زبان، یارِ من ترکی

ایوارڈ کی تقریب کے بعد کی رُوداد سے پہلے ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس کی طرف کئی احباب نے اشارا بھی کیا ہے کہ مجھے وہاں انگریزی کے بجائے اُردو میں اظہارِ خیال اور شکریہ وغیرہ اد ا کرنا چاہیے تھا۔

یہ شکایت اور توقع دونوں بالکل جائز اور درست ہیں اور میں خود وقتاً فوقتاً اس کے بارے میں لکھتا رہا ہوں کہ کسی عالمی پلیٹ فارم پر جہاں کہیں ترجمے کی سہولت موجود ہو ہم سب کو اپنی زبان ہی میں بات کرنی چاہیے کہ اس سے آپ کے ملک اور زبان دونوں کا وقار بلند ہوتا ہے البتہ اگر ایسا نہ ہو یا کوئی اور معقول وجہ آڑے آتی ہو تو یہ ایک الگ معاملہ ہے اب ہوا یوں کہ ایوارڈ انتظامیہ کی طرف سے تقریب سے چند گھنٹے قبل مجھے کہا گیا کہ میں اپنی مطلوبہ اور متوقع مختصر تقریر انھیں لکھ کر دے دوں تاکہ وہ اس کے ترکی زبان میں ترجمے کااہتمام کرسکیں لیکن جب میں نے انھیں بتایا کہ میں اپنی قومی زبان یعنی اُردو میں اظہارِ خیال کرنا چاہوں گا تو وہ لوگ مخمصے میں پڑگئے اور کہا کہ وہ اپنے سینئرز سے بات کرکے دوبارہ مجھ سے رابطہ کریں گے ۔

کوئی دو گھنٹے بعد اُن کا فون آیا کہ سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے کیے گئے کچھ اصولی اور انتظامی فیصلوں کی وجہ سے اب اُن کے لیے کسی اُردو ترجمان کا حصول اور اُس کو پروگرام میں شامل کرنے کی گنجائش موجود نہیں اس لیے درخواست کی جاتی ہے کہ میں انگریزی یا ترکی میں ہی بات کروں ’’زبانِ یارِ من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘ والا مصرعہ تو کئی بار سنا اور بولا تھا مگر اُس کے اصل معانی کا اب پتہ چلا اور یوں یہ بھی طے ہوگیا کہ انگریزی استعمار کی ڈیڑھ سو سالہ یاری پر غلامی کا پلڑا کیسے ایک ہزار سال کے گونا گوں اور گہرے رشتوں پر بھاری پڑسکتا ہے سو یہ تھی وہ مجبوری جس کی وجہ سے مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اُردو کے بجائے انگریزی میں بات کرنا پڑی البتہ یہاں میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ اصول دوسروں کے ساتھ ساتھ خود آپ اور اپنے گھر پر بھی لاگو کرنا چاہیے کہ فی الوقت کم از کم شہروں کی حد تک ہمارے 25% سے زیادہ انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اردو میں چند جملے بھی لکھنے یا پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور سب سے پہلی ضرورت اس مسئلے پر غور، کام اوراحتجاج کی ہے بچوں کو اُن کی قومی اور مادری زبانوں میں تعلیم دینا انگریزی یا کسی دوسری زبان کا قلع قمع کرنے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ جس قدر ہم انھی زبانوں پر فخر کے ساتھ ساتھ اسے سیکھنے ، پڑھنے ، بولنے اور لکھنے پر توجہ دیں گے اُسی قدر ہماری ’’خوئے غلامی‘‘ کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی۔ یہ بات ضرورت سے کچھ زیادہ طویل ہوگئی ہے سو اب اس امید اور دعا کے ساتھ اسے ختم کرتے ہیں کہ ہم زبان کو اپنے تشخص کی علامت تو ضرور بنائیں مگر اسے تعصب کی آگ کا رزق نہ بننے دیں۔

ٹاپ کیپی Top Kapiکا تعلق استنبول کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسے لاہور کے ساتھ شاہی قلعے یا آگرے کے ساتھ تاج محل کا اور ان کو دیکھے بغیر ان شہروں کی سیاحت مکمل نہیں کہلا سکتی ان تینوں میں ایک اور مشترک وصف یہ بھی ہے کہ ہر جگہ پر بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے جب کہ ہمارے گوڈے گٹے بھی اب اصل میں انھی تاریخی مقامات کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ یہاں بوجوہ آن لائن بکنگ نہیں ہوسکی تھی چنانچہ عزیزی رفیق ہمیں ایک نزدیکی چائے خانے میں بٹھا کر خود ٹکٹ لینے والوں کی لائن میں لگ گیا جو اس وقت کوئی بہت زیادہ لمبی نہیں تھی یعنی ہمیںچائے کا چوتھا کپ نہیں منگوانا پڑا۔

عالی شان محلّات کیسے عجائب گھر کی شکل اختیار کرتے ہیں اور یہاں کے ظلِ الٰہی اور جہاں پناہ قسم کے لیکن کیسے بے نام اور بے چہرہ ہوجاتے ہیں اور اُن کی خواب گاہوں کے علاقے میں کیسے طرح طرح کے سیاح حضرات دندناتے پھرتے ہیں یہ ایک ایسا سبق ہے جو بد قسمتی سے اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب منظر کی جگہ اس کے تماشائی لے لیتے ہیں اور بصیرت عبرت کی شکل اختیار کر جاتی ہے یہ اور بات ہے کہ پیرو مرشد مرزا غالب نے اس عبرت کو بھی یہ کہہ کر ایک رومانٹک چیز بنا دیا ہے کہ

ہنگامہء زبونیِ ہمت ہے انفعال

حاصل نہ کیجے دہر سے ، عبرت ہی کیوں نہ ہو

اس وسیع و عریض گزرے وقتوں کی ایسی ایسی اور اس قدر یادگاریں ہیں کہ اِن کو توجہ سے دیکھنے کے لیے شائد ایک پورا دن بھی کم پڑجائے سو ہوا یوں کہ ہم نے ساری توجہ اس پر مرکوز رکھی جس میں رسول کریمؐ اُن کے اہل بیت اور صحابہ کرام کی یادگاریں محفوظ کی گئی ہیں اب چونکہ ہم مسلمانوں کے لیے یہ اشیاء صرف تاریخی ورثہ نہیں بلکہ ان کے نقش ہماری اجتماعی نفسیات میں صدیوں سے محفوظ چلے آرہے ہیں سو قدم قدم پر کچھ ایسی صورت بن جاتی ہے کہ

کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جا است

یوں تو یہاں رکھی گئی تمام چیزیں دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچنے والی تھیں مگر رسول پاکؐ اور اُن کے اہلِ بیت سے متعلق یادگاروں کا معاملہ بھی کچھ اور تھا۔ حضرت فاطمہؓ زہرہ کا پہنا ہوا ملبوس مبارک ہو یا جناب امام حسینؓ کا کرتا نما لبادہ، حضور کی ریشِ مبارک کا بال ہو یا اُن کا استعمال کیا ہوا پیالہ ہر ایک چیز دل کے اندر کئی ایسے دروازے کھولتی چلی جاتی تھی جن کے اندر ایک ایسی دنیا آباد تھی جو صرف محسوس کی جاسکتی ہے سمجھائی نہیں جاسکتی۔

رات کے لیے عزیزی سفیان جٹ اور اُس کے دوستوں نے ایک ایسے کروز پر بکنگ کر ا رکھی تھی جس نے تین گھنٹے میں اپنا سفر مکمل کرنا تھا ،اس دوران میں بہت عمدہ ڈنر کے ساتھ ساتھ ترکی کے علاقائی ا ور قدیم رقص مختلف آئٹمز کی شکل میں پیش کیے گئے، یہ ڈانسز اس تصور کے مکمل عکاس تھے کہ ترکی کس طرح سے بیک وقت ایشیاء اور یورپ کے کلچرز کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔

میری اہلیہ فردوس نے اپنے لیے مچھلی کا آرڈر دیا مگر جب اُس کی مطلوبہ ڈش سامنے آئی تو اس کی آنکھیں اور منہ دونوں کھلے کے کھلے رہ گئے کہ پلیٹ میں ایک سالم مچھلی اس طرح سے رکھی تھی جیسے ابھی ابھی سمندر سے نکالی گئی ہو قریب سے دیکھنے اور چکھنے کے بعد پتہ چلا کہ اسے پکایا تو گیا ہے مگر کچھ اس طرح کہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے ، نہیں ہے‘‘ ہم نے واٹس ایپ پر مچھلی کی تصویر یں بچوں سے شیئر کیں اب یہ جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ کھانا ختم ہونے سے پہلے بچوں اور اُن کے بھی بچوں کے تاثرات ہم تک پہنچنا شروع ہوگئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے