ارطغرل ۔۔۔۔ قومیت ، دین اور امت

اب آئیے اس سوال کی جانب کہ ارطغرل میں دین کی بات کی گئی ہے یا ترک قومیت کی؟ میرے خیال میں یہ دونوں کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جس میں توازن اپنے کمال پر موجود ہے ۔ اس توازن کے حسن کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک مسلم سماج میں قومیت اور دین کے باب میں موجود عدم توازن کو نہ سمجھ لیا جائے ۔

ایک طرف عرب دنیا ہے جس میں عرب قوم پرستی غالب رہی ہے ۔جمال عبدالناصر نے جب نعرہ لگایا ’’ العزۃ للعرب‘‘ یعنی عزت صرف عربوں کے لیے ہے تو یہ اسی قوم پرستی کی ایک عملی شکل تھی۔سلطنت عثمانیہ کے خلاف عربوں نے بغاوت کی تو اسے برطانیہ کی مکمل تائید اور سرپرستی حاصل تھی ۔ دل چسپ بات یہ کہ ’ عرب مزاحمت‘ کا پرچم بھی ایک برطانوی سفارت کار مارک سکائیز نے تیار کیا تھا ۔ اس میں دائیں سے بائیں سیاہ ، سبز اور سفید، تین رنگوں کی پٹیاں تھیں اور بائیں جانب ایک سرخ تکون تھی ۔ سیاہ رنگ سلطنت عباسی کے نشان کے طور لیا گیا ، سفید رنگ کو اموی سلطنت کے طور پر شامل کیا گیا ، سبز رنگ کو فاطمی حکومت سے نسبت کے طور پر رکھا گیا اور سرخ تکون کو ہاشمی سلطنت کی یادمیں اپنایا گیا۔

کسی روز مصر ، شام ، عراق ، کویت ، سوڈان ، عرب امارات ، یمن اور لیبیا کے پرچموں کو دیکھیے ، آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ سب اسی عرب مزاحمت کے پرچم کا عکس ہیں ۔ باقیوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے، قوم پرست رجحانات کے آزار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جس فلسطین کے لیے ترکی سے فریڈم فلوٹیلا جاتا ہے اس فلسطین کا پرچم بھی سلطنت عثمانیہ سے بغاوت کے زمانوں کا وہی پرچم ہے جو برطانوی سفارت کار مارک سکائیز نے تیار کیا تھا۔ یہ سیاق و سباق ذہن میں ہو تویہ سن کر حیرت نہیں ہوتی کہ ارطغرل کے جواب میں’ ممالک النارـ‘ تیار کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب ترکی ہے۔عربوں کی بغاوت اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفی کمال اتا ترک کا رد عمل بھی ایک قوم پرست کا رد عمل تھا۔اتا ترک سے اختلاف کی بہت سی جائز اور ٹھوس وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن ٹوٹتی بکھرتی سلطنت عثمانیہ میں ، کمال اتا ترک نہ ہوتے تو شاید ترکی کے لیے خلافت کے بعد بطور قومی ریاست اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جاتا ۔ اتا ترک مگر رد عمل میں بہت آگے چلے گئے۔ فیز ( سلطنت عثمانیہ کے اکابرین کی روایتی ٹوپی ) تک پہننے پر پابندی لگا دی ۔ عربی زبان اور حتی کہ عربی میں اذان تک پر پابندی لگا دی گئی ۔ یہ عرب قوم پرستی کی طرح ترک قوم پرستی کا آزار تھا ۔ وجوہات کی یہاں ہم بات نہیں کر رہے کیونکہ وجوہات یقینا عربوں کے پاس بھی ہوں گی اور اتا ترک کے پاس بھی۔

ان دو رانتہائوں کے بر عکس ایک تیسرا رویہ بھی سامنے آیا ۔ اس نے پاکستان میں جنم لیا۔ یہاں اسلامی قوتیں وفور شوق میں اعتدال قائم نہ رکھ سکیں۔ انہوں نے اپنے طور پر طے کر لیا کہ اچھا مسلمان بننے کے لیے ضروری ہے کہ دیگر تمام شناختوں اور حوالوں کی نفی کر دی جائے اور صرف مسلمان کہلائے جانے کو ترجیح دی جائے ۔ کوئی خود کو پشتون ، بلوچ ، سرائیکی ، سندھی اور پنجابی نہ سمجھے بلکہ سب خود کو صرف مسلمان سمجھیں ۔ یہ رویہ درست نہیں تھا۔ یہ منطقی اور فطری بھی نہیں تھا ۔

یہ انسان کی فطرت ہے اسے اپنے علاقے ، قوم اور زبان سے محبت ہوتی ہے۔ اسلام اس محبت کی نفی نہیں کرتا ، وہ اس کی صرف تہذیب کرتا ہے۔اسلام نہ کسی ایک خاص علاقے اور قوم کی بالادستی چاہتا ہے نہ وہ دیگر تمام تہذیبوں کو مٹا دینا چاہتا ہے۔وہ ایک آفاقی مذہب ہے اور اس میں تمام شناختوں کو ساتھ لے کر چلنے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔اسلام صرف یہ کرتا ہے کہ کسی بھی تہذیب یا قوم میں موجود خرابیوں کی اصلاح کر دیتا ہے اس کے بعد وہی تہذیب اسلامی تہذیب ہو جاتی ہے۔ اسلامی تہذیب صرف عرب تہذیب کا نام نہیں ہے۔یہ ایک وسیع تر مفہوم ہے جس کی معنویت کو سمجھنا چاہیے۔

اقبالؒ نے کہا تھا : بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا، نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی ۔ اس شعر کو ہم نے درست طور پر سمجھا ہی نہیں۔ اقبالؒ نے رنگ و خوں کی نفی نہیں کی، بلکہ بتانِ رنگ و خوں کی نفی کی ہے ۔ قبائل ، قومیت ایک تعارف تو ہیں، اس حقیقت کا تو خود قرآن نے اعتراف کیا ہے ۔ البتہ ان کی بنیاد پر نفرت اور عصبیت کی دیوار کھڑی نہیں کرنی چاہیے ۔ یہی وہ توازن ہے جو ایک قوم کو اپنے سارے تہذیبی حوالوں کے احترام کے ساتھ امت کی لڑی میں پروتا ہے۔

ارطغرل اسی توازن کا نام ہے ۔ ارطغرل میں بنیادی وابستگی دین اسلام ہی سے ہے ، ہاں ساتھ ساتھ ترک روایات کا بھی ایک احساس تفاخر موجود ہے۔ ممالک النار کی طرح یہ کسی دوسری مسلم قومیت کے ردعمل میں تیار کیا گیا ڈرامہ بھی نہیں ہے ۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ترکوں کا یہ قومی تفاخر دین پر عمل کرنے میں سامنے آتا ہے اس نے کبھی کسی ایک موقع پر بھی دین کی مبادیات کو چیلنج نہیں کیا۔ باہم الجھتے دو ترک جنگجو حدیث مبارکہ سنتے ہی ایک دوسرے کے ہاتھ کو بوسہ دے لیتے ہیں یا شدید غصے میں الجھتے سردار قرآن کی آیت سنتے ہی اپنے دعوے سے سر جھکا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں تویہ ایک ایسا احساس ہے کہ ہاں اللہ تعالی نے ہمیں جو حکم دیا ہے ہم ترک بڑے فخر سے اسے بجا لاتے ہیں ۔ ترک جب نبی رحمت ﷺ کا نام لیتے ہوئے احتراما سر جھکا کر دل پر ہاتھ رکھتے ہیں تو ترکوں کی یہ روایت پاکستانیوں کو بھی اچھی لگتی ہے ۔

یہ محض ترکوں کا ڈرامہ نہیں یہ ترک مسلمانوں کا ڈرامہ ہے۔یہ قوم اور مذہب کا امتزاج ہے۔ قومیت ، علاقیت اور زبان کے حوالے سے مسلم دنیا میں جو نفسیاتی گرہ پائی جاتی ہے ، ارطغرل اس گرہ کی نفی کا نام بھی ہے ۔ اسلام میں کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری نہیں۔ برتری اور فضیلت کا معیار تقوی ہے۔مسلم امت میں سے جو خود کو اہل ثابت کرے گا قیادت اسی کی طرف جائے گی۔ قیادت کا تعین اہلیت کی بنیاد پر ہو گا ، قومیت کی بنیاد پر نہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے