پھر سب کو پھانسی دے دو …

ہر اس شخص کو قتل کر دو جو سوال کرتا ہے ۔

ہر اس شخص کو مار دو جو مختلف سوچتا ہے ۔ہر پھول کو قتل کردو ، ہر پھول کی خوشبو کو قتل کر دو ، ٹہنی ، پتی ، رنگ ، روپ سب قتل کر دو ، تمھارے پاس اذن خداوندی اور صلاحیت ہے . ہر اس شخص کو سولی پر چڑھا دو جو سوال کرتا ہے ۔اسی میں تمھاری بقا ہے ۔

ہاں ، آج کوئی نہیں بولے گا ،آج تو کوئی بھی نہیں بولے گا … آج اہلیان جبہ و دستار چپ ہیں ۔ آج منبر و محراب چپ ہیں اور ان کے مینار چپ ہیں ۔ آج ساونڈ سسٹم کو زنگ لگ گیا ۔ آج بڑے بڑے گلوں میں خراشیں آ گئیں ۔ آج میڈیا پر بیٹھے زمین و زمان کے قلابے ملانے والے چپ ہیں ۔ آج زبانیں گنگ ہو گئیں . عریانی کے طعنے دینے والے آج ننگے ہو گئے . لشکری اور سپہ سالار چپ ہیں ۔ عسکری اور ان کے سایہ دار چپ ہیں ۔

آج ابن رشد کی یاد تازہ ہوگئی جس کے چہرے پر علمائے امت نے تھوکا ، گریباں چاک کیا ۔ بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا، داڑھی کو آگ لگانے کی کوشش کی ، یہودیوں کی بستی میں جا کر پھینک دیا ۔ وہ وہیں مر گیا اور اس کی لاش یہودیوں کے قبرستان میں دفنا دی گئی ۔ جی ہاں جشن منایا گیا تھا کہ ایک فتنہ پرور کو ہم نے کاٹ کر پھینک دیا .

آج دنیا کی کوئی لائبریری ابن رشد کی کتاب کے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور مسلمان اسے رحمہ اللہ علیہ کہتے نہیں تھکتے ۔

آج ملتان میں ملتان کے عہد کے ایک بڑے صوفی اور ولی کا قتل کیا گیا کیونکہ وہ سوچتا تھا . گونگوں کی بستی میں بولتا تھا . شاہ دولے کے چوہوں کے ہجوم میں سر اٹھا کر سوال کرتا تھا . اپنے طلبہ کو شاہ دولے کے چوہے بنانے سے انکار کرتا تھا . اس نے اپنی کلاس کے باہر اصل سے بہتر فوٹو اسٹیٹ مشین کا بورڈ لگانے سے انکار کر دیا تھا . اس نے بچوں کو سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا تھا . ذہن کھل رہے تھے . اپنی دانست میں پہاڑی پر بیٹھے واعظ کو خیال گزرا کہ میری مسند کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے .

جنید تحقیق کر رہا تھا . ممکن ہے کہ اس سے بیان میں غلطی ہو گئی ہو . ہو سکتا ہے اس سے لفظ آگے پیچھے ہو گئے ہوں کیونکہ تحقیق کے میدان کا پہلا کلمہ ہی انکار سے شروع ہوتا ہے . جامد ذہن انکار نہیں کر سکتا . متحرک ذہن یہاں چل نہیں سکتا . عقل والا یہاں ٹھہر نہیں سکتا . جمود کی اس بستی کا صرف وہی مکین بن سکتا ہے جس کے پاس معاشرے کے طے شدہ اقرار کی تکرار ہے .

ہم وہ ہیں جن کے سوال گلی کوچوں میں قتل کئے گئے . ہمارے کھڑے ہونے اور بیٹھنے پر اعتراضات کئے گئے . ہمیں جمود کی درسگاہوں سے کئی بار بطور سزا نکالا گیا . جس سوال کا جواب جمود کا معلم ہمیں نہ دے سکا ، وہ سوال اس کے گھر میں اس کی اولاد کی صورت پیدا ہو گیا .

نئی سوچ کا قتل پاکستان کا قتل ہے . ملک کے مستقبل کا قتل ہے . علم اور تحقیق کا قتل ہے . کاش ہم یہ سمجھنے اور سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ سوال سوچیں گے تو انکار بھی ہو گا . کاش ہم یہ بھی جان سکیں کہ سوال پیدا کیسے ہو سکتا ہے اور اسے علم کے قالب میں کیسے ڈھالا جا سکتا ہے .چار کتابیں پڑھ کر فساد نہیں پھیلانا چاہیے . تمسخر ، استہزا، تضحیک کوئی علمی رویہ نہیں ہوتا . کسی کی دل آزاری کرنا کبھی بہتر عمل نہیں قرار دیا جا سکتا . الفاظ کا انتخاب بہت ضروری ہے .

برسوں پہلے لکھا تھا کہ دنیا کا خوفناک ترین حمل ماں کے پیٹ میں نہیں ، انسان کے دماغ میں بصورت سوال پیدا ہوتا ہے ۔ کلاس روم سے نکلتے وقت اور کمرہ عدالت کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ ” دنیا کا سب سے بڑا قتل عام نصاب کے نام پر کلاس رومز میں ہوتا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا فراڈ انصاف کے نام پر عدالتوں میں ہوتا ہے ۔”

جنید تمھارے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔کاش ایسا نہ ہوتا ۔ تمھیں واپس ہی نہیں آنا چاہیے تھا ۔ لیکن تم نے جرات کی . بے غیرتی کو یہاں حقیقت پسندی کہا جاتا ہے . تم حقیقت پسند نہیں بن سکے . کیا فائدہ ایسی ذہانت کا جس کے ذریعے تم چار پیسے نہ بنا سکو ، کوئی بنگلہ ، کوٹھی کار نہ خرید سکو . تم نے یہ سوچ کیسے لیا کہ تم اس معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہو . ہمیں صدیاں لگی گیں . اب آئے ہو تو بھگتو ، آج تم بھگتو ، کل ہم سب بھگتیں گے ۔

اس زمین پر ایک عرصے سے زلزلوں کا سلسلہ جاری ہے ، تھمتا ہی نہیں ، رکنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔

کتابیں کہتی ہیں کہ جو معاشرے حق کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے ، سچ کا ساتھ نہیں دیتے ، مظلوم کا پاس نہیں رکھتے ، وہ تباہ ہو جاتے ہیں لیکن خیر ہم تو پہلے ہی تباہی و بربادی کے ڈھیر پر کھڑے ہیں ۔ ہم اور کیا تباہ ہوں گے ۔

کیا کبھی آپ کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ غلط ہو رہا ہے اور آخر کسی روز تو ہمیں اس غلط کو ٹھیک کرنا ہے .کسی روز تو اس غلط کے خلاف کھڑے ہونا ہے . اگر کسی روز کھڑے ہی ہونا ہے تو پھر آج کیوں نہیں کھڑے ہوتے …. اگر کھڑے نہیں ہو سکتے تو بچے کیوں پیدا کرتے ہو ……آرام سے مر کیوں نہیں جاتے ……کس کا انتظار کر رہے ہو ……جب سب کو پھانسی لگ جائے گی یا جب سب ملک چھوڑ کر باہر بھاگ جائیں گے ……

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے