں۔پاکستان میں اس کے پھیلنے کی بڑی وجہ غیر تصدیق شدہ انتقال خون، استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال ، شیونگ بلیڈ اور گاوں دیہاتوں کے عطائی ڈاکٹر اور عطائی دندان سازہیں۔ہیپاٹائٹس سی اور بی کا علاج ادویات سے ممکن ہے۔ہیپا ٹائٹس سے متعلق مکمل آگہی کیلئے میری پمز ہسپتال اسلام آباداور نجی ہسپتال شفاانٹرنیشنل کے شعبہ امراض معدہ و جگر کے سربراہان اور دوسرے ڈاکٹرز جو ماہرامرض جگر ہیں سے تفصیلی بات چیت ہوئی کہ کیا وجہ ہے کہ یہ مرض دن بدن تیزی سے بڑھ رہا ہے تو اُنکا کہنا تھا کہ بڑی وجہ عوام میں اس مرض سے متعلق آگاہی نہیں ہے، آج بھی لوگ سر درد ہو یا کوئی چھوٹا سا بھی مسلہ ہو عطائیوں سے جاکر ٹیکہ لگواتے ہیں اور فٹ پاتھ پر بیٹھے حجام سے شیو اور دندان ساز سے دانتوں کا علاج کرواتے ہیں، اس سے وہ ہیپاٹائٹس سی جیسے جان لیوا انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس مرض کے لاحق ہونے کا علم انہیں اس وقت ہوتا ہے جب بہت نقصان ہوچکا ہوتا ہے قبل ازیں ہیپاٹائٹس سی کا علاج انتہائی مشکل اور تکلیف دہ تھا، انجیکشن تھراپی کے کئی مضر اثرات تھے،اب یہ علاج انتہائی آسان ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے ہیپاٹائٹس کو ختم کر نے کی صرف ایک صورت ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ تھوڑی سی احتیاط بہت سے علاج سے بہتر ہے۔پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ درست علاج کیلئے درست معالج کا انتخاب کریں اور غیر ضروری ٹیکے لگوانے سے مکمل پرہیز کریں۔ڈاکٹرز نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس کی علامات میں یرقان(آنکھوں کا پیلا اور جلد زردی مائل ہو جانا)،تھکاوٹ محسوس کرنا،معدے میں درد ہونا،زکام لگنا، اسہال،بھوک کا نہ لگنا،بخار اور سردرد وغیرہ شامل ہیں۔ غیر محفوظ آلات سے جسم پر ٹیٹو اور کان یا ناک چھدوانے سے بھی ہیپاٹائٹس سی پھیلتا ہے نوجوانوں کو ان چیزوں سے بھی بچنا چاہیے، عوام میں شعور و آگاہی پیدا کرنے کے حوالے سے صرف حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کو ہی ذمہ داری نہیں بنتی بلکہ ہر طبقہ ہائے زندگی بالخصوص میڈیا کو اس ضمن میں اپنا نہایت فعال کردار ادا کرنا چاہئے اور لوگوں کو یہ بات بتانی چاہئے کہ اس مرض سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔اسکولوں اور کالجوں میں اس مرض کے تدارک کے حوالے سے آگاہی مہم ہونی چاہئیں اور اس کیلئے ویکسی نیشن پروگرام شروع کیے جائیں۔ہیپاٹائٹس اے کی ویکسی نیشن موجود ہوتی ہے جو ہمیں کم عمری میں ہی کروا لینی چاہئے۔ہیپاٹائٹس کے مریض کی زیر استعمال اشیاء استعمال کرنے سے بھی اس مرض کے ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔یہ مرض منشیات کے عادی افراد میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گھر سے باہر ہمیں چاہئے کہ ڈسپوزیبل برتن وغیرہ استعمال کریں تاکہ اس مرض کے خطرات کم سے کم رہیں۔اس مقصد کیلئے 6 سے 12 ماہ کے عرصہ میں تین انجیکشن لگائے جاتے ہیں تاکہ مکمل حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔اس سارے معاملے میں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہیپاٹائٹس کی بیماری کو بہت سنجیدگی سے لینا چا ہئیے اور علاج میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس مرض کے علاج کے لیے عطائیوں ، غیر مستند اور غیر رجسٹرڈ معالجین سے ہرگز علاج نہیں کرانا چاہئیے کیونکہ اس طرح مرض کے مزید بگڑ جانے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔عالمی سطح پراس مرض کے خاتمے کیلئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے2030تک دنیا سے ہیپاٹائٹس سی کے خاتمے کا پروگرام بنایا ہےانکی کوششوں میں بھی شامل ہوکرہم وطن عزیز سے اس مرض کا مکمل خاتمے کے ساتھ عالمی کوششوں میں شرکت کو بھی یقینی بناسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے