وکلاء کی جانب سے آج کی ایپی سوڈ ذرا زیادہ شدید تھی اس لیے میڈیا ہائپ بن گئی ہے اور فوراً وزیر اعظم نے بھی نوٹس لے لیا ورنہ وکلاء کے لیے تشدد اور دھونس تو معمول کی بات ہے۔ پولیس اہلکاروں کو تھپڑ مارنے ، ججوں کو کمروں میں بند کر کے زد و کوب کرنے کے کتنے ہی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
پنجاب میں معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ دیہی پس منظر کے بہت سے لوگوں کی ترجیح ہوتی ہے کہ خاندان کا ایک لڑکا وکیل ضرور ہونا چاہیے۔ عموماً جن لوگوں کی زرعی زمینیں ہیں اور وہ مسلسل تنازعات میں مصروف رہتے ہیں ، وہ لازمی طور پر "گھر کا وکیل” بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لڑکا وکیل بن کر کچہری سے لائسنس لیتے ہی خود کو دادا گیری کا لائسنس ہولڈر بھی سمجھنے لگتا ہے۔
وکیل بننے کے بعد قطع نظر اس بات کے کہ وہ قانون کی فہم کے اعتبار سے کتنا کامپیٹنٹ ہے ، اسے کمیونٹی کی زبردست حمایت حاصل ہو جاتی ہے۔ پھر وہ خود کو بالکل بھی بے خوف محسوس کرنے لگتا ہے ۔ کسی ٹریفک اہلکار سے بھی تنازع ہو جائے تو منٹوں میں کمیونٹی کے درجن بھر لوگوں کی کمک اسے مل جاتی ہے اور پھر یہ سب قانون دان مل کر قانون کو اس کی اوقات دکھاتے ہیں۔
وکلا کی کمیونٹی میں استثنائی مثالیں بھی کافی ہیں۔ بڑے نمایاں قانون کے ماہرین بھی ہیں اور ان میں سے کچھ شہرت کی بلندیوں پر بھی فائز ہیں لیکن جب بھی وکلاء گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو یہ لوگ چُپ سادھ لیتے ہیں۔ پاکستان کے بڑے وکلاء نے آج کے افسوس ناک واقعے پر مکمل سکوت اختیار کیا ہوا ہے ۔دن کو ٹی وی چینلز کے لاہور کے دفاتر میں کارڈیالوجی پر بلوے کے دوران رائے/بیپر لینے کے لیے قانون دانوں کی ڈھنڈیا مچی ہوئی تھی ۔ کوئی سینئر وکیل اس واقعے پر گفتگو کے لیے میسر نہ تھا۔ قانون اور انصاف کی بات کرنے والے ان بزرگ وکلاء کی خاموشی کو کیا کہا جائے۔
ینگ ڈاکٹرز کا معاملہ بھی کافی الجھا ہوا ہے ۔ یہ دراصل کئی دن پرانا جھگڑا ہے ۔ ایک وکیل کے رشتہ دار مریض کی ٹریٹمنٹ سے یہ معاملہ شروع ہوا۔ وکیل ہسپتال کے عملے سے مطمئن نہیں تھا۔ اس پر تنازع ہوا، وکیل کی کمک دوائی لینے کے بہانے ہسپتال پہنچی ، لڑائی ہوئی، اس وقت ینگ ڈاکٹروں کا پلہ البتہ بھاری رہا۔ ینگ ڈاکٹروں کے ایک رہنما نے بعد میں ایک مجمع کے سامنے کی گئی اپنی تقریر میں مزے لے لے کر وکیلوں کے خلاف اپنی فتح کی کہانی سنائی ، بیچ میں شعر سنا سنا کر وکلاء کا خوب مذاق بھی اڑایا۔ یہ بات وکلاء کی انا کو ہٹ کر گئی۔
اس کے بعد سنا ہے ڈاکٹروں نے وکلاء سے معافی بھی مانگی لیکن ڈاکٹر محمد عرفان نامی شخص کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر عرفان نے ایک اور ویڈیو بنا کر یہ وضاحت کی کہ یہ معافی سے قبل کی ویڈیو ہے جس کو اب پھیلانا شرارت ہے۔ ڈاکٹر محمد عرفان نے دوبارہ معذرت بھی کی، لیکن فاتحانہ اشعار اور فقرے بازی پر مبنی تقریر والی ویڈیو وکلاء کو بھڑکا چکی تھی۔
آج کارڈیالوجی میں جو فساد وکلاء نے برپا کیا، پولیس کی وین جلائی، عام لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑے، فائرنگ کی، ہسپتال کے بورڈز توڑنے کی کوشش کی، اس کا بڑا سبب تو اس ویڈیو کو بتایا جا رہا ہے لیکن کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ اس واقعے کا تعلق وکلاء کے آمدہ الیکشن سے بھی ہے ۔ الزام یہ ہے کہ اس واقعے کو وکلاء کا ایک گروپ الیکشن کمپین کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
ابھی منظر مکمل طور پر واضح نہیں ہے ۔ ممکن ہے ایک دو دن میں معاملہ واضح ہو جائے۔ ینگ ڈاکٹرز اور وکلاء دونوں معاشرے کے پڑھے لکھے طبقات میں شمار ہوتے ہیں لیکن انا کی اس جنگ میں یہ سب حوالے آج پس پشت ڈال دیے گئے ، یوں لگا کہ تعلیم ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی، جتھ بند ہو کر حملہ کرنے کا یہ واقعہ بہت افسوس ناک ہے۔