’’قصّہ حضرت نوح ؑکا‘‘

ہماری ثقافت یعنی اردو اور فارسی کی ثقافت ایک لاجواب خزینہ معلومات ہے۔ خاص طور پر فارسی زبان کے ماہر ادیب مثلاً عمر خیام (رباعیات)، حضرت شیخ سعدی ؒ (گلستان و بوستان) اور مولانا جلال الدین رومیؒ (مثنوی رومی) نہ صرف ایران، پاکستان، ہندوستان میں بے حد مشہور ہیں بلکہ ان کے کلام کے ترجمے لاتعداد غیرملکی زبانوں میں ہوئے ہیں۔ مولانا رومیؒ کی مثنوی سب سے زیادہ مشہور ہوئی ہے اور اس کے 26ہزار سے زیادہ اشعار بے حد پسند کئے گئے ہیں۔ میں اکثر وبیشتر یا وقتاً فوقتاً رومیؒ اور سعدیؒ کے کلام پر کالم لکھ دیتا ہوں وجہ یہ ہے کہ ہمارے لاتعداد لوگ بلکہ اکثریت کی اس کلام تک رسائی نہیں ہے۔ آئیے آج آپ کو رومیؒ کی زبان میں حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ سناتے ہیں۔

حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹے کو بلانا۔ اور اس کا سرکشی کرنا کہ میں پہاڑ پر چڑھ جائوں گا۔ تدبیر کروں گا لیکن تیرا احسان نہ اٹھائوں گا۔ حضرت نوح علیہ السلام کا فرمانا کہ قہر کی ہوا کے مقابلے میں ہاتھ پیر کام نہ آئینگے۔حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا خبردار! اے ذلیل! آجا! اپنے باپ (اپنے مرشد) کی کشتی میں بیٹھ جا۔ تاکہ طوفان میں نہ ڈوبے۔ اس نے کہا نہیں میں نے (بحر معرفت میں) تیرنا سیکھا ہے۔ میں نے تیری شمع (حق) کے علاوہ شمع (روح) کرلی ہے۔ (انہوں نے کہا) خبردار! ایسا نہ کر (مظہر حق کو نہ چھوڑ) یہ زبردست قہر کا طوفان ہے۔ (آغوش وحدت میں آیا) آج کے دن تیرنے کے لئے ہاتھ پیر (ذکر اذکار) کچھ کام نہ آئیں گے۔ یہ قہر (واحد القہار) کی ہوا ہے۔ شمع (انفرادیت) بجھانے والی بلا ہے چپ ہوجا! آج شمع حق کے علاوہ کوئی شمع نہ ٹھہرے گی۔ اس نے کہا نہیں میں اس بلند پہاڑ پر چڑھ جائوں گا۔

(مقام بوالبشر) وہ پہاڑ (اعتماد خودی) مجھے ہر مصیبت سے بچانے والا ہے۔ (حضرت نوح ؑ نے کہا) خبردار! یہ نہ کر۔ اس وقت پہاڑ (تختہ صفات) تنکا ہے۔ وہ حق اپنے دوست (عاشق ذات) کے علاوہ کسی کو پناہ نہ دے گا۔اس نے کہا (میں صاحبِ قوت ہوں) کہ میں نے تمہاری نصیحت کب سنی ہے کہ تمہیں یہ لالچ ہوگیا کہ میں خاندانی سہارا لوں گا۔حضرت نوح علیہ السلام نے کہا خبردار! ا ے بابا یہ بات نہ کر۔ (اپنی شان دکھانے) ناز کا دن نہیں ہے۔ (کہ تو جانے خدا جانے) خدا کا کوئی رشتہ دار اور شریک نہیں ہے۔ تو نے اب تک ناز کیا ہے (کہ خدا نے تجھے نوازا ہوا ہے) اور یہ نازک وقت ہے اس دربار میں کسی کو ناز کا حق کب ہے۔ اس ذات واحد کے نہ بیٹا پیدا ہوا۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ وہ ازل سے ہے اور وہ نہ باپ رکھتا ہے اور نہ بیٹا، نہ چچا وہ (بے نیاز) اولاد کا ناز کب برداشت کرے گا۔

وہ باپوں کا راز کہاں سنے گا۔ اس نے کہا اے ابا! تم نے تو سالہا سال یہ باتیں کہی ہیں۔ تمہاری اس بے اثر بات نے میرے کانوں پر بھی اثر نہیں کیا ہے۔ خصوصاً اب جب کہ میں عقلمند ار اور بڑا ہوگیا ہوں۔ جسمانی روحانی (طاقت کا مالک ہوں)۔حضرت نوح نے فرمایا۔ بابا آخر کیا حرج ہوگا۔ اگر ایک بار تو باپ کی نصیحت ہی مان لے۔ وہ اسی طرح مشفقانہ نصیحت کرتے رہے مگر وہ اسی طور پر (اپنی خود اعتمادی کے زور پر) سختی سے انکار کرتا رہا۔ نہ تو باپ کا کنعان کو نصیحت کرنے سے پیٹ بھرا۔ (کہ معیت ِ ذات میں اپنے کو ختم کردو) نہ کوئی بات اس برباد حال (کشتۂ انانیت) کے کان میں اثر کر سکی وہ اسی گفتگو میں تھے کہ تیز موج نے کنعان کے سر پر ضرب لگائی (رشتہ وحدت ذات ٹوٹا) اور وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔

نوح علیہ السلام نے عرض کی! اے بردبار بادشاہ! میرا گدھا مرا اور تیرا سیلاب میرا سامان بہا لے گیا۔ تو نے مجھ سے بار بار وعدہ کیا تھا کہ تیرے اہل خانہ طوفان سے نجات پائیں گے مجھ سلیم الطبع نے تیری امید پر بھروسہ کیا۔ پھر طوفان میری کملی کیوں بہا لے گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ تیرے اہل اور اپنوں (صالحین) میں سے نہ تھا۔ تو نے خود سفید کو نیلے سے الگ نہ رکھا۔ جب تمہارے دانت میں کیڑا لگ گیا تو وہ دانت نہیں کہلا سکتا۔ اے استاد اس کو اکھاڑ دو۔ تاکہ باقی جسم اس سے کمزور نہ بنے۔ اگرچہ وہ تیرا تھا لیکن تو اس سے بیزار ہو جا۔(حقیقت واضح ہوئی تو حضرت نوح علیہ السلام نے) عرض کی کہ میں تیری ذات کے غیر سے بیزار ہوں۔ البتہ جو تجھ میں فنا ہوگیا۔ وہ تیرا غیر نہ ہوگا۔ تو جانتا ہے کہ میرا تجھ سے کیا تعلق ہے۔

یہ اس تعلق سے بیس گنا ہے جو پیاسے چمن کو بارش سے ہے میں ایک محتاج تجھ سے زندہ تجھ سے خوش ہوں۔ بغیر کسی واسطے کے اور درمیان والے کے تجھ سے روزی پانے والا ہوں اے (خداوند) کمال (یہ تجھ سے واصل ہونے کا تعلق ہے) وہ نہ تجھ سے متصل (یعنی جڑے ہونے کی بات ہے) نہ منفصل (جدا) ہونے کی بلکہ یہ (واصل ہونا) بے مثل،بے علت، بے نشان ہے۔ کیاعاشق رات دن کبھی کھنڈروں سے کبھی کوڑے کی ڈھیریوں سے مخاطب ہو کر باتیں نہیں کیا کرتا۔ بظاہر اس کا کھنڈروں کی طرف رخ ہوتا ہے۔ لیکن وہ کس سے بات کرتا ہے یا کس کی تعریف کرتا ہے(سوائے محبوب کے) شکر ہے کہ اب تونے طوفان بھیج دیا۔ کھنڈروں (بے بہرہ انسانوں) کا واسطہ بھی اٹھا دیا (کہ براہ راست بات ہو) وہ کھنڈر (خلقت) کمینے اور خراب تھے۔

نہ وہ بات کرتے تھے نہ صدائے بازگشت ان سے آتی تھی۔ میں خطاب کرنے کے لئے ایسے کھنڈر (مخاطب لوگ) چاہتا ہوں۔ جو پہاڑ کی طرح صدائے بازگشت سے جواب دیں۔ تاکہ میں تیرا نام (ان کی بازگشت سے) مکرر سنوں۔ حق نے فرمایا اے نوح علیہ السلام اگر تو چاہے تو سب کو ازسر نو زندہ کردوں۔ مٹی سے نکال لوں کنعان کی وجہ سے میں تیری دل شکنی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن تجھے حالات سے آگاہ کرتا ہوں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کی نہیں نہیں۔ میں راضی ہوں کہ اگر تیری مرضی ہو تو مجھے یہیں ڈبو دے چاہے تو ہر وقت مجھے ڈبو تا رہ میں تیری مرضی میں خوش ہوں۔ تیرا حکم میرے لئے جان ہے اور میں جان کی طرح اس کو عزیز رکھتا ہوں۔ میں (تیرے سوائے) کسی کو نہیں دیکھتا ہوں اور اگر دیکھوں بھی تو وہ ایک بہانہ ہو گا۔ تو ہی میرے پیش نظر ہوگا۔ میں صبر و شکر کے ساتھ تیرے (کاریگری عالم کن کے) کام کا عاشق ہوں۔

(مثنوی رومی ترجمہ بشکریہ اسکواڈر ن لیڈر (ر) ولی الدین المعروف حضرت ولی بھائی (مرحوم))

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے