امامیہ آرگنائزیشن پاکستان گلگت ڈویژن نے اسلامی شعائر کے تحفظ، فحاشی، ثقافتی یلغار، معاشرے میں منشیات کے روک تھام اور غیر معیاری اشیائے خوردنوش پر ایک فکری و علمی نشست کا اہتمام کیا تھا۔ اس فکری نشست میں گلگت بلتستان کے اہل فکر و دانش، اساتذہ کرام، صحافی اور معاشرے کے خواص کو دعوت دی گئی تھی کہ اپنے خیالات کااظہار کریں اور موثرتجاویز پیش کریں۔
اس علمی و فکری نشست میں امام جمعہ والجماعت آغا راحت حسین، مساجد بورڈ اہلسنت راجہ نثار ولی، صدر انجمن امامیہ مظفر عباس، انجمن امامیہ گلگت کے ریجنل ناظم محمد حسین،اسماعیلی بوائے سکاؤٹ ایسوسی ایشن کے عمران حسین میر، سینئر صحافی محمد عیسیٰ حلیم، شمشاد حسین، جنرل سیکریٹری انجمن تاجران مسعود الرحمن، سیڈو کے ضلعی کوآرڈینیٹرزوہیب، ڈاکٹر انصار مدنی، غلام اصغر شمسی، رحمت علی، ڈاکٹر قمر، عوامی ایکشن کمیٹی کے نائب صدر فدا حسین، شمشاد حسین، عوامی ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکریٹری یعصب الدین، سمیت بڑی تعداد میں اہل علم نے شرکت کی۔
علمی و فکری نشست میں اس بات پر اتفاق پالیا گیا کہ گلگت بلتستان میں ان برائیوں کی روک تھام کے لئے سماجی سطح پر تنظیم بنانے کی ضرورت ہے، اس بات کا بھی فیصلہ کرلیا گیا کہ اس طرز پر علمی و فکری نشستوں کو پھیلایااور بڑھایاجائیگا تاکہ معاشرے کے دیگر طبقات تک اس کی آواز پہنچ جائے۔
نشست میں بطور طالبعلم ٹوٹے پھوٹے خیالات کااظہار کرنے کا موقع ملا جنہیں خبر کی صورت میں آگے نہیں لایا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں پر بڑی شخصیات سے جڑا خطاب موجود ہے۔اسی لئے اسے علیحدہ طور پر نظم کرنے کی سعی کرلی ہے۔جس میں بعض ان کہی باتیں بھی شامل کی ہیں۔
امامیہ آرگنائزیشن گلگت ڈویژن نے جی بی کے سماجی مسائل پر ایک علمی و فکری نشست کا اہتمام کرکے نئی ریت ڈالی ہے، اور یہی اس علمی و فکری نشست کا نتیجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے سوچ فکر رکھنے والے شخصیات ایک پلیٹ فارم پر بڑے تحمل سے ایک دوسرے کو سن رہے ہیں، اور جب تک ایک دوسرے کو سنا نہیں جائیگا کسی مسئلے کے حل کی طرف پیش رفت ممکن نہیں ہے، اس تکثیری صورتحال میں آغا راحت حسین الحسینی کی شرکت اور بردباری سے سنتے رہنا حوصلہ افزائی کا سبب بھی ہے اور سنجیدگی کی علامت بھی ہے (آغا صاحب مہمان خصوصی تھے لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے وہ خطاب نہیں کرسکے اور ناگوار محسوس تک نہیں کیا)گلگت بلتستان ثقافتی طور پر ایک اکائی ہرگز نہیں ہے، جس کی وجہ سے ہر شے کی تعریف و تشریح الگ الگ ہے، بالخصوص گلگت ریجن میں موجود چھ اضلاع کا اپنے اپنے الگ ثقافتی روایات ہیں جن میں بعض مشترک بھی ہیں۔
پھر بعض اضلاع کے اندر ہی متعدد روایات رہی ہیں جس کی وجہ سے ہم کسی بھی شے کی ٹھوس تشریح و تعریف نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کے باوجود مخلوط رقص کا یہ موضوع جو گزشتہ چند سالوں سے سوشل میڈیا کی زینت بنتا آرہا ہے،کسی بھی ضلع کے لئے قابل برداشت نظر نہیں آرہا ہے اور فطری ردعمل کااظہار کیا ہے۔ یہاں پر اس بات کا سِرا ڈھونڈنا از حد ضروری ہے کہ مخلوط رقص اور ثقافتی یلغار کا یہ موضوع مذہبی ہے یا علاقائی ہے۔اگر یہ مسئلہ مذہبی ہے تو ہمیں چاہئے کہ اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی سمیت دنیا بھر میں اسلام کی نمائندگی کرنے والے ممالک کو خطوط لکھ کر اپنی زمہ داریوں سے براء ت کااظہار کریں لیکن اگر یہ علاقائی مسئلہ ہے تو ہمیں اس پر سوچنا پڑے گا اور یقینا یہ علاقائی مسئلہ ہے۔
جس طریقے سے پیشرو مقررین نے بڑی خوبصورتی سے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اپنے بارے میں خود سوچ بوجھ نہیں رکھنے والی قومیں ہمیشہ غلامانہ زندگی گزارتی ہے اور ان کے وسائل پر دیگر بااثر طبقات کا قبضہ ہوتا ہے، اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمارے ارد گرد نظر آنے والے کتنی اشیاء ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں، پانی کا خزانہ قرار دئے جانے والے علاقے کے مقیم ہوتے ہوئے ہم آلودہ پانی استعمال کرتے ہیں، جبکہ اسی (کانفرنس) ہال میں نظر آنے والی پانی کی بوتلوں سے لیکر ٹیشو پیپر تک سبھی درآمد شدہ اشیاء ہیں، تو جب ہمارے ارد گرد نظر آنے والے سبھی اشیاء ہمارے اپنے پیدا کردہ نہ ہوں، گفتگو کے لئے ہم اپنی مادری زبان کا استعمال نہ کریں تو پھر اپنے بارے میں سوچنے کا دعویٰ بھی ایک سیاسی نعرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس وقت جب ملک بھر میں ٹماٹر کی قیمت آسمان کو چھورہی ہے اور قلت پیدا ہورہی ہے تو مضافاتی علاقوں کو گلگت بلتستان کی یاد ستانے لگی ہے اور یہاں سے ’سمگل‘ کرکے ٹماٹر دیگر شہروں تک لے جایا جارہا ہے، قانونی حیثیت کے قطع نظر ایک جنس سے ہماری اپنی قیمت کتنی جڑی ہوئی ہے۔گزشتہ 72سالوں سے تو ہمیں من حیث القوم اس بات کی توفیق نہیں ملی ہے کہ ہم اپنے بارے میں سوچیں جس کی وجہ سے ہمارے بارے میں سوچنے کا کام ’دیگر‘کے کاندھوں پر پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہورہا ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع کا تعلق ہمارے رویوں سے ہیں اور موضوع کو جس شکل میں موڑنا ہے اسی طریقے سے اپنے رویوں میں تبدیلی لانی پڑے گی۔
گلگت بلتستان میں غیر معیاری اشیاء خوردنوش کا موضوع بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے، مشاہدے کی باتیں ہیں کہ آج کے نوجوان بیماریوں میں زیادہ مبتلا ہیں (کانفرنس میں شریک علی محمد صاحب نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاپڑ کھانے والے بچے ماں باپ کے قابو میں نہیں آتے ہیں)۔ اسلام آباد، مانسہرہ اور دیگر مقامات سے آنے والے اشیائے خوردنوش نہ ہمارے سامنے تیار ہوتے ہیں، نہ پیک ہوتے ہیں اور نہ ہی ہمارے سامنے اس پر مہر لگایا جاتا ہے، منافع کمانے کے شوقین بیوپاریوں سے کسی خیر کی توقع تو ویسے بھی نہیں ہے لیکن اس موضوع کا بھی حل وہی ہے کہ ہمیں اپنے مقامی اجناس اور پیداوار میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آخری جو موضوع ہے منشیات کے روک تھام کا، اس میں انتہائی مختصر بات کرتا ہوں کہ یہ موضوع ہماری زمہ داریوں سے جڑا ہوا ہے، معاشرے میں ہر فرد اپنی انفرادی زمہ داریوں کو ادا کریں تو منشیات جیسی لعنت اتنی آسانی سے نہیں پھیل سکتی ہے، قدرت نے جس کو جیسی زمہ داری دی ہے وہ صرف وہی ادا کرے منشیات پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔