کافی پُرانی بات ہے۔ یہ اے کلاس سیاسی اجتماع تھا‘ جس میں مجھے کہا گیا کہ آپ کون سے قانون سب سے پہلے پارلیمنٹ میں لے جانا چاہیں گے، ترمیم کے لئے۔ عرض کیا، 3 قوانین‘ جنہوں نے کبھی قسمت کی ماری، بے چاری پارلیمان کا منہ نہیں دیکھا۔ ہر آنے والی اسمبلی کے ٹریژری بنچ انہیں ”بابا‘‘ کی نشانی سمجھ کر سینے سے لگا لیتے ہیں۔ اپوزیشن بنچز اُسے اپنے حکومتی دور کی سب سے بڑی غلطی کہہ کے قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ پہلا، توہین عدالت کا قانون (The Contempt of Court Ordinance 2003)۔ دوسرا، احتساب آرڈیننس (The National Accountability Bureau Ordinance 1999) اور تیسرا، ازالہ عرفی((The Defamation Ordinance 2002) ایک (سائز اور سیاسی معیشت دونوں میں) بڑے لیڈر کہنے لگے، لوگ کیا کہیں گے؟ پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ سالوں بعد قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اُسی لیڈر صاحب کو اپنی عمدہ پرفارمنس اور بہترین سٹریٹجی کی وجہ سے تیسرا دھکا پڑ گیا۔ جس کے بعد، ملک بھر سے مبلغ 3 عدد جانثار سرفروش ہر روز ایک ہی میڈیا ایونٹ، پنجاب ہائوس اسلام آباد کے باہر ری اِن ایکٹ (Re-enact) کرتے نظر آئے۔ جی ہاں، وہی پنجاب ہائوس جہاں سرکاری خرچ سے برپا کی گئی پریس کانفرنسوں کے بِل ابھی تک ادائیگی کے لئے ترس رہے ہیں۔ پہلے جانثار کی ڈیوٹی معزول وزیر اعظم کی گاڑی کو چُومنا تھا۔ دوسرے کو ٹی وی کیمرے نظر آتے ہی گاڑی کے آگے لیٹ جانے کی ڈیوٹی ملی جبکہ تیسرے متوالے، ملکۂ جذبات کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ہر روز رو رو کر بے حال ہو جانا جانباز کے فرائض منصبی میں تھا۔
3 ایکٹ کا یہ میڈیا نوٹنکی‘ جس میں کبھی بھی درجن بھر سے زیادہ فنکار شریک نہ ہو سکے‘ مارگلہ ایونیو کے آخری کونے پہ سٹیج ہوتا۔ جہاں پر 25/30 پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی آئوٹ ڈور براڈ کاسٹ گاڑیاں‘ اِتنے ہی ڈرائیور، اتنے ہی رپورٹر‘ NLE ٹیکنیشن اور اِسی تعداد میں سفید پوش ”کارِ خاص‘‘ والے اس میڈیا سرکس کو سجاتے۔ چونکہ سرکس کی غربی جانب سپریم کورٹ کے جج حضرات کی رہائشی کالونی واقع ہے‘ غرب میں پنجاب ہائوس کی دیوار جس کے دونوں طرف حساس ترین اداروں کے دفاتر بھی ہیں‘ اس لیے یہاں تماشہ گر جو چاہے تماشہ لگائیں‘ تماش بین میسر نہیں آ سکتا۔ سرکاری پروٹوکول والی گاڑیاں اور دو معروف شوگر ملوں کے سکیورٹی گارڈ چھوٹی سی ” قافلی‘‘ لے کر پنجاب ہائوس کے گیٹ سے باہر نکلتے۔ میرے رہائشی سیکٹر F-8 سے سپریم کورٹ جانے کا راستہ بھی یہی ہے۔ اس لئے ہر روز رپورٹر اور کیمرہ مین دوڑ کر ہمیں روکنے کا اشارہ کرتے۔ ہم مسکرا کر اُنہیں ہاتھ ہِلاتے اور ”مجھے کیوں نکالا‘‘ سے ”مجھے کیوں روکا‘‘ تک کا یہ شغل چلتا چلا جاتا۔
یادش بخیر، اسی عرصے میں صوبہ پنجاب میں ایک ”اصلی تے وڈا‘‘ آئرن مین مہاراجہ رنجیت سنگھ بننے کی ایکٹنگ کیا کرتا۔ نئے دور کے one-man rule نوٹنکی کا موجد‘ جس کا سارا ترقیاتی سفر اربوں کھربوں روپے کی کامیابیاں سمیٹ کر اب سنٹرل لندن میں جمع ہے‘ دونوں مفرور بیٹوں کے 4 ہاتھوں میں۔ ہر روز خبر ملتی کہ آئرن مین ارد گرد کے ہائی پروفائل دفتروں وغیرہ میں جھانکتے ہوئے پایا گیا۔ ساتھ یہ بھی کہ اس مسلسل ”تانکا جھانکی مہم‘‘ میں دُلہا بڑا بھائی نہیں بلکہ وہ خود ہے۔ یہ بھی پتہ چلتا رہا‘ عروسی جوڑے کی سلائی کڑھائی پر خرچہ بھی اُسی کا گروپ کرتا پھر رہا ہے۔ سالوں بعد بلکہ چند ہفتوں پہلے، خادمِ اعلیٰ و اُولیٰ کی گھریلو ٹویٹس نے اس تانکا جھانکی پر مہرِ تصدیق ٹھوک دی‘ جس کی تفصیلات اب شہرِ اقتدار میں بے موسمی ”چَھلّیوں‘‘ کی طرح ہر چوک میں دستیاب ہیں۔
ایک روز بڑے بھاء جی کی پریس کانفرنس کا کلِپ، متحرک رپورٹر نے بھیجا‘ جس میں موصوف دو باتوں پر اظہارِ افسوس کرتے سُنے گئے۔ پہلا افسوس اس بات پر کہ احتساب کا قانون بہت ظالمانہ ہے‘ جو جنرل پرویز مشرف نے آرڈیننس کے طور پر جاری کیا تھا۔ ساتھ کہا: مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی‘ میری حکومت یہ قانون کیوں تبدیل نہ کر سکی۔ دوسرے حصے میں اس سے بھی بڑی حسرت بیان کی۔ اپنی ہڈّ بیتی سنا کر‘ ان لفظوں میں ”یہ وکیل تو بہت ہی مہنگے ہوتے ہیں۔ میں، …میں، …میں آپ کو بتا نہیں سکتا ان کی فیس کتنی زیادہ ہے‘ مجھے حکومت میں خیال ہی نہیں آیا کہ میں اسے ٹھیک کرتا‘‘۔
آج کے وکالت نامے کے پہلے پیرے میں درج تینوں صدارتی آرڈیننسوں میں سے ایک میڈیا پر زیرِ بحث ہے۔ پارلیمنٹ اور عدالت میں بحث سے بھی پہلے۔ آئیے، اس حوالے سے تازہ کل اور جاری آج کے تضادات کی چند جھلکیوں میں تانکا جھانکی کریں۔
پہلا تضاد! احتساب کا قانون جنرل پرویز مشرف نے نہیں بلکہ نواز شریف کی فرمائش پر مرحوم صدر فاروق لغاری نے بنایا تھا۔ سال 1996 میں صدارتی آرڈیننس نمبرCXI آف 1996 کے ذریعے۔ اگلے سال 1997 میں نواز شریف کے حسنِ انتخاب نے اِسے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت سے احتساب ایکٹ نمبر IX آف1997 بنا دیا‘ جس کا سربراہ اپنے گھریلو سینیٹر اور بزنس فرنٹ مین سیف الرحمن کو لگایا۔ یہ دونوں آرڈیننس اور ایکٹ آف دی پارلیمنٹ ”100 فیصد خالص شریفانہ انصاف‘‘ پر مبنی تھے۔ اسی لئے جمہوریت کے کُوڑے دان سے اِن کو اُٹھا کر، جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کے بعد اس ”100 فیصد خالص شریفانہ انصاف‘‘ پر N.A.B. کا بورڈ لگا دیا۔ انگریزی لغت میں nab کا اُردو زبان میں مطلب ہوتا ہے‘ یکایک پکڑ لینا، حراست میں لے لینا، گھیر لینا یا کسی کو دھر لینا؛ چنانچہ یہ سارے شریف لوگ اپنے ہاتھوں بنائے گئے قانون کے تحت دھر لیے گئے۔
دوسرا تضاد! عمران خان کے دورِ حکمرانی کے 1 سال 4 مہینے اور 13 دن اپوزیشن والے ایک ہی بات مسلسل کہتے رہے‘ ہم نے احتساب کے قانون میں تبدیلی نہ کر کے”شدید جھک‘‘ ماری ہے۔ اس غلطی کا ازالہ فوراً ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ پی ٹی آئی حکومت احتسابی قانون میں ترامیم کا بل اسمبلی لے کر آئے۔ اب اُسی بل کو پچھلی فرمائشیں نظر انداز کر کے پڑھے بغیر مسترد کر دیا گیا حالانکہ احتساب ترمیمی بل کو اسی شکل میں یا بدلی ہوئی شکل میں منظور کرنا بھی پارلیمان کا ہی اختیار ہے۔ اس سارے عمل سے پہلے ٹویٹ ازم ، پریسرازم، اور ٹاک ازم کے ذریعے تضاداتی مہم چلانے کا صرف ایک ہی مطلب نکلتا ہے۔ اور وہ یہ کہ پارلیمنٹ تقریری مقابلے منعقد کرنے کا سرکاری فورم ہے‘ یہ ادارہ قانون سازی کرنے کے لئے پارلیمانی debates کے لئے نہیں بنا۔
تیسرا تضاد! ساری دنیا میں کرپشن کے خلاف موثر ادارے موجود ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے UNODC سمیت۔ اور یہ بھی طے شُدہ بات ہے کہ ٹیررازم سے زیادہ خطرناک کینسر کا نام ہے کرپشن۔ کرپشن کی بین الاقوامی طور پہ مسلمہ تعریف یوں ہے‘ Corruption is the abuse of Public Office for private gain.
موجودہ ترمیم میں اسی عالمی تناظر کو بھی مدّ نظر رکھا گیا۔ لُطف بر لُطف یہ ہے کہ جو لوگ نیازی نیب گٹھ جوڑ کے نعرے مارتے تھے‘ وہی لوگ احتساب کے قانونِ مشرف کی بربادی کے بین ڈال رہے ہیں۔
چوتھا تضاد! ویڈیو دلیل والا ہے‘ جس کے ذریعے ANF جیسے قومی ادارے پر چاند ماری ہو رہی ہے۔ کہتے ہیں ویڈیو بنائے بغیر کسی کو مجرم کیوں کہا جائے۔ ارے سیانو! ماڈل ٹائون کی ویڈیوز تو براہِ راست نشر ہوئی تھیں۔ آئرن مین کے وزیر تعلیم کی رشوت خوری کے اعتراف والی ویڈیو سب نے دیکھی‘ اس پر کیا فرماتے ہیں ارسطو ہائے عصرِ حاضر؟۔
دسمبر کے مہینے میں پروین شاکر نے شاید انہی تضادات کی پیش گوئی کی تھی۔
کون جانے نئے سال میں تُو کِس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح