خیال – طرفہ تماشہ

بات دو ہزار گیارہ کی نہیں، جب اعلان جنگ ہوا ۔۔۔ عمران خان اکتوبر کی کسی شام مینار پاکستان سے براہ راست اقتدار کی شاہراہ پر آنکلے ۔۔۔ اور دو ہزار اٹھارہ میں منزل مقصود پر پہنچے ۔۔۔ عمران خان سے ایک رات بعد شہبازشریف نے آصف زرداری کو گھسیٹا تھا ۔ اور پھر پکڑو، مارو، جلا دو بھسم کردو، کیوں نکالا، چور لٹیرے ڈاکو، ووٹ کی عزت اور احتساب کی راگنی بجتی رہی ۔ دو انتخابات میں منشور، نعرے اور بیانیے نہ بدلے۔ لے اور دے کی سیاست کی نفی کا راگ اپنے جوبن پر رہا ۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ ضیاء کی روشنی سے جگمگائی لیگ کے ن نے سول سپریمیسی کی قسم کھائی ہے اور اب تو جمہوریت خود مسند سے اٹھ کر ان سے بغل گیر ہوجائے گی۔ ملک کے جمہوریت پسند طبقے نے انہیں نجات دہندہ مان لیا ۔ بے نظیر بھٹو کے بعد عصر حاضر کا بڑا لیڈر بھی کہہ گئے۔ لیکن ننانوے اور اس کے بعد کے حالات کے برعکس میاں صاحب جیل تو گئے ۔ جیل میں رہے پھر ضمانت لی اور اب لندن میں زیر ایون فیلڈ ہیں۔

دوسرے صاحب کرکٹ کے کپتان سے وزیراعظم بن گئے۔ احتساب، نہیں چھوڑوں گا، رلاؤں گا اور ڈراوے دھمکاوے اور دبنگ انداز میں سیاسی تقاریر پر خوب سر دھنا گیا۔ اپنے اقتدار کا پہلا ایک سال عصر حاضر کے چی گویرا یہی اعلان کرتے رہے کہ وہ این آر او نہیں دیں گے ۔ احتساب پسند قوتوں کے نجات دہندہ اور ملک کی خدا ترس اشرافیہ کے لیڈر عمران خان کو صرف یہی غم کھائے جاتا رہا کہ ملک کا پیسہ لوٹنے والے کٹہرے میں ہوں، لیکن دو ہزار چودہ میں سپریم کورٹ کی دیوار پر شلواریں لٹکائی گئی تھیں اب پارلیمنٹ پر آرڈیننسز کی قمیض لٹکا دی گئی ہے۔

این آر او عمران خان نے نہیں دیا، اور ن لیگ اب بھی ووٹ کو ہی عزت دے رہی ہے۔ بدلہ کچھ نہیں۔ لیکن جمہوریت پسند اور احتساب پسند قوتیں اپنا اپنا سا منہ لے کررہ گئیں۔ ن لیگ اور پی ٹی آئ ورکرز ہمیشہ گھتم گھتا رہے ہیں۔ نوے کی دہائی کی سیاست یاد دلائی ہے۔ میم بنا بنا کر سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کئے رکھا۔ انصاف کے کھدالوں اور جمہوریت کی کھدوئیوں سے سیاست کے پہاڑ کھود کر مرے ہوئے چوہے برآمد کرنے کے شوق میں نوے کی دہائی کے پاک باز آج کے کرپٹ، اور آج کے پاک باز جتے رہے۔ اب صورتحال نہایت گھمبیر ہے۔ پہلے شائبہ تھا اب یقین سا آرہا ہے کہ کہیں مخلوط حکومت میں پی آئی ڈی کے پلیٹ فارم پر احسن اقبال اور فواد چوہدری حکومتی ترجیحات پر بریفنگ دے رہے ہوں۔ عابد شیر علی اور مراد سعید کا کرپشن کے خلاف عزم کا اعادہ، عمران خان اور نوازشریف کی ملاقات میں ملک کی بہتری کے لئے اقدامات کا فیصلہ، ایسی خبریں آنے لگیں تو بعید نہیں لیکن عجیب ضرور ہے۔

یوٹرن کے فضائل ویسے بھی وزیراعظم اور ان کے تمام لورز کو از بر ہیں ۔ نوازشریف اور شہبازشریف یوٹرن لینے کی پوزیشن میں تو نہیں لیکن لیفٹ ٹرن ضرور کرسکتے ہیں۔ اس مکمل ٹاٹ میں جے یو آئی ف کا پیوند لگا کر سرخ اور سبز کے درمیان کالی لکیر بھی کھینچ دی ہے۔

خیر یہ تو مفروضے ہیں۔ لیکن یہ دنیا ہے یہاں یہ تماشہ ہوبھی سکتا ہے۔ تماشے تو ہر جگہ ہورہے ہیں ۔ یہاں مسئلہ لڑائی کا ہے۔ اداروں کی لڑائی کی بات نہیں کررہا میں۔ میں سیاسی جماعتوں کی باہمی دست وگریباں داری کی بات کررہا ہوں ۔ جو رسم الفت کی طرح چل رہی ہے۔ تحریک انصاف دھمیی آواز میں "سخت لہجے” میں احتساب کی سرگوشی کررہے ہیں۔ ن لیگ کو بھی نیب ترمیمی آرڈیننس پر "شدید” اعتراضات ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی یہی گن گا رہی ہے کہ ترمیمی آرڈیننس سے وزیراعظم کے اردگرد بیٹھے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ اور اگر اسمبلی میں ترتیب کی بات کریں تو دائیں طرف اپوزیشن کی نشستیں بھی پڑتی ہیں۔ اب ترمیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست کو بھی ایمنسٹی سکیم کی طرح خفیہ رکھا جائے گا یا سرعام معافی ملتی جائے گی اس کا فیصلہ وقت کرے گا بہرحال حکومت نے لنگر خانے کھول کر اچھا اقدام کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے