جمعرات کو میرے خدشات کی تصدیق ہو گئی۔
برادرِ عزیز سلیم صافی کے دفتر میں چند دوستوں کا اکٹھ ہوا کہ ہمارے محدود حلقہ احباب کے ایک رکن ڈاکٹر حسن الامین امریکہ کے لیے پا بہ رکاب تھے۔ خیال ہوا کہ کچھ وقت ایک ساتھ گزار لیا جائے۔ اسی دوران میں نوجوانوںکا ایک وفد بھی وہاں آ پہنچا جس کے دم سے نئی نسل میں ایک ارتعاش اور گھٹن زدہ ماحول میں زندگی کے آثار پیدا ہوئے۔ ان نوجوانوں سے مل کر، ان خدشات کی تصدیق ہو گئی جن کا میں گزشتہ کالموں میں اظہار کر چکا۔ یہ کہنا بھی شاید غلط نہ ہو کہ میرے خدشات میں اضافہ ہو گیا۔
یہ نوجوان سرخ انقلاب کے کسی تصور سے واقف نہیں تھے۔ اشتراکی تصورات سے نہ اشتراکی ریاستوں کی تاریخ سے۔ یہی نہیں، یہ معاصر سیاسی اور صحافتی منظر نامے سے بھی پوری طرح بے خبر تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ اخبارات میں ان کے بارے میں کیا لکھا جا رہا ہے اور لوگ کس رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ سرخ رنگ، انہیں محسوس ہوا کہ ان کے جذبات کی علامت بن سکتا ہے تو انہوں نے لال لال لہرا دیا۔ یوں میرے اس خدشے کی تصدیق ہو گئی کہ یہ کوئی سنجیدہ فکری تحریک نہیں، معاشرتی گھٹن کا ردِ عمل ہے۔
میرے خدشات میں اگر اضافہ ہوا تو دو اسباب سے۔ ایک یہ کہ از کارِ رفتہ سرخ انقلابیوں کی باسی کڑھی میں ابال آیا اور انہوں نے خیال کیا کہ ان نوجوانوں کو مزید ابھارا جائے اور ان کے کندھے پر رکھ کر نظریاتی بندوق چلائی جائے۔ ان کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے بھی انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ٹھانی۔ ان نوجوانوں نے بتایا کہ بلاول بھٹو سمیت کتنے ہی سیاست دان ہیں‘ جنہوں نے انہیں ملاقات کی دعوت دے رکھی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں سرخ انقلاب کے داعی کب کے تائب ہو چکے۔ زبانِ قال سے وہ اس کا اظہار اگر نہ کریں تو زبانِ حال سے یہی کہہ رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی شہادت یہ ہے کہ جس قوت کے خلاف یہ انقلاب کے لیے نکلے تھے، انہوں نے بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کی چاکری قبول کر لی۔ یہ بقا کی جبلت کا تقاضا تھا۔ یہ سرخ انقلاب کے نقیب ہوں یا سبز انقلاب کے، آج کسی کے پاس، اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خدمت گار کا کردار قبول کر لے۔
طارق علی اور پروفیسر خورشید احمد کو اگر میں سرخ اور سبز انقلاب کی علامت قراردوں تو یقیناً غلط نہ ہو گا۔ دونوں برسوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام اگر آسودگی کے ساتھ گزارے جا سکتے ہیں تو یہ سرمایہ دار مغرب کے علاوہ کہیں اور ممکن نہیں۔ آج بھی دونوں اپنے اپنے افکار پر سختی سے قائم ہیں اور ان کے لیے دیانت داری سے کام کر رہے ہیں۔ دونوں کو اگر اس مقصد کے لیے کہیں سازگار ماحول مل سکا تو برطانیہ ہے۔
پاکستان میں رہنے والے سرخ انقلابی، وہ سیاست میں ہوں یا صحافت میں، کب کے ان نظریات سے تائب ہو چکے جن کو آڑ بنا کر یہ آج نوجوانوں کو ابھار رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے سیاسی و معاشی تصورات میں کوئی فرق نہیں۔ وہی کھلی منڈی کی مارکیٹ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت۔ ماضی میں ایک بائیں اور دوسری دائیں بازو کی علامت تھی۔ سول سوسائٹی میں متحرک لوگوں کو دیکھ لیں۔ سول سوسائٹی کے تصور نے اسی سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ ان کی اکثریت ماضی میں سرخ انقلاب کے خواب دیکھتی اور دکھاتی تھی۔
آج یہ سب لوگ ان نوجوانوں کے جلسوں میں جمع ہو رہے ہیں اور خود کو ان کی سرپرستی کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے اگر یہ اپنے نظریات میں اتنے ہی مخلص تھے تو انہوں نے مشکل حالات میں اس پرچم کو کیوں نہیں تھاما؟ واشنگٹن کی بیعت کیوں کی؟ اگر وہ اسے ایک ناکام مہم سمجھتے ہیں تو ان نوجوانوں کو نصیحت کیوں نہیں کرتے؟ ان کو ایک ایسے راستے پر کیوں چلانا چاہتے ہیں‘ جس کی منزل نامعلوم ہے؟ گزشتہ تین عشروں میں، ڈاکٹر لال خان کے علاوہ مجھے کوئی سرخ انقلاب کا پرچم بردار دکھائی نہیں دیا۔
میرا دوسرا خدشہ ریاستی اور حکومتی ردِ عمل سے متعلق ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہے کہ گنتی کے ان بے ضرر نوجوانوں سے ریاست اور حکومت خوف زدہ کیوں ہیں؟ یہ نہ تو کھیلن کو چاند مانگ رہے ہیں اور نہ ریاست کے لیے چیلنج بن رہے ہیں۔ ان کے چند معصومانہ سے مطالبات ہیں‘ جنہیں ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔ میں نے ان نوجوانوں سے چند بینرز کے بارے میں پوچھا‘ جو ان کے اجتماع میں دکھائی دیے۔ جیسے آئین کی دفعہ 295 c کے خاتمے کا مطالبہ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا کوئی بینر نہیں اٹھایا‘ کسی نے فوٹو شاپ سے ان کے مظاہرے کا حصہ بنا دیا۔ اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہاں انہوں نے بلوچستان کی نمائندگی کے لیے کسی کو تقریر کے لیے کہا۔ اس نے جو کچھ کہا، اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
میں اس سے یہ سمجھ سکا ہوں کہ ایک طرف یہ نوجوان فکری پراگندگی میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف کچھ افراد اور گروہ ہیں جو انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یہ اچھا لگا کہ ان نوجوانوں کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ کچھ لوگ انہیں اپنے ایجنڈے کیلئے چارہ بنانا چاہتے ہیں اور وہ اب ایسے لوگوں سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے ملاقات کے لیے بلایا لیکن وہ نہیں گئے۔ یہ بھی اسی کا اظہار ہے۔
میری تشویش مگر ریاستی ردِ عمل کے بارے میں ہے۔ کہیں بغاوت کے مقدمات بن رہے ہیں اور کہیں وفاقی وزیر للکار رہے ہیں کہ اس ملک میں صرف ایک پرچم، پاکستان کا پرچم لہرائے گا۔ میں محترم علی محمد خان صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر اس ملک میں ایک ہی پرچم لہرانا ہے تو تحریکِ انصاف کے جلسوں میں دوسرا پرچم کیوں اٹھایا جاتا ہے؟ کیا یہ حب الوطنی کے خلاف نہیں؟ جو ریاست اور حکومت اتنے چھوٹے سے مسئلے کو قومی سلامتی کا مسئلہ بنا دے، وہ کسی حقیقی بڑے چیلنج کا سامنا کیسے کرے گی؟
معاشروں اور حکومتوں میں فکری اختلاف ہوتا ہے اور سیاسی و سماجی بھی۔ اس تنوع کو معاشرے اپنی قوت سمجھتے ہیں اور ہر مسئلے کو قومی مفاد اور سلامتی سے نہیں جوڑتے۔ پاکستان میں جو اختلاف کی جسارت کرتا ہے، اسے بلا تاخیر ریاست مخالف کیمپ میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ لاکھ کہتا رہے کہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں مگرکوئی مان کر نہیں دیتا۔ ان نوجوانوں کا مسئلہ تو میں نے بتا دیا کہ محض گھٹن ہے۔ اگر کوئی سنجیدگی سے سرخ جھنڈا اٹھاتا ہے تو اس کو بھی یہ حق ملنا چاہیے۔ اس سے ریاست یا حکومت کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
ان معاملات میں اربابِ اقتدار کو جنرل ضیاالحق سے سیکھنا چاہیے۔ جی ایم سید صاحب نے کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ”اب پاکستان کو ٹوٹ جانا چاہیے‘‘۔ جنرل ضیاالحق خوف زدہ نہیں ہوئے۔ ان کو جواباً پھول بھجوائے۔ آج سید صاحب اور ان کی تحریک‘ دونوں قصہ پارینہ بن چکے۔ ریاستیں اگر اس طرح خوف کا شکار ہونے لگیں تو ردِ عمل میں غلطی کرتیں اور اپنے مخالفین میں اضافہ کرتی ہیں۔ کامیاب ریاست وہ نہیں ہوتی جو طاقت استعمال کرتی ہے۔ کامیاب ریاست وہ ہوتی ہے جو مخالفین کے خلاف طاقت کا بھرم قائم رکھتی ہے۔ یہ معاملہ تو کسی ریاست مخالف کا بھی نہیں ہے۔
یہ ہمارے اپنے بچے ہیں جو اپنے بڑوں سے شکایت کر رہے ہیں۔ آج ان نوجوانوںکو اندازہ ہو چلا ہے کہ کون انہیں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ انہیں یہ بھی احساس ہے کہ انہیں خود کو تعلیمی اصلاحات اور تعلیمی اداروں کی بہتری تک محدود رکھنا ہے۔ اگر وہ ایسا کر تے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ رہا لال لال تو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ کل سفید بھی ہو سکتا ہے۔ یہ نظری ہو یا سیاسی، اختلاف کو دشمنی میں بدلنے کا رویہ اب بدلنا چاہیے۔ اسی میں ہم سب کا بھلا ہے۔ سرخ ہو یا سبز، یہ جھنڈے ہمارے اپنے بچوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ہم نے انہیں سکھانا ہے کہ اختلاف کا اظہار کیسے کیا جاتا ہے۔ رہا فکری راستہ تو انہیں انتخاب کا حق ملنا چاہیے۔