جب سیاست اقتدار کا کھیل بن جائے۔ مذہب و نظریہ عصبیت کی علامت ہو۔ صحافت کے پسِ پردہ تجارتی اہداف ہوں۔ ادب آسودہ حال لوگوں کی ذہنی عیاشی کا سامان ہو اور ریاستی ادارے اقتدار کی کشمکش میں فریق بن جائیں تو قوموں کا مستقبل خدشات میں گِھر جاتا ہے۔ کیا ہمیں بھی آج ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے؟
نوجوانوںکا ایک گروہ لال پھریرے اٹھائے، ایشیا کو سرخ بنانے نکلا تو ایک دوسرے گروہ کو یاد آیا کہ ایشیا کو سبز بنانا ان کا نظریاتی وظیفہ تھا۔ انہوں نے اپنے جھنڈے اٹھا لیے۔ نظریاتی سیاست کے عہد میں ظہور کرنے والے قلم کاروںکو اپنی جوانی یاد آئی اور انہوں نے بھی اپنی شمشیروں کو سان پر چڑھا دیا۔ کسی نے ایشیا سے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ خود کیا رنگ اپنانا چاہتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایشیا ان بحثوں سے بے نیاز یک رنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اس لڑائی کو دیکھتے ہوئے مجھے اپنا گاؤں یاد آ گیا۔ یہ ہر گاؤںکی کہانی ہے۔ ایک زمین کے دو دعوے دار ہیں اور نسلوں سے عدالتوں میں مقدمات بھگت رہے ہیں۔ کسی چوپال‘ بیٹھک میں جمع ہوتے ہیں اور تکرار شروع ہو جاتی ہے۔ ایک اپنی چھڑی سے زمین پر لکیر کھینچتا ہے اور دوسرے کو للکارتا ہے کہ یہ میری زمین ہے۔ ہمت ہے تو اس میں قدم رکھ کر دکھا۔ دوسرا اپنی چھڑی لکیر کے اُس طرف رکھتا ہے اور کہتا ہے: لو! میں نے قدم رکھ دیا۔ تم نے جو کرنا ہے، کر لو۔ چند لمحوں میں دونوں دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ کبھی بات بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ سب ایک فرضی زمین پر ہوتا ہے۔ یہ لڑائیاں نسلوں تک چلتی ہیں اور دونوں کو اصل زمین پر قدم رکھنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملتا۔
ایشیا ان گنت تہذیبوں اور مذاہب کا مرکز ہے۔ کوئی دوسرا براعظم ثقافتی اعتبار سے شاید ہی اتنا متنوع ہو۔ یہ تنوع ہی اس کا حسن ہے۔ چین کے سوا شاید ہی کوئی خطہ ہو جس نے اپنی تہذیبی روایت میں کسی جوہری تبدیلی کو قبول کیا ہو۔ اپنی تہذیبی شناخت کی مقدور بھر حفاظت کرتے ہوئے، سب ترقی کے سفر پر روں دواں ہیں۔ اس سفر کا زادِ راہ بھی ایک ہی اور منزل بھی ایک۔ اس راہ میں کوئی نظریاتی پڑاؤ نہیں۔ یہ موجود امکانات کی دنیا میں اپنا حصہ تلاش کرنے کی جدوجہد ہے۔
اہلِ ایشیا کو کسی خاص رنگ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جو کبھی سرخ تھے، اب رنگ بدل چکے۔ جو جتنے سبز تھے، اب بھی اتنے ہی سبز ہیں۔ رنگوں کا انتخاب حالات کرتے ہیں۔ ہر عہد کا اپنا ایک رنگ ہے۔ یہ زندگی کا رنگ ہے۔ اس کا تعلق تہذیبی ساخت سے کم اور بقا کی جبلت سے زیادہ ہے۔ جو یہ راز جان لیتے ہیں، وہ کسی ایک رنگ پر اصرار نہیں کرتے۔ وہ اپنے حقیقی رنگ اور عصری رنگ میں مطابقت تلاش کرتے ہیں۔ یوں اپنی انفرادی شناخت کے ساتھ اپنی بقا کا سامان کرتے ہیں۔ یہ سادہ سا قانونِ قدرت ہے جس کا تعلق اس دنیا کے ساتھ ہے۔ مذہبی پیرائے میں بیان کیا جائے تو یہ سنتِ الٰہی ہے۔
پھر اس سارے قضیے میں کارفرما خوش گمانی دیکھیے کہ جیسے ایشیا کے لیے رنگ کا انتخاب ہم نے کرنا ہے۔ جیسے ایشیا کے مکین ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ یہاں سے کیا فرمان جاری ہوتا ہے۔ ان نعروں کے پس منظر میں کہیں یہ گمان موجود ہے کہ ہم ایشیا کے لیڈر ہیں۔ کوئی پوچھ بیٹھے کہ تم جو ایک قانونی سمری ڈھنگ سے لکھ نہیں سکتے، ایشیا کے لیے رنگ کا انتخاب کیا کرو گے، تو ہم اسے کیا جواب دیں گے؟
یہ ایشیا ہو یا یورپ، بقا کا چیلنج سب کے لیے یکساں ہے۔ ذرا بیسویں صدی کے ابتدائی ماہ و سال پر ایک نظر ڈالیے۔ دنیا سلطنتوں کے دور سے نکل کر قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہو رہی تھی۔ اگر عثمانیوں کی سلطنت خطرات میں گھر گئی تھی تو برطانیہ کی سلطنت بھی قصہ پارینہ بننے والی تھی۔ چیلنج ایک جیسا تھا۔ یورپ نے اِس چیلنج کو قبول کیا اور آگے کی طرف دیکھا۔ مسلمان نشاۃ ثانیہ کے خواب میں الجھ گئے اور احیائے خلافت کے لیے نکل پڑے۔ چند ہی تھے جو یہ جان سکے کہ یہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑی جا رہی ہے۔
مسلمانوں کے دو بڑے گروہ خلافت اور امامت کے حق میں دلائل تراشتے رہے۔ زمانہ ان کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ نئی دنیا جمہوریت اور آئین (Constitutionalism) کی دنیا ہے۔ اب لوگ سیاسی نظم کے لیے ایک نئی طرز کے عمرانی معاہدے کی تلاش میں ہیں۔ تم جن تصورات کے اسیر ہو، وہ عملی افادیت کھو چکے۔ ایران کے علما کو، کسی حد تک، انیسویں صدی میں اس کا ادراک ہو گیا اور اسی کے نتیجے میں 1906ء میں، وہاں قاجار سلطنت کے خلاف ایک آئین کے لیے تحریک برپا ہوئی اور علما اس کا حصہ بنے۔ اس کا منتہا آیت اللہ خمینی صاحب ہیں جنہوں نے ولایتِ فقہیہ کے عنوان سے امامت کی تعبیرِ نو کر دی۔
دوسری طرف مصر اور بر صغیر میں بھی غور و فکر کا عمل شروع ہو گیا۔ علامہ اقبال تحریکِ خلافت سے الگ بیٹھے، خلافتِ عثمانہ کے خاتمے میں چھپے امکانات کو تلاش کر رہے تھے۔ وہ جان چکے تھے کہ اب دنیا جمہوریت اور آئین سازی کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور اگر مسلمانوں کو کوئی سیاسی نظم بنانا ہے تو انہیں بھی انہی خطوط پر سوچنا ہو گا۔ پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک ہے جو قومی ریاست کے تصور پر قائم ہوا اور اس کو ایک ایسی جدید ریاست بنانے کی کوشش ہوئی جو مذہبی شناخت کے ساتھ جمہوریت اور آئین پر مبنی ہو۔
پاکستان اور ایران میں یہ شعوری کوشش کی گئی کہ ان کی مذہبی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے، انہیں جدید جمہوری ریاست بنانا جائے۔ ان دو ممالک کو سنی اور شیعہ مذہبی و سیاسی افکار کی تشکیلِ نو کے مراکز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا مودودی اور خمینی صاحب کی حیثیت مجدد کی ہے۔ مولانا مودودی نے خلافت کی جگہ اسلامی ریاست کے عنوان سے ‘تھیو ڈیموکریسی‘ (Theo-Democracy) کا تصور دیا۔ یہ مذہب اور جمہوریت کا ایک ملغوبہ ہے۔ پاکستان کا آئین اس تعبیر کا نمائندہ ہے۔ خمینی صاحب نے ‘ولایتِ فقیہ‘ کے عنوان سے تصورِ امامت کی جدید تعبیر کی، ایران کا آئین جس کی عملی تعبیر ہے۔ وہاں شورائے نگہبان کے نام سے علما کی بالا دستی قائم کر دی گئی لیکن صدر اور پارلیمان کا انتخاب عوام کے ووٹوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ دونوں تجربات بہت اہم ہیں۔ انہیں مسلمانوں کے فکری سفر میں اہم پڑاؤ کہا جا سکتا ہے؛ تاہم یہ دونوں تعبیرات وقت کی کسوٹی پر پورا نہیں اتر سکیں۔ پاکستان اور ایران، دونوں مقامات پر مذہب و سیاست کی کشمکش کا کوئی ایسا حل تلاش نہیں کیا جا سکا جو دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔ فکری پراگندگی ان دونوں ممالک کے رگ و پے میں اتر چکی۔
اہلِ یورپ نے اس کشمکش کا حل سیکولرازم کی صورت میں ڈھونڈ لیا اور وہ اس پر مطمئن ہو گئے۔ ہمارے مسائل نہ اسلام ازم (Islamism) حل کر سکا اور نہ سیکولرازم ۔ میرا خیال ہے کہ دونوں تصورات کے اسیر اس بات کو سمجھتے ہیں مگر گروہی شناخت یا عصبیت اس کے اعتراف میں مانع ہے۔ اب ایک گروہ نے سرخ پرچم لہرایا تو دوسرے کے ہاں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ یہ بقا کی فطری جبلت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔
زندگی کا سفر ان سب گروہوں سے بے نیاز آگے بڑھ رہا ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بقا کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ کے پاس اس سفر کے لیے زادِ راہ ہو۔ یہ چیلنج سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بیسویں صدی میں عثمانیوں کی سلطنت ہی کو خطرات لاحق نہیں تھے، برطانیہ اور دوسری نوآبادیاتی قومیں بھی خطرات میں گھر گئی تھیں۔ یہ ا علان تھا کہ اب سلطنتوں کا دور ختم ہوا۔
آج بھی دنیا کی اقوام بقا کی جنگ میں مصروف ہیں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ آج زندگی کو درپیش چیلنج کون سے ہیں اور وہ کیسے ان کا سامنا کر سکتی ہیں۔ دوسری طرف ہماری ترجیحات کیا ہیں: کوئی ایشیا کو سرخ بنا رہا ہے اور کوئی سبز۔ اصل چیلنج کا شعور کہیں نہیں ہے۔ یہ سیاست میں ہے نہ مذہب میں۔ صحافت میں ہے نہ ادب میں۔ سماج میں ہے نہ ریاست میں۔ ایشیا کے رنگ سازوں کو پہلے خود یک رنگ بننا ہو گا۔ یہ مکالمے سے ہو گا، محاذ آرائی سے نہیں۔ اور ہاں، یہ مذہب کا کم اور عقل کا مسئلہ زیادہ ہے۔