اپنی شان میں قصیدے پڑھنا بہت آسان لیکن یہ زندگی بہت بےرحم اور مشکل ہے جس میں زمینی حقائق کو جھٹلانے والوں پر بالآخر یہ زمین تنگ ہوتی چلی جاتی ہے اور نوبت وہاں جا پہنچتی ہے جہاں آخری مغل شمشیر زنی چھوڑ کے شعر زنی میں پناہ ڈھونڈتے ہوئے یہ لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔’’دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘‘مغلوں نےکہاں سے آکر کہاں جھنڈے گاڑے اور اک عالیشان سلطنت کی بنیاد رکھی لیکن پھر آخری عالم پناہ کو رنگون میں ’’پناہ‘‘ ملی اور ہندوستان پر قابض کون ہو گئے ؟جن کا اپنا ملک انگلستان صرف 50ہزار 385مربع میل پر مشتمل تھا جبکہ ہندوستان کا رقبہ ؟پرنسلی سٹیٹس نکال کر تقریباً 10لاکھ مربع میل پر محیط تھا۔1850میں انگلستان کی آبادی صرف 1کروڑ 66لاکھ تھی جبکہ اسی 1850میں ہندوستان کی آبادی چشم بدور 20کروڑ سے بھی زیادہ تھی۔یہاں دو اور حقائق بھی قابل ذکر کہ اوپر جس رقبہ کے سائز کا حوالہ دیا گیا اس میں باقی برٹش کالونیاں شامل نہیں اور اس سے بھی زیادہ شرمناک حقیقت یہ کہ فرنگی یہاں ایک لاکھ کی تعداد سے زیادہ کبھی نہیں رہا ۔لندن میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک چھوٹے سے بورڈ روم میں براجمان چند لوگ بذریعہ ’’ریموٹ‘‘ پورے برصغیر کو کامیابی بلکہ خوش اسلوبی سے کنٹرول کرتے رہے اور ’’ہمیں ‘‘ وہ وہ کچھ دے گئے جو’’آزادی‘‘ کے 72سال میں ہم خود کو نہ دے سکے بلکہ سچ پوچھیں کہ ان کا دیا ہوا برباد ہی کیا۔
اللہ بھلے کرے ایڈولف ہٹلر مرحوم کا جو دوسری جنگ عظیم میں شکست کھانے سے پہلے فرنگیوں کا اتنا خون نچوڑ گیا کہ یہ اپنی کالونیز پر کنٹرول قائم نہ رکھ سکے اور وہ بتدریج ان کے ہاتھوںسے نکل کر ’’آزاد‘‘ ہوتی چلی گئیں۔ہماری ’’آزادی‘‘ میں تھوڑا بہت حصہ ہٹلر مرحوم کا بھی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ہٹلر مرحوم نے بنکر میں خودکشی کی تھی اور اس کی قبر کہیں نہیں لیکن میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ …..’’آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے‘‘اور یہ مصرعہ بھی اس کے شایان شان ہے’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘‘میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ ہٹلر مرحوم کی وجہ سے زیادہ انسان موت کے گھاٹ اتارے گئے یا زیادہ انسان ’’آزادی‘‘ کے گھاٹ اترے لیکن یہ اک اور قسم کی بحث ہے جو مجھ جیسے جاہلوں اور احمقوں کو زیب نہیں دیتی کیونکہ میں ’’غیورہوں، باشعور ہوں اور زندہ قوم ہوں‘‘میں تو صرف اتنی سی بات یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ برصغیر کی عظیم ترین ٹریجڈی کو ’’فرنگی کی سازش‘‘ قرار دے کر فارغ اور بری الذمہ ہو گئے جس کی قیمت ہم اس وقت تک ادا کرتے رہیں گے جب تک ہولناک حقائق کا سامنا نہیں کرتے، اپنی حماقتوں کا اعتراف نہیں کرتے۔ سبق نہ سیکھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ ’’ہم‘‘ آج بھی مغلوں کے زوال کے دنوں والی حرکتوں میں مگن ہیں۔اشراف اور اجلاف انہی لوگوں کا ’’رپلیکا‘‘ ہیں جو مغلوں کے دور زوال میں کمال پر تھے ۔قارئین !آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج بیٹھے بٹھائے مجھے خودملامتی کا یہ ’’دورہ‘‘ کیوں پڑا ہے تو میں اس کا پس منظر آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں ۔میرے رب کا بے پایاں رحم وکرم ہے کہ دنیا بھر میں اردو پڑھنے سمجھنے والے جانتے ہیں کہ میرا لائل پور اور خوشامدی حکمرانوں کا فیصل آباد میرے محبوب ترین شہروں میں سے ایک ہے۔
اس کی گلیوں، کوچوں، سڑکوں، شاہراہوں سے محبت ہی نہیں عشق بلکہ عقیدت ہے ۔اس کے چپے چپے سے میری یادیں وابستہ ہیں۔’’میں تجھے بھول پائوں اگرمرا داہناہاتھ اپنا ہنربھول جائے‘‘اسی شہر میں میرا ایک دوست تھا پروفیسر اشفاق بخاری جو چند سال پہلے اللہ کو پیارا ہوگیا۔وہ ایک جینوئن ریسرچر تھا جس نے لائل پور کی تاریخ پر بہت کام کیا ۔اپنی ایک کتاب ’’چناب کلب‘‘ (صفحہ 89-88)پر اشفاق بخاری نے لکھا ۔’’انگریزوں نے 1896ء میں ریلوے ٹریک بچھا کر لائل پور اور شور کوٹ کو آپس میں ملا دیا ۔ریلوے ٹریک بچھانے کا اصل کام مدراس سے آئے ہوئے مزدوروں نے سرانجام دیا۔مقامی مزدور ٹریک بچھانے کے دوران پتھر پھینکنے اور ان کی ٹھوکا ٹھوکی تک محدود تھے (کیونکہ سادہ جسمانی مزدوری کے علاوہ اور کسی کام کے قابل ہی نہ تھے) تمام تر گورے انجینئرز بھی کلکتہ، مدراس اور لاہور سے درآمد کئے گئے تھے۔لائل پور کے عام آدمی کیلئے ریلوے ٹریک یعنی لوہے کی پٹڑیوں کا بچھایا جانا ان کی عقل ،فہم، فراست سے کہیں بالا تر تھا ۔جب لوہے کی ان پٹڑیوں پر ’’ٹھیلہ‘‘ چلنا شروع ہوا تو اس کو بھی مدراس کے مزدور ہی کھینچتے تھے ۔تب مقامی لوگوں کو ان ریلوے ٹریکس کی کچھ سمجھ آنی شروع ہوئی۔لائل پور کی تاریخ میں پہلی بار ٹرین کی آمد کا واقعہ بہت اہم اور ناقابل فراموش ہے جس کا ذکر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر مانکٹن کے حوالہ سے ملتا ہے جو اس وقت ٹرین پر سوار تھا ۔وہ ’’چناب کلب‘‘ لائل پور کی محفلوں میں ٹرین کی آمد کا واقعہ کچھ یوں سناتے تھے ۔’’ہم نے مقامی لوگوں کو کچھ نہیں بتایا تھا ۔شور کوٹ سے روانہ ہونے والی ریل گاڑی جب لائل پور اور اس کی مضافاتی آبادیوں سے گزری تو ریلوے لائن کے دائیں بائیں لوگ اپنی اپنی کھیتی باڑی مال مویشی چھوڑ کر بھاگ اٹھے ۔
سیاہ دھواں چھوڑتا ہوا کالا انجن جب عجیب آوازیں نکالتا ہوا گزرا تو ننگ دھڑنک لوگ ادھر ادھر چھپ گئے ۔ہم اس وقت مزید حیران ہوئے جب ہم نے بھاگ جانے والوں میں سے کئی جوانوں کو لاٹھیاں، برچیاں اٹھائے ’’ریل‘‘ سے ’’مقابلہ ‘‘ کرنے کیلئے واپس آتے دیکھا ۔ بوڑھے سجدے میں گرے ’’خیر‘‘ کی دعائیں مانگ رہےتھے ۔ہم ڈبے میں بیٹھے ہنستے ہنستے بے حال ہو رہےتھے ۔مقامی لوگوں کا ہجوم یوں بڑھ رہا تھا جیسے سوراخ میں پانی ڈالنے پر کیڑے مکوڑے دھڑا دھڑ باہر نکلنے لگتے ہیں‘‘قارئین!جان کی امان پائے بغیر عرض ہے کہ ہمارے اور مہذب دنیا کے درمیان آج بھی اتنا ہی فرق ہے جتنا 1850ء یا 1896ء میں تھا بلکہ یہ فرق اور فاصلہ کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے ۔اپنے ارد گرد غور سے دیکھیں اور بتائیں کوئی ایک ڈھنگ کی شے بھی ایسی ہے جو ’’ہم‘‘ نے ’’دریافت‘‘ یا ’’ایجاد‘‘ کی ہو؟سوائے بڑھکوں اور کھوکھلے دعوئوں کے ۔مانگے تانگے کی زندگیاں منگتوں کا مقدر ہوتی ہیں اور خوب تر کو خراج دینا ہی پڑتا ہے ۔لیوٹالسٹائی نے 14دسمبر 1908ء اپنے ایک ہندو دوست کو لکھا …….حیران ہو کر لکھا ۔”A COMMERCIAL COMPANY ENSLAVED A NATION COMPRISING TWO HUNDRED MILLION PEOPLE”