اسمارٹ فون میں اگلے سال کی سب سے انقلابی جدت : گرافین بیٹریاں

بیجنگ: اس وقت جدید ترین اسمارٹ فون میں بھی لیتھیئم آئن اورلیتھیئم پالمیربیٹریاں استعمال ہورہی ہیں لیکن اب سال 2020ء میں ماہرین اسمارٹ فون کی سب سے بڑی جدت یا تبدیلی کسی اسکرین، کیمرے یا فیچر کو قرار نہیں دے رہے بلکہ ایک نئی قسم کی گرافین بیٹریاں اگلے سال منظرِ عام پر آئیں گی۔

اس ضمن میں سب سے پہلی خبر سام سنگ کی سُن گن کے بعد سامنے آئی تھی جس میں کمپنی نے گرافین بیٹریوں کا عندیہ دیا تھا لیکن کئی برس کی افواہ کے بعد اب بھی سام سنگ کی تیار کردہ گرافین بیٹریاں سامنے نہیں آسکیں۔ اب بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سام سنگ اگلے سال کے وسط تک گرافین بیٹری سے چلنے والے اولین فون پیش کرسکتا ہے۔

اس دوڑ میں سام سنگ کی حریف کمپنی ہواوے کسی سے پیچھے نہیں اور خیال ہے کہ وہ اپنے گرافین بیٹری کے حامل پی فورٹی پرو فون کو اگلے سال پیرس میں مارچ تک پیش کردے گی اور شاید سام سنگ سے پہلے یہ فون سامنے آجائے گا۔ ہواوے نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس فون کے ڈیزائن میں ایسی تبدیلیاں پیش کررہا ہے جو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئیں۔

اس بات کی تصدیق ہواوے کے فرانسیسی زبان میں کیے گئے ایک ٹویٹ سے بھی ہوتی ہے جس میں اس نے گرافین بیٹری کا دعویٰ کیا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد یہ ٹویٹ ہٹادی گئی۔ ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ گرافین بیٹری کی بدولت موبائل فون صرف 45 منٹ میں صفر سے 100 فیصد تک چارج ہوجاتا ہے۔ ہواوے نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ گرافین بیٹریاں دیر تک چلتی ہیں اور ان کی جسامت بھی بہت چھوٹی ہوگی۔

ہواوے نے فرنچ اکاؤنٹ میں ٹویٹ میں اسے انوویشن کے سرخ لفظ سے نمایاں کیا ہے اور متن میں گرافین کا لفظ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

[pullquote]گرافین بیٹریاں کیوں مختلف ہوتی ہیں؟[/pullquote]

گرافین ایک خاص مادے کو کہتے ہیں جس میں ایٹم ایک خاص ترتیب سے تشکیل پاتے ہیں۔ گرافین سے لچک دار، ہلکی پھلکی، تیزی سے چارج اور دیر میں ختم ہونے والی بیٹریاں بنائی جاسکتی ہیں تاہم بیٹریوں کی تیاری میں گرافین کے ساتھ لیتھیئم آئن یا میٹل آکسائیڈ کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا بھی گرافین بیٹریوں پر تیزی سے کام کررہی ہیں لیکن انہیں گاڑیوں میں استعمال کیا جائے گا۔ ہواوے کے مطابق پی فورٹی پرو فون میں نصب گرافین بیٹری کی قوت 5000 ایم اے ایچ رکھی گئی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے