تین دہائیاں قبل تک معلومات کا حصول جان جوکھوں کا کام تھا ۔ مطالعہ کی ضرورت ہوتی اور ضخیم کتب کی ورق گردانی کرنی پڑتی تھی۔ ہر عمر کے افراد کو لائبریریوں ‘کتب خانوںاور اہلِ علم کے نام ازبر ہوتے تھے۔ان ذرائع سے ملنے والی معلومات مستندہوتی تھیں جن پر کوئی اعتراض سامنے نہیں آتا تھا‘ پھر جو علم مطالعہ کتب سے حاصل ہوتا تھا اس کے مصدقہ ہونے پر کوئی شبہ نہ رہتا تھا۔ پھر انٹرنیٹ کی پیدائش اور ترقی پذیر ممالک میں اس کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ہی مطالعہ کتب اور اہلِ علم کی محافل کے ذریعے معلومات اور علم کے حصول کا عمل متروک ہوتا چلا گیا۔اگرچہ انٹرنیٹ کے فوائد اپنی جگہ‘ مگر اس کے بے ڈھنگے استعمال سے اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ دنیا کا کوئی معاملہ ہو‘ اس کے حوالے سے معلومات موبائل سکرین پر ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مطالعہ کتب کی عادت ختم ہونے سے جو نقصانات ہوئے ہیں اور اس کے جو اثرات نوجوان نسل پر پڑے ہیں اور آنے والی نسل پر جو اثرات پڑیں گے اس کے حوالے سے لکھتے ہوئے سینکڑوں صفحے کالے کیے جاسکتے ہیں ‘مگر ایسا ہم اس لیے نہیں کریں گے کہ ہمیں یقین ہے کہ ان صفحات کو بھی کوئی نہیں پڑھے گا ۔ البتہ اگر صرف ایک نکتہ پر بات کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد معلومات کی تو بہتات ہوگئی۔ ہر چیز ”فنگرٹپس‘‘ پر آگئی‘ مگر جو سب سے بڑا نقصان ہوا وہ یہ ہے کہ ان معلومات کی تصدیق اور سند سب سے بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ کسی بھی نکتہ پر ایک سے زائد آراء موجود ہوتی ہیں جو الجھن پیدا کردیتی ہیں۔ پھر تحقیقی رجحان کے خاتمے کے ساتھ ساتھ معلومات مصدقہ ہیں یا نہیں‘ یہ جاننے کی خواہش کو بھی مار دیا ہے۔ معلومات جس ذریعے سے حاصل کی جاتی ہیں اس کے حوالے سے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ وہ کس درجہ قابلِ اعتبار ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان معلومات تک رسائی کا عمل انتہائی سہل ہے‘ جس کی وجہ سے کسی شخص کو انفراد ی طور پر یا کسی قوم کو اجتماعی طور پر متاثر کرنا بھی نہایت آسان ہوچکا ہے۔اس سارے عمل سے صرف ترقی پذیر ممالک اور عام شخص ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک اور اس کی اشرافیہ بھی متاثر ہوئی ہے۔
اس کا مشاہدہ بھارت کی حالیہ ایک سازش سے کیا جاسکتا ہے‘ جس نے عالمی سطح پر بھارت کا بھیانک چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ عالمی برادری میں پاکستان مخالف بیانیے کی ترویج اور عالمی اداروں کے فیصلہ سازوں میں اثر رسوخ حاصل کرنے کے لیے بھارتی حکومت نے امریکہ‘ کینیڈا‘ بیلجئم سمیت 65سے زائد ممالک میں 265جعلی نیوز ویب سائٹس بنائی ہوئی تھیں۔ یہ ویب سائٹس ذرائع ابلاغ کے ایسے بین الاقوامی اداروں کے نام پر تھیں جو ماضی میں شہرت کا عروج دیکھنے کے بعد ختم ہوگئے تھے یا پھر عالمی سطح پر مستند سمجھے جانے والے موجودہ ذرائع ابلاغ کے اداروں کے ناموں میں معمولی ترمیم کے ساتھ ویب سائٹس بنائی ہوئی تھیں۔ رواں سال اکتوبر میں جعلی خبروں کے خلاف کام کرنے والی یورپی یونین کی ٹاسک فورس نے یورپی پارلیمنٹ کے اراکین میں اثر رسوخ رکھنے والے آن لائن میگزین ”یورپی پارلیمنٹ‘‘ کے حوالے سے تحقیقات کی تو انکشاف ہوا کہ یہ میگزین بھارتی لابی کے تحت کام کررہا ہے اور اس کے ذریعے یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے ۔ ان تحقیقات کو پھیلایا گیا توانکشاف ہوا کہ ”ای پی ویب سائٹ‘‘ کا انتظام بھارتی سٹیک ہولڈرز کے ہاتھ میں ہیں‘ جن کا تعلق ”سری واستو‘‘ نامی ایک بڑے نیٹ ورک سے ہے جس کے تحت بڑی تعداد میں جعلی این جی اوز‘ تھنک ٹینکس اور کمپنیاں کام کررہی ہیں جو بھارتی مفادات کا دفاع کرتی ہیں۔ جب آئی پی ایڈریس کا کھوج لگایا گیا تو سری واستو گروپ کے آئی پی ایڈریس نئی دہلی میں پایا گیا‘ جبکہ اسی ایڈریس پر جعلی سائٹ ”انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار نان الائنڈ سٹڈیز‘‘ بھی کام کررہی تھی۔ پھر اسی جعلی سائٹ کے پلیٹ فارم سے یورپی باشندوں کے وفد کو کشمیر کا دورہ کراکے پاکستان مخالف بیانیہ جاری کیا گیا اور بھارتی وزیر اعظم مودی سے ملاقات بھی کرائی گئی۔یہ انکشاف بھی ہوا کہ اسی آئی پی ایڈریس پر ہی 1910ء کی دہائی کے معروف ترین اخبار ”مانچسٹر ٹائم ‘‘ کے نام سے آن لائن اخباربھی کام کررہا تھا جبکہ حقیقت میں مذکورہ اخبار کا آخری شمارہ فروری 1922ئمیں شائع ہوا تھا۔ اسی طرح معروف بین الاقوامی جریدے ”لاس اینجلس ٹائم‘‘ کے نام میں معمولی تبدیلی کے بعد ”ٹائم آف لاس اینجلس‘‘ کے نام سے بھی جعلی آن لائن ویب سائٹ پر بھارتی مفادات میں اور پاکستان مخالف مواد پھیلایا جارہا تھا۔یورپی یونین کی ٹاسک فورس نے تحقیقات جاری رکھیں جس کی بنیادپر اس کے تانے بانے جنیوا میں جا نکلے۔ وہاں آن لائن اخبار ”ٹائمز آف جنیوا‘‘ مسلسل پاکستان مخالف اور کشمیر کے حوالے سے پاکستان پر تنقیدپر مبنی مواد شائع کررہا تھا۔ان تحقیقات سے سامنے آنے والا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں جعلی ذرائع ابلاغ کے اس بھارتی نیٹ ورک کو یورپ میں موجود قادیانیوں اور خواتین کے حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے اور وہ پاکستان مخالف بھارتی پروپیگنڈے کے اہم ٹول کے طور پر کام کررہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور خبررساں ادارے ”فورنیوزایجنسی‘‘ جس کا دعویٰ ہے کہ اس کے نمائندے سو سے زائد ممالک میں ہیں اور وہ بیلجئم‘ تھائی لینڈ‘ دبئی سمیت مختلف ممالک میں کام کرتی ہے‘ اصل میں ایک جعلی ادارہ ہے جو بھارتی سرپرستی میں کام کررہا ہے ۔ خطرناک صورتحال یہ ہے کہ ان جعلی ویب سائٹس کے ذریعے دنیا بھر میں کشمیر کے حوالے سے رائے عامہ کو تبدیل کرنے اور عالمی اداروں میں موجود فیصلہ سازوں پر اثر انداز ہونے کا ہدف رکھا گیا تھا ‘جس میں بھارت کو خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے جو پاکستان کے لیے نہایت تشویشناک ہے۔
اس بھارتی سازش کا پردہ چاک ہوچکا ہے۔یورپی یونین کی ٹاسک فورس کی تحقیقاتی رپورٹ میں اس سازش کا کردار قادیانی لابی اور خواتین کے حقوق کے نام پر کام کرنے والی بعض این جی اوز قرار دی گئیں ہیں اور ایسے عناصر مقامی مدد کے بغیر کام نہیں کرسکتے۔ اس لیے پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی تحقیقات ہونی چاہئیں ‘جو بھارت کی پاکستان مخالف بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت اور اداروں کو پروپیگنڈا کے محاذ پر بھارت کو مربوط انداز میں منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے‘ تاکہ بھارت کے بین الاقوامی سطح پر پاکستان مخالف زہریلے پروپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکے۔
یہ ویب سائٹس ذرائع ابلاغ کے ایسے بین الاقوامی اداروں کے نام پر تھیں جو ماضی میں شہرت کا عروج دیکھنے کے بعد ختم ہوگئے تھے یا پھر عالمی سطح پر مستند سمجھے جانے والے موجودہ ذرائع ابلاغ کے اداروں کے ناموں میں معمولی ترمیم کے ساتھ ویب سائٹس بنائی ہوئی تھیں۔