قرآن کہتا ہے ”اللہ تعالیٰ مشرق و مغرب کا رب ہے‘‘۔ یعنی زمین کا مجموعی اعتبار سے ایک مشرق ہے اور ایک ہی مغرب ہے‘ پھر فرمایا ”وہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے‘‘ یعنی سردی اور گرمی میں دو جگہوں سے طلوع ہوتا ہے اور دو جگہوں سے غروب ہوتا ہے۔ مزید فرمایا ”وہ مشرقوں کا رب ہے اور مغربوں کا رب ہے‘‘۔یعنی مشرق بھی بہت سارے ہیں اور مغرب بھی بہت ہیں۔
اپنی زمین کے حوالے سے دیکھیں تو سال کے 365 دن ہوتے ہیں‘ یعنی سورج ایک سال میں 365مشرقوں سے طلوع ہوتا ہے اور اتنے ہی مغربوں پر غروب ہوتا ہے۔ اب‘ ہم اپنی زمین سے باہر نکلیں اور نظامِ شمسی کے 9 یا 10سیّاروں کے مشرق و مغرب دیکھیں۔ ساتھ اپنے چاند اور سیّاروں کے چاندوں کے مشرق و مغرب شمار کریں ‘تو وہ ہزاروں تک جا پہنچیں گے۔ اس سے آگے بڑھیں اور اپنی دودھیا گلیکسی میں جا نکلیں ‘تو وہاں اربوں سورج ہیں۔ ہر سورج کے متعدد سیّارے ہیں‘ پھر چاندوں کو شمار کریں تو اللہ تعالیٰ بے شمار مشرقوں اور مغربوں کا رب ہے۔
اور آگے بڑھیں تو گلیکسیاں اربوں‘ کھربوں کی تعداد میں ہیں۔ الغرض‘ لاتعداد اور اَن گنت مشرقوں اور مغربوں کا رب اللہ ہے۔ قرآن نے مشرق اور مغرب کے لئے ”مشارق اور مغارب‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تو آج کے انسان کو آگاہ فرمایا ” اے انسان‘ تو زمین کے چند مشرقوں اور مغربوں میں بندھا ہوا ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ تو بے شمار سمتوں کا رب ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید فرقان حمید ایسی کتاب ہے ‘جو انسان کی نظر کو کائنات کی وسعتوں کے درمیان لے جا کر کھڑا کر دیتی ہے‘ تاکہ وہ اللہ کی قدرتوں اور عظمتوں کے سامنے سربسجود ہو کر ”سبحان اللہ‘‘ کا ورد کرتا رہے۔
قرآن بتایا ہے ”بلاشبہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اس دن سے اللہ کی کتاب میں بارہ ہے‘ جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا‘‘(التوبہ:36)۔
یہاں کتاب سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ سپر کمپیوٹر ہے‘ جس میں کائناتوں کی پیدائش اور ان کی تقدیر لکھی ہوئی ہے۔ ہم اہل ِزمین کی تقدیر میں بارہ مہینوں کو طے کیا گیا تھا۔ ہمیں جو چاند دیا گیا۔ اس حساب سے سال کے دن 354یا 355دن بنتے ہیں۔ 29یا 30دن کا مہینہ بنتا ہے۔ دن رات ہمارے 24گھنٹے کے بنتے ہیں۔ ہم زمین پر بستے ہوئے ایسے ہی وقت کے پابند ہیں اور بندھے ہوئے ہیں۔ اس ٹائم اور وقت کے حساب سے اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے اپنی امت کے انسان کی اوسط عمر ساٹھ سال سے ستّر سال کے درمیان بتائی ہے۔
انسان اسی ٹائم کے اندر موم بتیاں جلا کر سال گرہ کا انعقاد کرتا ہے‘ تالیاں بجا بجا کر خوش ہوتا ہے۔ اگلے ہی لمحے اس کی برسی منا کر غمگین ہوتا ہے کہ میرے پیارے کو اس دنیا سے گئے ہوئے اتنے سال ہو گئے ہیں‘ پھر جب اس کی آل اولاد فوت ہو جاتی ہے‘ تو نہ اس کی سال گرہ رہتی ہے اور نہ اس کی برسی رہتی ہے‘ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اسے جاننے والا دنیا میں کوئی نہیں ہوتا۔ سب معدوم ہو جاتے ہیں۔
اس کے برعکس قرآن اپنے پہلے الہام میں انسان کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ اپنے اس رب کا نام لے کر قرآن پڑھے ‘جس نے اس کو پیدا کیا۔ خون کے جمے ہوئے لوتھڑے سے پیدا فرمایا۔ قرآن اسے مخاطب کر کے کہتا ہے کہ ”انسان کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے‘‘ ۔
قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ ”انسان کو مشقت میں پیدا کیا گیا ہے‘‘۔ قرآن ایسے انسان کو مزید مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے ”اے انسان! وہ کون سی چیز ہے (دنیا اور اس کی چمک دمک) کہ جس نے تیرے انتہائی کریم رب کے بارے میں تجھے دھوکے میں مبتلا کر دیا ہے‘‘۔ یعنی جس طرح انسان کی عمر عارضی ہے‘ اسی طرح یہ ٹائم اور وقت بھی عارضی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ”اے انسان! تو دنیا کی مصیبتیں جھیلتا جھیلتا ایک دن اپنے رب سے ملاقات کرنے آ جائے گا‘‘۔ (القرآن)
سورئہ انسان کا آغاز ہی یہاں سے ہوتا ہے کہ ”کیا انسان پر کوئی ایسا وقت بھی زمانے میں سے ہو گزرا ہے کہ جب وہ کوئی قابل ِذکر شئے ہی نہ تھا‘‘۔ جی ہاں! کائنات کی تقریباً 12ارب سال کی عمر میں وہ کبھی انرجی تھا تو کبھی گیسی حالت میں تھا۔ انرجی اور گیسی گولے سے زمین بنی تو مدتوں بعد مٹّی وجود میں آئی۔ اس مٹی سے حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے‘پھر انسانی پشتوں سے ڈی این اے اور اس میں موجود ”جین‘‘ سے اس کا سلسلہ چلا پھر رحمِ مادر میں اس کی تخلیق کا آغاز ہوا‘ یعنی ایک انتہائی لمبا عرصہ ہے‘ جو وہ طے کر کے آیا ہے۔
جی ہاں! اس کی حیوانی زندگی شکمِ مادر میں متواتر آگے بڑھتی رہی ؛حتیٰ کہ فرشتہ آیا اور اس نے اصل انسان ‘یعنی روح کو اس میں اس وقت پھونکا جب وہ اپنے تمام اعضاء کو نمایاں کر چکا تھا۔ جونہی روح پھونکی گئی ‘وہ انسان بن گیا۔
معروف عالمی سکالر عبدالدّائم بتاتے ہیں کہ سائنسدانوں کی تازہ ریسرچ یہ ہے کہ انسان کے دماغ سے انتہائی لطیف ترین لہریں ‘اس وقت نکلتی ہیں ‘ جب بچہ اپنے اعضاء مکمل کر چکا ہوتا ہے۔ اور یہ اس وقت تک نکلتی رہتی ہیں ‘جب تک وہ مر نہیں جاتا۔ اس کے مرنے پر یہ لہریں نکلنا بند ہو جاتی ہی۔یعنی ان لطیف ترین لہروں کا تعلق انسانی روح کے ساتھ ہے‘ جو آسمان سے آئی تھی اور آسمان کی جانب چلی گئی تھی۔ ایک فرشتہ اس کو لایا تھا اور دوسرا فرشتہ اس کو واپس لے گیا۔ اب‘اس کا حیوانی وجود باقی رہ گیا۔ اصل سوار تو پرواز کر گیا۔
جی ہاں! قبل اس کے کہ حیوانی وجود جو گلنا سڑنا شروع ہو جاتا ہے‘ اسے مٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے اور وہ وہاں مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے‘ جبکہ اصل انسان اپنے اچھے برے اعمال کے ساتھ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے ۔ہم اپنے آپ کو انسان بنا لیں!
اے انسان! تیرا 2019ء کا سال تو گزر گیا۔ 2020ء کا آغاز ہو گیاہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سال حیوان بن کر گزارنا ہے یا انسان بن کر…؟
قرآن کی ایک سورت ہے‘ جس کا نام ”العصر‘‘ ہے۔ شروع میں واؤ ‘ لا کر اللہ تعالیٰ قسم کھاتے ہیں اور زمانے ‘یعنی ٹائم کی قسم کھاتے ہیں۔ ثابت ہوا ٹائم بھی مخلوق ہے۔ یہ ختم ہو جائے گی۔ یہ قسم کھا کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسان خسارے میں ہے۔ وہ جس قدر بڑا عہدہ حاصل کرلے۔ مال جمع کر لے۔ اخیر اس کا خسارے میں ہے۔ ہاں! اس خسارے سے بچا وہ ہے‘ جو اللہ پر ایمان لایا اور نیک اعمال کیے۔
آئیے! ہم سب اپنے موجودہ سال 2020ء کو اپنے لئے بہتر بنائیں۔ ظلم‘ جھوٹ‘ فریب‘ دغا بازی اور منافقت وغیرہ سے اپنے آپ کو پاک کریں۔ انسان بنیں اور انسانوں کی قدر کریں۔ معلوم نہیں‘ اصل انسان کو لینے والے کب آ جائیں۔ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے آپ کو خسارے سے بچا لیں۔ اللہ کے ساتھ اپنی ملاقات کی تیاری کو خوبصورت سے خوبصورت بنا لیں!