استنبول میں پہلی رات کا کھانا عزیزی عاطف بٹ کے چند احباب نے اپنے ذمے لے رکھا تھا، ہوٹل کے مالک انس بھی بیشتر میزبانوں کی طرح یہاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آئے تھے اور پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہیں کے ہو رہے۔ میں نے جتنے پی ایچ ڈی اس دورے میں ہوٹلنگ کا بزنس کرتے دیکھے وہ شاید عمر بھر میں کہیں اور نہیں دیکھے تھے۔
معلوم ہوا کہ یہ بزنس مالی فوائد سے ان کی ڈگریوں سے زیادہ منفعت بخش ہے۔ یہ ہوٹل کراچی دربار کچھ عرصہ پہلے تک دہلی دربار کے نام سے چلتا تھا، یہ اس مشہور ’’تقسیم میدان‘‘ کے نواح میں واقع ہے یہاں چند برس قبل ترک عوام نے اپنی فوج کے کچھ آمرانہ اقدام کی مخالفت کے لیے ایسی شاندار مزاحمت کا مظاہرہ کیا تھا کہ عوام کے سیلاب کے دباؤ سے مجبور ہو کر ٹینکوں کو واپس جانا پڑا اور صدر طیب اردوان کی حکومت نہ صرف مستحکم ہوئی بلکہ جمہوریت کو بھی ایسا استحکام ملا کہ آج ترکی پورے عالم اسلام میں ایک مرکز کی سی اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے اور یوں خلافت کا وہ نظام جسے اتاترک کی قیادت میں ترک عوام نے ختم کیا تھا اور جس کے ساتھ ہی عثمانی سلطنت کی مسلم امہ کے مرکز والی حیثیت بھی ختم ہو گئی تھی، ایک نئی شکل میں سامنے آیا مگر اس بار قیادت سلاطین کے بجائے ملک کے عوام اور اس کے نمایندوں کے ہاتھ میں تھی۔
کھانے میں میزبانوں کی محبت بھی شامل تھی جس سے اس کا مزا دوبالا ہو گیا۔ میری بیگم فردوس کا جوتا پیدل چلنے کے لیے زیادہ موزوں نہیں تھا اس لیے وہ قریبی استقلال بازار کی طرف ایک میزبان خاتون کے ساتھ نکل گئی۔ بازار اس قدر بڑا پررونق اور ہجوم سے بھرا ہوا تھا سو ان دونوں خواتین کو ڈھونڈنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ واپسی پر دوستوں نے بتایا کہ یہاں ورک پرمٹ ملنا بہت مشکل ہے جس کی وجہ سے پاکستانی برادری بہت سے مسائل کی شکار ہے جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے لوگوں کے لیے پابندیاں نسبتاً کم ہیں۔
تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا کہ اس میں ہماری حکومت‘ وزارت خارجہ اور سفارت خانے سے زیادہ مسئلہ اس انسانی اسمگلنگ کا ہے جس کی وجہ سے یہاں غیرقانونی طور پر مقیم افراد نہ صرف بہت زیادہ ہیں بلکہ یہیں سے انھیں یونان بھی اسمگل کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ترک اور یونان دونوں ملکوں کی حکومتیں پریشان ہیں۔ لیکن دیکھنے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی وجہ سے باقیوں کو اس کا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے۔
20 دسمبر کی صبح ایوارڈ تقریب کے منتظمین نے اسی حوالے سے ایک ٹی وی انٹرویو کا اہتمام کر رکھا تھا مگر دلچسپ بات یہ تھی کہ انٹرویو لینے والے اینکر، پروڈیوسر کو ترکی کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی تھی یہاں ہمارا انگریزی دان گائیڈ رفیق کام آیا کہ وہ ترکی زبان میں کیے گئے سوال کا انگریزی ترجمہ کرتا اور میں انگریزی میں ہی جواب دیتا جاتا۔ ترکی میں انگریزی جاننے اور بول سکنے والوں کی تعداد بہت کم ہے یہاں تک کہ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی بیشتر تعداد بھی نو اور تھینک یو سے آگے کچھ نہیں جانتی۔
آج جمعے کا دن تھا سو طے پایا کہ نماز جمعہ یہاں کی مشہور تاریخی بلو یعنی نیلی مسجد میں ادا کی جائے۔ توقع کے برعکس مسجد کے در و دیوار اور مناروں وغیرہ میں کہیں بھی نیلا رنگ نمایاں نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ کسی زمانے میں اس کا فرش نیلے رنگ کی ٹائلوں سے بنایا گیا تھا سو اسی رعایت سے اس کا نام بھی بلو مسجد پڑ گیا۔ ترکی میں مساجد اپنی کثرت اور خوب صورتی کی وجہ سے بہت نمایاں ہیں۔
کسی نے بتایا کہ اس مسجد کی جگہ پر حضرت بلالؓ نے اذان بھی دی تھی لیکن اس خبر کی تصدیق نہ ہو سکی کہ یوں بھی باز نطینی حکومت کے دور میں اور سلطان محمد فاتح کی 1453ء میں فتح قسطنطنیہ سے سات سو برس قبل اس واقعے کا ظہور پذیر ہونا قرین قیاس نہیں تھا البتہ یہ بات طے ہے کہ میزبان رسول حضرت ابو ایوبؓ انصاری اپنی عمر کے آخری حصے میں جہاد کی غرض سے یہاں آئے اور یہیں ان کا انتقال ہوا جن کے مزار کو یہاں ایوب سلطان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
عزیزی فیضان اور رفیق نماز جمعہ کے لیے ہمارے ساتھی اور گائیڈ تھے، مسجد کا باہری اور اندرونی صحن ہجوم سے پُر تھے جس میں خواتین کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی۔ بیگم صاحبہ کو خواتین کے لیے مخصوص گیلری کی طرف روانہ کر کے ہم لوگ مسجد کے مرکزی ہال میں آئے تو تقریباً دو ہزار نمازی ہم سے پہلے موجود تھے جو نماز کے وقت تک شاید تین ہزار سے بھی زیادہ ہو گئے ہوں گے جب کہ اس کے علاوہ بھی وہاں ارد گرد کی جگہوں پر مزید نمازی جمع ہو چکے تھے۔
نماز کے بعد اور ایوب سلطان کی قبر پر فاتحہ خوانی سے قبل درمیانی وقفے میں استنبول میں پاکستانی قونصلیٹ میں قونصل جنرل بلال پاشا سے ملاقات طے تھی جو برادرم طاہر انور پاشا کے صاحبزادے ہیں اور جن سے فون پر کئی بار بات ہو چکی تھی۔ ان کے دفتر میں پہلی بار انجیر کو ایک چاکلیٹ کی سی شکل میں کھانے کا تجربہ ہوا، ان کے ساتھی قونصلرز سے بھی ملاقات رہی سب ہی بہت محبت والے لوگ تھے اور اس بات پر بہت خوش تھے کہ پہلی بار کسی پاکستانی ادیب کو ترکی میں ایک بڑے ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے۔
استنبول میں ہر تاریخی مقام کے ارد گرد مکئی کے بھٹے اور عرف عام میں چھلیاں بیچنے والوں کے اسٹال ملتے ہیں یہاں گرم پانی میں ابالی ہوئی چھلیاں بھی ملتی ہیں اور اس قدر نرم اور مزیدار ہوتی ہیں کہ میرے جیسے بوڑھے دانتوں والے لوگ بھی انھیں نہایت آسانی سے چبا سکتے ہیں۔
چھلی کی طرح یہاں کی آئس کریم بھی اپنا ایک خاص انداز رکھتی ہے، اس میں وہ لوگ شاید کسی قسم کی جیلی کا استعمال کرتے ہیں کہ یہ منہ میں گھلنے کے بجائے ربڑ کی طرح پھیلتی چلی جاتی ہے، سو آئس کریم اور چھلی سے لطف اندوز ہونے کے بعد حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے مزار پر حاضری دی گئی اور اس کے بعد رات کو کھانے کے بعد تقسیم میدان سے متصل استقلال بازار کی طویل سیر کی گئی جو اپنی ساخت کے اعتبار سے لندن کے آکسفورڈ اسٹریٹ اور پیرس کی شانزے لیزے کا ایک مرکب سا ہے۔