کرسمس کی مبارکباد: شرعی حیثیت

مسیحیوں کو کرسمس کی مبارک باد دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ شرعی حیثیت کے تناظر میں یہ سوال ہر کرسمس کے موقعے پر اسلامیانِ پاکستان میں زیرِ بحث آتا ہے۔ راقم الحروف سےبھی اس بارے میں کئی دفعہ سوال ہوا، مختصر جواب یہی دیا کہ موجودہ معروضی حالات اور عرف کے تناظرمیں مسلمانوں کا مسیحیوں یا دیگر غیر مسلموں (واضح رہے کہ بہت سے غیر مسیحی بھی کرسمس مناتے ہیں) کو کرسمس کی مبارک دینا بالکل درست ہے اور اس میں شرعی حوالے سے کوئی قباحت نہیں پائی جاتی۔ لیکن ہمارے بظاہر روایتی اور فی الواقع غیر روایتی حلقے ایسی مبارک باد کو مسلسل شرک، کفر، گناہِ کبیرہ، حرام اور پتہ نہیں کیا کیا کہے جا رہے ہیں، جس کی بنا پر بعض پڑھے لکھے لوگوں میں بھی اس پر کنفیوژن دیکھنے میں آتی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس پر قدرے تفصیل سے لکھا جائے۔

موضوع پر تفصیلی دلائل سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں شرک و کفر وغیرہ کے فتوے لگانے والوں کے بنیادی دلائل و سوالات کو سمجھ لیا جائے۔ پہلا سوال واستدلال یہ ہے کہ مسیحی تو کرسمس کے موقعے پر اپنے تئیں اللہ کے بیٹے کی پیدائش مانتے ہیں، لہذا ان کو مبار ک باد دینا ان کے اس عقیدے کی تایید کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ دوسرا سوال و استدلال یہ ہے کہ مسیح کی پیدایش 25 دسمبر کیا دسمبر میں بھی نہیں ہوئی، لہذا 25 دسمبر کو جشنِ پیدایشِ مسیح کی کیا تُک ہے؟ اور تیسرا سوال و استدلال یہ ہے کہ کرسمس کا پس منظر فقط یہ ہے کہ ایک طرف رومیوں میں مسیحیت سے قبل سورج کے راس الجدی پر پہنچنے پر ایک تہوار سیٹر نیلیا (Saturnalia) منایا جا تا تھا اور دوسری طرف ماضی میں اس تاریخ یا اس کے قریب قریب تاریخوں میں سورج دیوتا یا دیگر دیوتاؤں کی پیدایش کا جشن ہوا کرتا تھا۔ مسیحی رہنماؤں نے چھٹی صدی عیسوی میں ان دِنوں کی اہمیت کے پیش نظر مسیح کی پیدایش کا بھی یہی دن قرار دے لیا، تاکہ اسی دن جشن منا کر ان لوگوں میں مسیحیت کو مقبول بنایا جائے۔ اب مسیحیوں کو مبارک باد دینا ان سارے بت پرستانہ تصورات کی تایید نہیں کہلائے گا تو کیا کہلائے گا؟ اب ہم ان بنیادی سوالات و استدلات کو جائزہ لیتے ہیں۔

یہ کہنا کہ مسیحی اس دن اللہ کے بیٹے کی پیدایش مانتے ہیں، لہذا ان کو مبارک باد دینا ان کے اس عقیدے کی تایید ہوگا، ایک بالکل لا یعنی استدلال ہے۔ پہلی بات تو ہے کہ کرسمس سے لازمی طور پر اللہ کے بیٹے ہی کی پیدایش کیسے مراد ہو گئی؟ بہت سے ایسے لوگ بھی کرسمس مناتے ہیں، جو اللہ کا بیٹا تو درکنار اللہ کا وجود ہی نہیں مانتے۔ ابھی رات کو واٹس ایپ کال پر مجھے باہر کے کسی ملک سے ایک لا مذہب یا ایتھیست خاتون (جس کا مذہبی ابحاث کے حوالے سے مجھ سے رابطہ رہتا ہے) نے ہیپی کرسمس کہا اور میں نے بھی اس کو ہیپی کرسمس کہا۔ اب اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خاتون کو معلوم ہے کہ میں مسلمان ہوں (بلکہ وہ مجھے اسلامی سکالر بھی سمجھتی ہے) اور مجھے معلوم ہے کہ اس کا کوئی مذہب نہیں۔ اب حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں کا ہیپی کرسمس حضرت مسیح کے ابن اللہ ہونے کے تصور سے یکسر خالی ہے، میرے نزدیک حضرت مسیح اللہ کے برگزیدہ بندے اور اس کی روح ہیں، اور اس کے نزدیک اللہ کا بیٹا کیا ہوگا خود اللہ ہی نہیں ہے۔ تو گویا یہ تصور باطل ہے کہ معروضی و معاصر حالات و ماحول میں کسی کو کرسمس کی مبارک باد کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح کو ابن اللہ مانتا ہے اور آپ اس کے عقیدے کی تایید میں اسے مبارک باد دے رہے ہیں! درحقیقت موجودہ تناظر میں یہ ایک ثقافتی تہوار بن گیا ہے، جو عالمِ مسیحیت ہی نہیں ساری دنیا میں منایا جاتا ہے، حتی کہ ان لوگوں اور ملکوں میں بھی جہاں مسیحیت غالب مذہب نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا تصور فقط خوشی اور سیلیبریشن کے ایک سالانہ تہوار کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

دوسری بات یہ کہ کسی کی خوشی پر اس سے تعلقِ خاطر اور خیر سگالی کے اظہار کا ہر موقعے پر یہ مطلب کیسے لیا جا سکتا ہے کہ مبارک دینے والے کا بھی وہی عقیدہ ہے! اس صورت میں تو مسیحیوں کا عید پر مسلمانوں کو مبارک باد دینا اس بات کی تایید ہونا چاہیے کہ مسیحی مان رہے ہیں کہ مسلمانوں نے اللہ کو واحد جان کر اس کی رضا کی خاطر جو روزے رکھے اور نماز پڑھی، اس میں وہ حق بجانب ہیں اور ہم جو مسیح کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں وہ غلط ہے۔ تفنن بر طرف، گویا کرسمس کی مبارک باد سے مسلمان پر شرک کا فتوی لگ سکتا ہے، تو عید پر مسیحی کی مبارک باد سے اس پر موحد ہونے کا فتوی لگنا چاہیے۔ کیا میلاد النبی پر ہمیں مبار ک باد دینے سے مسیحیوں کا حضور ﷺ کے بارے وہ عقیدہ مانا جا سکتا ہے، جو ہم رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو مسیح کی پیدائش پر ہماری مبارک باد سے مسیح علیہ السلام کے بارے میں ہمارا عقیدہ ان کے مشابہ کیسے مانا جا سکتا ہے!

اپنے دائیں بائیں کی دنیا سے کٹے نہ رہیں بلکہ معاصر غیر مسلم دنیا کے جذبات و احساسات اور مذہبی، سماجی اور ثقافتی رویوں کو سمجھیں، ان کے قریب ہوں اور ان کو قریب کریں

مسلمانوں کے عقیدے میں پیدایش خدا کی تو نہیں ہو سکتی، لازما کسی انسان ہی کی ہوگی۔ لم یلد و لم یولد کے عقیدے کے حاملین جب کسی کو کسی برگزیدہ بندے کی پیدایش پر مبارک باد دیں تو یہ معانی کیوں نہ سمجھے جائیں کہ بھئی! مسیح علیہ السلام کی پیدایش پر مبارک ہو، اس سے آپ کو سوچنا چاہیے کہ جناب مسیح انسان ہیں خدا نہیں، اس لیے کہ جو کسی وقت پیدا ہوا وہ خدا نہیں ہو سکتا!

اس میں تو کوئی اشکال نہیں کہ کرسمس کا تعلق جناب مسیح کی پیدایش سے جوڑا جاتا ہے۔ اور مسیح کی پیدایش پر خوشی منانا کسی مسلمان کے لیے نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔ جب مسلمان اپنے طور پر خوشی منا سکتے ہیں، تو ہر اس سرگرمی پر دوسرے کو مبارک باد بھی دے سکتے ہیں، جس کا تعلق جناب مسیح کی پیدایش پر خوشی سے بنتا ہو۔ قرآن سے واضح ہے کہ حضرت مسیح نے خود اپنی ولادت و وفات اور اٹھائے جانے کے دن پر سلام بھیجا۔ (وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا۔ مریم: 33)

اس ضمن میں یہ یہ دلیل بھی بے کار ہے کہ مسیح کی پیدایش پر خوشی اگر مسلمان بھی منانے لگیں تو اس سے مسیحیوں سے مشابہت ہو گی اور مشباہت سے احادیث میں منع کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ ایک تو کسی جائز کام کے مشابہت کی وجہ سے منع ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس حوالے سے ابن ماجہ کی وہ مشہور روایت سامنے رہنی چاہیے، جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے، تو آپﷺ نے یہود کو عاشور کا روزہ رکھتے دیکھ کر سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ یہ روزہ اس بنا پر بطورِ شکرانہ رکھا جاتا ہے کہ اِس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعونیوں کو غرق کر دیا تھا۔اس پر حضورﷺنے فرمایا: ہم موسیٰ سے تم لوگوں سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔ چناں چہ آپ ﷺ نے نہ صرف خود یوم عاشورکا روزہ رکھا بلکہ اس کا حکم بھی دیا۔ مسلم کی روایت کے مطابق جب صحابہ نے عرض کیا کہ حضورﷺ! یہود ونصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: اگلے سال ہم نو محرم کا بھی روزہ رکھیں گے۔ ایک حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مشابہت سے بچنے کے لیے آپ نے یوم عاشور سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔

گویا کسی پسندیدہ عمل کو محض مشابہت کی بنا پر نہیں چھوڑا جا سکتا، ہاں تاریخ آگے پیچھے ہو سکتی ہے۔ اس حدیث کے تناظر میں مسیح سے تعلق کا تقاضا ہے کہ مسلمان کرسمس پر تو فقط اس تناظر میں مسیحیوں کو مبارک باد دینے پر اکتفا کر لیا کریں کہ یہ دن بھی جناب مسیح سے منسوب ہے، لیکن خود بھی یومِ میلادِ مسیح منائیں اور 25 دسمبر کی بجائے جس تاریخ کو مناسب سمجھیں مقرر کر کے باقاعدہ جناب مسیح کی آمد کی خوشی منایا کریں، اس لیے کہ مذکورہ حدیث سے آسانی سے استدلال ہو سکتا ہے کہ”مسلمان جناب مسیح سے مسیحیوں سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔”

اب آئیے دوسرے سوال و استدلال کی طرف کہ مسیح کی پیدایش 25 دسمبر کو نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ ہمیں یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں کہ حضرت مسیح کی پیدایش 25 دسمبر یا دسمبر میں کسی بھی دن نہیں ہوئی۔ ہم اس تحقیق پر بھی کوئی اعتراض نہیں کرتے کہ جناب مسیح کی پیدائش جولائی یا اگست میں ہوئی کہ اسی زمانے میں بیت اللحم کے علاقے میں کھجوریں ہوتی ہیں اور قرآن نے جناب مسیح کی پیدائش پر حضرت مریم کے لیے کھجوریں گرنے کا ذکر کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بحث کا حضرت مسیح کی پیدایش پر خوشی منانے کے عدم جواز سے کیا تعلق بنتا ہے؟ اس بحث سے تو زیادہ سے زیادہ یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ مسیح کی پیدایش پر خوشی دسمبر کی بجائے جولائی یا اگست میں منانی چاہیے۔ تو ٹھیک ہے جن پکے مسلمانوں کو یہ اعتراض ہے، وہ جولائی یا اگست میں مسیح کی پیدایش پر خوشی منایا کریں اور اس اہتمام سے منائیں کہ لوگ 25 دسمبر اور کرسمس کو بھول جائیں اور ان کے مقرر کیے ہوئے دن ہی کو جناب مسیح کی پیدایش سمجھنے پر اسی طرح مجبور ہو جائیں جیسے آج ساری دنیا 25 دسمبر کو آپ کی پیدایش سمجھنے پر مجبور ہوئی بیٹھی ہے۔ اب کوئی پکا مسلمان یہ نہ کہے کہ بھئی! ہم کیوں منائیں! جناب آپ اس لیے منائیں کہ “آپ مسیح سے مسیحیوں سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔”

اس بحث پر ذرا اس پہلو سے بھی غور فرمایے کہ ابن ماجہ کی مذکورہ بالا روایت میں جب یہودیوں کی طرف سے یہ جواب آیا تھا کہ وہ یوم عاشور کو اس نسبت سے روزہ رکھتے ہیں کہ اس دن اللہ نے حضرت موسی کو فرعونیوں سے نجات عطا کی تھی تو آپﷺ نے یہ سوال نہیں فرمایا تھا کہ کے آخر یوم عاشور ہی کو فرعونیوں سے نجات حاصل کرنے کی کیا دلیل ہے؟ اس لیے کہ یہ سوال ہی نہیں بنتا تھا۔ جب فروعونیوں سے نجات کی بات واضح تھی تو کسی خاص تاریخ کی تحقیق غیر ضروری تھی۔ بالفاظِ دیگر اہمیت واقعے کی تھی نہ کہ کسی خاص تاریخ کی، ورنہ اس پر تو بات حضورﷺ کے عہد میں کیا اب بھی ہو سکتی ہے کہ ا نھوں نےواقعی فروعونیوں سے یوم عاشور کو نجات حاصل کی تھی یا کسی اور دن؟فرض کریں کہ تاریخی تحقیق سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یوم عاشور کی بجائے کسی اور دن یا اور مہینے کو نجات ملی تھی تو کیا معاذاللہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضورﷺ نے بلا تحقیق یہودیوں کی غلط تعیین کے مطابق موسی سے تعلق کی بنا پر غلط دن روزہ رکھ لیا۔ حق یہ ہے کہ اس میں یہ بات ہی خارج از بحث تھی کہ یہ واقعہ کس تاریخ کو پیش آیا؟ بات فقط یہ تھی کہ یہ واقعہ ایک تاریخی حقیقت تھا، اور خود قرآن سے ثابت تھا،خواہ اس کے وقوع کا دن کوئی بھی ہو۔ تو آپ ﷺ نے اصل واقعے کی صحت کو لیا اور اس سے نہ صرف یہودیوں کے تعلق کو غلط قرار نہ دیا بلکہ موسی علیہ السلام کی نسبت سے خود بھی وہی عمل کیا اور مسلمانوں کو بھی کرنے کو کہا۔ بعینہٖ یہ سوال بھی خارج از بحث ہے کہ جناب مسیح کی پیدایش 25 دسمبر کو ہوئی یا نہیں ہوئی؟ اصل بات جس سے انکار نہیں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح پیدا ہوئے اورآج مسیحی دنیا ان کی پیدایش کا جشن یا خوشی کرسمس کی شکل میں 25 دسمبر کو مناتی ہے۔ مذکورہ حدیث سے استدلال کریں تو مسلمانوں کے لیے 25 ہی نہیں 24 اور 26 دسمبر کو بھی پیدایش ِمسیح کی خوشی منانی بنتی ہے کہ مشابہت بھی نہ ہو اور جناب مسیح سے زیادہ تعلق کا اظہار بھی ہو جائے۔ یہاں یہ سوال بھی غلط ہو گا جب حضور ﷺ نے خود ایسا نہیں کیا تو اوپر والی حدیث کو اس صورت پر منطبق کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اس لیے کہ حضورﷺ کے سامنے یہ سوال آیا ہی نہیں تھا، اگر اس کا سوال آتا توحضرت موسی سے تعلق ِخاطر کی طرح حضورﷺ جناب مسیح سے اسی طرح تعلق خاطر کا اظہار کیوں نہ کرتے اور کس بنیاد پر یہ کہنے سے اعراض کرتے کہ “ہم مسیح سے مسیحیوں سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں، لہذا ہم بھی اس دن خوشی منائیں گے۔” اور آپﷺ یہ سوال کبھی نہ کرتے کہ واقعی مسیح اسی دن پیدا ہوئے تھے یا نہیں، اس لیے کہ اصل بات واقعے کی ہوتی نہ کہ متعین دن کی ، اور واقعہ یہی تھا کہ جناب مسیح پیدا ہوئے اور ان کی پیدایش کا دن خود قرآن کی رو سے سلامتی والا اور بابرکت دن تھا۔

مزید برآں یہ 25 دسمبر کو پیدایش نہ ہونے والی بحث ایسے ہی جیسے حضورﷺ کی پیدایش کے 12 ربیع الاول کو ہونے یا نہ ہونے کی بحث۔ بعض لوگ استدلال کرتے ہیں کہ حضورﷺ کی پیدایش تو 9 ربیع الاول یا کسی اور دن ہوئی لہذا 12 کو خوشی منانا کیسے درست ہے!اس بحث کا لا یعنی ہونا اوپر والے پیرے کے استدلال سے واضح ہے، کہ کسی تاریخی شخصیت کا دن منانے کے حوالے سے یہ بحث ہی غلط ہی کہ فلاں شخصیت کی پیدایش متعین طور پر اس دن ہوئی یا نہیں۔ عظیم تاریخی شخصیات میں سے اکثر و بیشتر شخصیات کی تاریخ ہائے ولادت اور حتی کہ تاریخ ہائے وفات میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں تو کیا ان کا کوئی دن نہ منایا جائے! ظاہر ہے ایسی شخصیات کا تلاش و جستجو کے بعد کوئی دن متعین کرنا ہی پڑتا ہے، اور کوئی بھی دن مقرر کر لیں اس پر بحث موجود رہے گی کہ یہ دن واقعی بنتا ہے یا نہیں۔فی الواقع ایسی عظیم شخصیات کے حوالے سے کسی دن کی تعیین بہت حد تک ایک علامتی نوعیت رکھتی ہے۔ سو جب ہر تاریخ پر کوئی اشکال ہو سکتا ہے اور بعض لوگوں کی تحقیق اس سے مختلف ہو سکتی ہے، تو سوائے اس کے چارانہیں رہتا کہ جو تاریخ مروج ہو جائے اور جس کو عام طور پر قبول کر لیا جائے اس دن کو اس شخصیت کا دن مان لیا جائے اور متعلقہ مذہبی یا ثقافتی رسوم اس دن ادا کی جائیں۔ یہ بات نہ صرف مذہبی حوالے سے قرین قیاس ہے بلکہ سیاسی ، معاشرتی، سماجی اور عالمی تناظر میں بھی مفید ہے۔ بھلا یہ کوئی تُک ہو گی کہ مثلاً حضورﷺ کے میلاد کا دن بارہ ربیع الاول بھی ہو اور 9 ربیع الاول بھی اور مسلمانوں کے یہاں دونوں دن سرکاری تقریبات ہوں اور چھٹیاں ہوں اسی طرح جناب مسیح کی پیدائش کا دن دسمبر میں بھی منایا جائے اور جولائی اگست میں بھی (وسیے برسبیل تذکرہ یہ جولائی اگست کی تحقیق والے کسی دن پر کیسے متفق ہوں گے؟جولائی اگست تو تلاش ہو گیا، لیکن یہ ایک دن ہے کیا؟ پھر سوال ہو گا کہ جولائی یا اگست؟ پھر سوال ہو گا جولائی یا اگست میں کون سا دن؟ جو دن مقرر کر لیں اس پرپھر بحث ہو سکے گی کہ یہ دن واقعی آپ کی پیدایش کا ہے یا نہیں؟)

سو بات واضح ہے کہ دن کی تعیین میں صحیح یا غلط کا سوال ہی خارج از بحث ہے۔ اصل سوال واقعے کا ہے اور اس بات کا ہے کہ اس دن کو عام طور قبول کر لیا گیا ہے یا نہیں اور جناب مسیح کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ 25 دسمبر کو عام طور پر ان کی پیدایش کا دن باور کر لیا گیا ہے یا کرا دیا گیا ہے۔چناں چہ اس مقصد کے لیے اس کا متبادل اس وقت تک نہیں اپنایا جا سکتا جب تک اس متبادل کو اس سے زیادہ قبول عام حاصل نہ ہو جائے اور لوگ مان نہ لیں کہ 25 دسمبر کی بجائے ہم مسیح کی پیدایش اس متبادل دن کو منائیں گے۔

اگر ہر ہر لفظ ، کو اس کی Root اورOrigin کی تحقیق کے بعد استعمال کرنے کی روش اپنا لی جائے، تو شاید رفتہ رفتہ آپ کو ساری زبان ہی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ آج لفظِ خدا کو چھوڑ دیں، کل نماز روزہ کے الفاظ بھی چھوڑنے پڑیں گے۔ وعلی ھذا القیا س۔ جب فارسی، اردو اور پنجابی وغیرہ زبانوں سے جان چھوٹ جائے گی اور صرف عربی باقی رہ جائے گی، تو پھر اس کے ہر ہر لفظ پر تحقیق کا نشتر چلائیں۔ وہاں بھی آپ لفظوں کی ایسی ایسیOriginپائیں گے کہ حیران ہوتے جائیں گے

رہا یہ سوال و استدلال کہ کرسمس تو فی الوقع قدیم رومی تہوار سیٹر نیلیا (Saturnalia) کا چربہ ہے یا دسمبر کی مذکورہ تاریخ یا اس کے قریب قریب تاریخوں میں سورج دیوتا یا دیگر دیوتاؤں کی پیدایش کا جشن منایا جا تا تھا اور بعض مسیحی رہنماؤں نے رومیوں اور آفتاب پرستوں میں مسیحیت کو مقبول بنانے کے لیے اس دن کو مسیح کی پیدایش کا دن قرار دے لیا۔ تو اس ضمن میں عرض ہے کہ اگرچہ یہ سوال بھی محل نظر ہے کہ کرسمس کی تاریخی حقیقت وہی ہے جو اس سوال کو اٹھانے والے پیش کرتے ہیں ، اس لیے کہ اس ضمن میں بے شمار نظریات پائے جاتے ہیں۔ ذرا گوگل کر لیں یا وکی پیڈیا میں کرسمس (Christmas) کا آرٹیکل دیکھ لیں تو بات واضح ہو جائے گی۔ بہت سے محققین کرسمس کا تعلق قدیم مسیحی کلیسائی رسومات سے جوڑتے ہیں اور اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہیں کہ اس کے پس منظر میں دیگر اقوام یا مذاہب کے تصورات یا تہوار کارفرما رہے ہیں۔ لیکن ہم مذکورہ سوال اٹھانے والوں ہی کی بات کو درست مان لیتے ہیں کہ کرسمس کی بنیاد قدیم رومیوں یا آفتاب پرستوں کے مشرکانہ رسوم و روایات پر ہی رہی ہو گی۔ اس لیے کہ ہمارے استدلال کا مدار اس پر ہے ہی نہیں کہ کرسمس کی تاریخ کیا ہے؟ اور تاریخی اعتبار سے کرسمس کی رسم کیسے وجود میں آئی؟ ہمارے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ معاصر دنیا میں کرسمس سے عام طور پر کیا مراد لیا جاتا ہے؟ اس کی تاریخ جو بھی رہی ہو، اس حقیقت سے انکار کوئی نہیں کر سکتا کہ فی زمانہ کرسمس سے مراد مسیح علیہ السلام کی پیدایش کے دن جشن اور خوشی منانا ہے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں کسی بھی چیز سے متعلق عام ، معقول اور غیر جانب دار معلومات کا سب سے نمایاں اور عام ذریعہ متعلقہ موضوع، لفظ یا اصطلاح پر وکی پیڈیا کا مضمون ہوتا ہے۔ کرسمس (Christmas) کے عنوان سے اس کے مضمون کا پہلا جملہ یہ ہے:

Christmas is an annual festival commemorating the birth of Jesus Christ.

کرسمس حضرت عیسیٰ کی یاد منانے کا سالانہ تہوار ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کتنے مسیحیوں اور مسلمانوں کے ذہن میں کرسمس کے نام پر کرسمس کی وہ تاریخ آتی ہے، جس میں انھیں لگتا ہے کہ یہ تو آفتاب پرستوں کے کسی دیوتا کا تہوار ہے یا قدیم رومیوں کے کسی مشرکانہ تہوار کا چربہ!

حقیقت یہ ہے مذکورہ سوالات الفاظ و اصطلاحات میں تطور دلالی (Semantic Extension ) کی حقیقت سے ناواقفیت یا عدمِ اعتنا کا نتیجہ ہیں۔ تطور دلالی یہ ہے کہ قدیم الفاظ و اصطلاحات میں بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بعینہٖ اپنے اصل معانی پر باقی نہیں رہتیں بلکہ ان میں بہت کچھ ردو بدل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات تو وہ اپنی اصل سے بالکل مختلف معانی دینے لگتی ہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ جس زمانے میں اور جس تناظر میں وہ لفظ یا اصطلاح مستعمل ہے ،اس زمانے اور تناظر میں اس کا کیا مفہوم و مطلب مراد لیا جا رہا ہے۔ اس چیز کو نظر انداز کر دینے سے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ مذکورہ نوعیت کے سوالات اٹھانے والوں کو کون سمجھائے کہ الفاظ و اصطلاحات کی مراد صرف اور ہمیشہ ان کی تاریخ دیکھ کر طے کی جانے لگے تو خود بہت سی مروج اسلامی اصطلاحات کے متعلق سوالات کھڑے ہو جائیں گے۔ اس ضمن میں اپنی ایک تحریر کا حوالہ دینا خالی از دل چسپی نہ ہوگا۔ یہ تحریر میں نے اللہ کو خدا کہنے پر اعتراض کرنے والے بعض ایسے ہی احباب کے رویے اور طرز استدلال پر نقد کرتے ہوئے لکھی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا:

“بعض لوگ اصرار کرتے ہیں کہ لفظ “خدا” شرکیہ لفظ ہے، یا اس میں شرک کا احتمال ہے، لہذا اسے ترک کرنا دین اور دین داری کا نہایت اہم تقاضا ہے۔ چناں چہ ان کی طرف سے مختلف یونی ورسٹیوں اور ریاستی اداروں اور شخصیات کو خطوط بھی لکھے گئے کہ لفظ” خدا” کے استعمال کو ترک کیا جائے۔ انھی کوششوں کے نتیجے میں گذشتہ برس وزیر اعظم کی طرف سے لیٹر جاری ہو اکہ لفظ” خدا” شرکیہ ہے ، اسے “اللہ “سے بدلا جائے۔کچھ عرصہ قبل ایک مدرسے کے مہتمم صاحب نے مجھے ایک پوری کتاب بھیجی جس میں لفظ “اللہ” کی بجائے” خدا” وغیرہ استعمال کرنے کے خلاف تحقیق پیش کی گئی تھی، اور قرار دیا گیا تھا کہ یہ گناہ اور شرک ہے۔ راقم سے فرمایش تھی کہ اس پر تبصرہ کیا جائے۔میں نے جو تبصرہ کیا،وہ ظاہر ہے کہ متعلقہ حضرات کو سخت گراں گزرا ہوگا،انھوں نے دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا۔ کتاب میں موصوف کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں میں “اللہ” کے لیے “خدا” کا لفظ غلط طور پر رائج ہو گیاہے۔یہ لفظ پہلوی اور اوستا سے فارسی میں آیا تھا۔یہ مجوسیوں کے معبود کا نام تھا۔ مجوسیو ں کی ہر چیز مکروہ اور حرام سمجھی گئی، لیکن ان کے معبود کا نام بلا تردد اپنا لیا گیا ہے؟ اس لفظ کو اللہ ،رسولﷺ اور اسلاف کی کوئی سند حاصل نہیں ۔اس بارے میں جن جن مفتیوں سے فتوے پوچھے گئے، ان میں سے خدا کے لفظ کوجائزرکھنے والوں کا بھی یہی فتوی تھاکہ افضل لفظ اللہ کے لیے اللہ ہی ہے۔ جب ہم اپنے لیے ہر چیز میں افضل کو اپناتے ہیں، تو اللہ کے لے غیر افضل کا دفاع کیوں کرتے ہیں ؟جو بزرگ پہلے یہ لفظ استعمال کرگئے،انھیں مجبور یا معذور رکھا جا سکتاہے ۔اب جب کہ اس کا ناجائز ہونا ثابت ہو گیا ہے، اس کا استعمال گناہ ہو گا۔ ہمارے نزدیک یہ نتیجہ بالکل غلط اور سادگی کا مظہر ہے۔ بات صرف یہ نہیں کہ خدا کا لفظ پہلوی یا اوستا سے فارسی میں آیا۔ بات یہ ہے کہ یہ اردو پنجابی وغیر ہ زبانوں میں بھی یوں استعمال ہونے لگاکہ اب ان کا بھی ایک خاص لفظ بن گیا ہے۔فارسی کو چھوڑیں، اردو اورپنجابی والے بھی کسی شخص کے ذہن میں خدا سے اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کا تصور نہیں آتا۔ بڑی سادگی ہے کہ آپ غالب ،حالی،اقبال، بابا فرید، وارث شاہ، میاں محمد بخش- کس کس کا نام لوں؟- کی زبان بولیں، لکھیں اور اپنے مافی ضمیر کے اظہار کے لے استعمال کریں، لیکن ان کے محاورات واصطلاحات کو شجر ِممنوعہ بنانے کے در پے ہوں۔چلیے اللہ کو خدا نہیں کہتے، مگر خدا کو اللہ کہنے سے -کم ازکم جب تک ان بزرگوں کا کلام زندہ ہے-آپ کسی طرح جان نہیں چھڑا سکتے۔میر ے بچے مجھ سے پوچھیں گے: ان بزرگوں کاخدا، خداوند، پروردگار، یزداں کون تھا؟ میراجواب ہو گا: اللہ۔ تقلید؟ نہیں ہر گز نہیں۔ یہ بزرگ معصوم عن الخطا نہیں- ہاں! ان سے لاکھ غلطیاں ہوسکتی ہیں- لیکن ان کی زبان میں گفت گو کرتے ہوئے، زبان، اصطلاحات اور محاورات انھی کے معتبر ہوں گے۔ یہی سبب تو ہے کہ اللہ کا پاک کلام سمجھنے سمجھانے کے لیے بھی آپ کو نہ جانے کن کن جاہل اور بےہودہ عرب شاعروں کی شاعری پڑھنا پڑتی ہے۔ مولف موصوف نے افضل والی جومنطق بیان کی ہے، وہ بھی نہایت عجیب ہے۔ کیا افضل کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کے علاوہ کوئی لفظ بولیں اور نہ کوئی کام کریں؟ لفظ اللہ سب سے افضل ہے، ظاہر ہے اللہ کے صفاتی ناموں سے بھی افضل۔ توپھر قرآن وحدیث میں جہاں اللہ کے صفاتی نام آئے ہیں، وہاں غیرافضل کو اختیار کیا گیاہے؟ میرے محترم مولف غور نہیں کر پائے کہ بات افضل و غیرافضل کی نہیں ہوتی، سیا ق وسباقِ کلام اور زبان ومحاورات کی ہوتی ہے۔ اب خدارا کی جگہ اللہ را اوربارگاہِ خداوندی یا بارگاہِ ایزدی کی جگہ بارگاہ اللہ تو وہی کہے گاجس کو زبان وبیان کی مطلق خبر نہ ہو۔الفاظ اس کے سو اکیاہیں کہ فہم وتفہیم ِمطالب کا ذریعہ۔ اگر آپ کے خدا کہنے سے لوگ اللہ ہی مراد لیتے ہیں، توآپ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں، لیکن لوگ اللہ بھی کہیں، مگر اللہ سے اللہ مراد نہ لیں، تو بھی مشرک ہی رہیں گے۔ آخر مشرکین عرب بھی تو اللہ اللہ کی رٹ لگاتے ہی تھے۔ لیکن ان کو بتایا گیاکہ ان کا یہ اللہ اسی وقت قابلِ قبول ہو گاجب وہ اس کو محمدﷺ کااللہ سمجھنے لگیں گے۔ جو لفظ جس زبان میں جس تعلق سے اتنامعروف ہو جائے کہ اسے استعمال کرتے ہوئے کسی کے وہم وگمان میں بھی کوئی دوسرا مطلب نہ آئے، تو وہ اسی مطلب کا حامل بن جاتا ہے اور پچھلے معنی متروک ہو جاتے، یا شاذ رہ جاتے ہیں ۔(یہاں میں ناظرین کی دلچسپی کے لیے عرض کر دوں کہ نماز بھی مجوسیوں کی عبادت کا نام ہے، لیکن ہمارے یہاں صلوة کے مفہوم کے لیے یہ اس قدر عام اور مروج لفظ ہے کہ خود ہمارے ممدوح مولف نے اپنی زیر ِنظر کتاب میں اس کو متعدد جگہ بلا تردد اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ اور ایسا کرنا قابلِ اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اب نماز سے ہمارے ہاں کسی شخص کے ذہن میں بھی مجوسیوں کی عبادت نہیں آتی۔) اگر ہر ہر لفظ ، کو اس کی Root اورOrigin کی تحقیق کے بعد استعمال کرنے کی روش اپنا لی جائے، تو شاید رفتہ رفتہ آپ کو ساری زبان ہی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ آج خدا کو چھوڑ دیں، کل نماز روزہ بھی چھوڑنا پڑے گا۔ وعلی ھذا القیا س۔ جب فارسی، اردواور پنجابی وغیرہ زبانوں سے جان چھوٹ جائے گی اور صرف عربی باقی رہ جائے گی، تو پھر اس کے ہر ہر لفظ پر تحقیق کا نشتر چلائیں۔ وہاں بھی آپ لفظوں کی ایسی ایسیOriginپائیں گے کہ حیران ہوتے جائیں گے۔ پھر کیا ہوگا؟ یہی! نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔”

اس بحث سے واضح ہے کہ کرسمس کی اصطلاح میں دیکھا یہ جائے گا کہ اس اصطلاح سے معاصر دنیا میں کیا مراد لیا جاتا ہے! نہ یہ کہ اس کی تاریخ اور پس منظر میں کون کون سے دیگر مفاہیم پائے جاتے ہیں!

آخر میں یہ واضح کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سب بحثوں سے قطع نظر اگر اس کو موجودہ پوسٹ گلوبلائز دنیا میں دیگر مذاہب والوں کے ساتھ اسلام کے رویے اور دعوت و مقاصدِ شریعہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو بھی یہی بات معقول لگتی ہے کہ آپ کے پڑوسی، تعلق والوں، کولیگز وغیرہ میں لوگ اپنی مذہبی رسوم کے مطابق کرسمس منا رہے ہوں، تو آپ کی طرف سے ان کو کسی نفرت و مخالفت یا غصے و بے زاری کا تاثر نہ جائے، بلکہ غیر مسلموں ہمسایوں اور اہلِ تعلق سے متعلق خیر خواہی اور پرامن بقائے باہمی کے جذبات مترشح ہوں۔ دین کے داعی کے لیے تو یہ قطعاً بے حکمتی ہو گی کہ وہ اس موقع پر کہے کہ ہمارے دین کے نقطۂ نظر سے تمھارا یہ عمل شرک اور گناہ ہے، لہذا ہم تمھیں اس پر مبارک باد نہیں دے سکتے بلکہ تم سے کہتے ہیں کہ اس سے باز آجاؤ۔

الغرض دین کے مزاج، حضور ﷺ کی سیرت اور معاصر دنیا میں دین کی دعوت کسی بھی حوالے سے دیکھیں، کرسمس پر مسیحیوں اور کرسمس منانے والے دیگر لوگوں کو اس کی مبارک باد دینے میں نہ صرف یہ کوئی حرج نہیں، بلکہ آج کی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے مفید اور پر ازحکمت ہے۔ خصوصا جب وہ پس منظر بھی سامنے رہے جس کو معترضین نے اپنے یہاں مذکور آخری استدلال کی بنیاد بنایا ہے کہ مسیحی رہنماؤں نے رومیوں میں مسیحیت کو مقبول بنانے کے لیے وہی دن مسیح کا جشن منانے کو منتخب کر لیے جو رومیوں کے یہاں مقدس مانے جاتے تھے۔ اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر یہی بات ہے توتاریخ نے اسے مسیحی رہنماؤں کی غلط روی نہیں بلکہ زبردست حکمتِ عملی ہی ثابت کیا ہے۔ جس کا کا میاب ہونا بھی ظاہر و باہر ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ رومیوں میں مسیحیت کیسے مقبول ہوئی اور کیسے سارے مغرب نے مسیحیت قبول کر لی! اگر وہ بھی ہمارے بعض نام نہاد مذہبی رہنماؤں کی طرح قدیم رومی لوگوں اور ان کے مذہبی تہواروں سے بدکے رہتے اور ان پر فتوے لگاتے رہتے تو رومی ہمیشہ مسیحیوں کو اپنے دشمن خیال کرتے رہتے اور کبھی بھی ان کا مذہب قبول نہ کرتے۔ اس پس منظر کو تو مسلمانوں کو اعتراض بنانے کی بجائے رہنما بنانا چاہیے کہ وہ بھی اپنے دائیں بائیں کی دنیا سے کٹے نہ رہیں بلکہ معاصر غیر مسلم دنیا کے جذبات و احساسات اور مذہبی، سماجی اور ثقافتی رویوں کو سمجھیں، ان کے قریب ہوں اور ان کو قریب کریں۔ یہی وہ طریقہ ہے ، جس کے ذر یعے وہ معاصر ماحول میں دنیا کو اسلام اور مسلمانوں کے قریب لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے