یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ قومی اسمبلی کے ، جہاں بہت سے نہ بکنے والے ، نہ جھکنے والے ، کردار کے غازی اور بے داغ ماضی اکٹھے تشریف فرما ہوتے ہیں ، ایک دن کے اجلاس پر اوسطا اس غریب قوم کو چار سو لاکھ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں ۔ سوال یہ ہے اتنے بھاری رقم خرچ کرنے کے بعد کیا کوئی ایسا فورم موجود ہے جہاں عوام یہ سوال پوچھ سکیں اے نیک بختو ! اتنے پیسے برباد کرنے کے بعد ذرا بتائو تو سہی تمہاری کارکردگی کیا ہے؟
آج بھی ، جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں ، قومی اسمبلی کا اجلاس تھا ۔ کیا آپ کو معلوم ہے آج اس مقدس ایوان میں کیا ہوا ؟ جب اجلاس شروع ہوا تو صرف 13 فیصد معزز اراکین حاضر تھے ۔ 87 فیصد حضرات غیر حاضر تھے۔ کسی اور محکمے میں حاضری کا یہ عالم ہو تو ایک منٹ میں شوکاز نوٹس جاری ہو جائیں لیکن یہ منتخب نمائندے ہیں ، ان کے بارے میں ایسا سوچنا بھی ان کا استحقاق مجروح کر سکتا ہے اور جب کسی معز رکن کا نازک مزاج استحقاق مجروح ہوتا ہے تو تہہِ خاک گویا قیامت سی آ جاتی ہے۔
اجلاس شروع ہونے کا وقت دن گیارہ بجے تھا لیکن یہ قریبا نصف گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا ۔ کوئی عام آدمی دفتر میں پانچ منٹ تاخیر سے جائے تو حاضری رجسٹر اٹھا لیا جاتا ہے اور اس کی غیر حاضری مارک کی جاتی ہے لیکن یہ قوم کے نمائندے ہیں ، قانون سے بالاتر ہیں اس لیے ان سے کوئی قانون سوال نہیں پوچھ سکتا کہ مہاراج پابندی وقت سے کیا آپ کی جمہوریت کو تپ دق ، تشنج ، کالی کھانسی اور دیگر مہلک امراض لا حق ہونے کا خطرہ ہے؟
خیر اجلاس شروع ہوا، بھلے تاخیر سے ہی سہی ۔ لیکن کسی نے کورم کی نشاندہی کر دی ۔ معلوم ہوا کورم پورا نہیں ۔ چنانچہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا قومی اسمبلی کے رولز آف بزنس کی دفعہ 5 کے مطابق قانون یہ ہے کہ ایک چوتھائی سے کم اراکین موجود ہوں تو کورم ٹوٹ جاتا ہے ۔ جب کوئی اس بات کی نشاندہی کر دے تو پانچ منٹ گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں لیکن پھر بھی ایک چوتھائی اراکین حاضر نہ ہوں تو کورم ٹوٹ جاتا ہے اور اجلاس ملتوی ہو جاتا ہے۔ جس وقت کورم ٹوٹنے کی نشاندہی ہوئی اس وقت قومی اسمبلی میں 21 فیصد اراکین موجود تھے۔ چنانچہ ریگولر بزنس کا کوئی ایک نکتہ زیر بحث لائے بغیر اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
اجلاس میں 34 عدد Starred questions کا جواب آنا تھا۔ صرف ایک پر بات ہو سکی باقی ایسے ہی رہ گئے۔ یہ Starred question کیا ہوتا ہے، یہ بھی جان لیجیے۔
یہ وہ سوالات ہوتے ہیں جو متعلقہ وزارتوں اور اداروں کو بھیجے جا چکے ہوتے ہیں اور ان پر پوری کارروائی کی جا چکی ہوتی ہے اور اس روز ان کا جواب اسمبلی میں دیا جانا ہوتا ہے۔ دس بیس محکموں کے ساٹھ ستر افسران اور عملہ ان سوالات کے ساتھ حاضر ہوا ہوگا ۔ وزارت برائے پارلیمانی امور کے کتنے ہی لوگوں کی ڈیوٹی لگی ہو گی کہ اجلاس ہو رہا ہے آپ نے فلاں فلاں کام کرنا ہے۔ اسمبلی کا اپنا سٹاف الگ ہو گا۔ دیگر متعلقہ محکموں کے لوگ آئے ہوں گے۔ رینجرز اور پولیس تعینات ہوئی ہو گی۔ کیا اودھم مچا ہو گا تب جا کر یہ اجلاس منعقد ہوا ہو گا۔ لیکن ہوا کیا؟ صرف ایک سوال پر تھوڑی سی بحث اور اجلاس ملتوی۔
خرچہ تو غریب عوام کا ہو رہا ہے جن کی رگوں سے پیسے نکالے جا رہے ہیں۔ اراکین کا کیا جاتا ہے۔ ان کے تو اجلاس سے تین دن پہلے اور تین بعد کے ایام بھی حاضری شمار کیے جاتے ہیں ۔ یہ بھلے پارلیمان میں آئیں یا نہ آئیں ان کے بہترین رہائش ہر وقت موجود ہے ، آنے جانے کے خرچے بھی ریاست کے ذمے ہیں ۔ ائر ٹکٹ ملتے ہیں ، ریل کے مفت پاسز ہیں ، پٹرول کی مد میںپیسے ہیں ، فون الائونس ہے اور جانے کیا کیا کچھ ہے۔ یہ آئیں یا نہ آئیں ، آئیں تو کوئی قانون سازی کریں یا محض ایک دوسرے کو لعن طعن کر کے چلے جائیں ان کی مراعات کا چشمہ کبھی خشک نہیں ہوتا ۔ عام آدمی چاہے کتے کے کاٹے کی ویکسین کی عدم دستیابی سے مر جائے ان کی دہلیز پر سارے لوازمات فراہم کیے جاتے ہیں۔ کیا ان سے یہ سوال نہیں ہونا چاہیے کہ چار سو لاکھ برباد کر کے کیا اس لیے اجلاس منعقد کیا تھا کہ آپ نازو ادا سے اسے ملتوی کر کے گھروں کو لوٹ جائیں؟
آپ کسی سیشن کی تفصیلات اٹھا کر دیکھ لیجیے ۔ 70 سے 80 فیصد اراکین قومی اسمبلی کی کارروائی سے یکسر لاتعلق رہتے ہیں ۔ کیا دنیا میں اس عیاشی کا کوئی تصور موجود ہے کہ ایک ادارے کے ستر سے اسی فیصد راکین غیر حاضر ہوں یا تشریف لائیں تو کارروائی میں کبھی حصہ تک نہ لیں اور پھر بھی اس ادارے کے اخراجات برداشت کیے جاتے رہیں۔ اور اخراجات بھی کتنے؟ قریبا چار سو لاکھ یومیہ ۔ کیا اس قوم کے ساتھ اس سے بھیانک مذاق بھی کیا جا سکتا ہے؟
جو بھی وزیر اعظم بن جاتا ہے وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں تشریف لانا اپنی توہین سمجھتا ہے۔دنیا کا کوئی ادارہ بتا دیجیے جس کی کارکردگی کا عالم یہ ہو اور اس کے ناز نخرے ختم ہونے میں ہی نہ آ رہے ہوں۔ اسمبلی میں ڈھنگ کا کوئی کام نہیں کرنا تو یہ لوگ اسمبلی کا رکن ہی کیوں بنتے ہیں؟ کوئی ایسا بندو بست کیوں نہ کیا جائے کہ محنتی، مخلص اور قابل لوگ ایوان میں آ سکیں جو عوام کے سنجیدہ مسائل پر سنجیدہ گفتگو اور قانون سازی کر سکیں۔
اسمبلیاں موجود ہیں لیکن صدارتی آرڈی ننسوں سے کام چلایا جاتا ہے ۔ ایسے میں سوال تو اٹھے گا کہ قانون سازی بھی صدر محترم کے آرڈی ننس کے ذریعے ہونی ہے تو ان اسمبلیوں کے خرچے قوم کیوں برداشت کرے؟
گورنر کا منصب ہے ، آج تک معلوم نہیں ہو سکا اس عہدے کی افادیت کیا ہے اور دور غلامی کی یادگار اس سفید ہاتھی کو پالنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی عالم صدر کے عہدے کا ہے۔ چار گورنر اور ایک صدر ، کبھی حساب تو لگائیے ان پر کتنا خرچ آتا ہے اور ان کی کارکردگی کیا ہے؟یہ آخر کرتے کیا ہیں؟
الم کشو خود بھلے نہ اٹھو ، سوال تو اٹھاؤ۔