مدرسہ ڈسکورسز سے متعلق مختلف حلقوں کی جانب سے ملی جلی آرا سامنے آتی رہتی ہیں، رواں ہفتے جب اس کورس کا تیسرا بیج ونٹر انٹنسو کے لیے قطر آیا تو یہ سلسلہ ازسرنو شروع ہو گیا، اس مرتبہ مجھے بھی کورس کے شرکا سے ملنے اور خود ان کے تاثرات جاننے کا موقع ملا اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں بھی اس بابت اپنی رائے کا اظہار کروں۔
میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ یہ کورس انتہائی اہمیت کا حامل اور وقت کی ضرورت ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہت پہلے ہی ہمارے اکابرین جدید چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے فضلا کو تیار کرتے اور اگر وہ خود اس انداز میں آگے نہیں بڑھ سکتے تھے تو کسی ایسے فاضل سے اس بابت مدد لیتے جو اپنی مدد آپ کے تحت یہ صلاحیت حاصل کر چکے ہیں تاکہ وسیع پیمانے پر نوجوانوں کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تیار کیا جا سکے، لیکن افسوس کہ ایک طرف خود اہل مدرسہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس طرف توجہ نہیں دے سکے تو دوسری طرف اپنی سرپرستی میں جدید و قدیم سے آراستہ کسی شاگرد سے بھی استفادے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ (اس سب پر مستزاد یہ کہ نہایت اخلاص کے ساتھ اس جانب قدم رکھنے والوں کو گمراہ اور شر کا پروردہ قرار دیا گیا۔ فإلى الله المشتكى.)
ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کو اس کام کے لیے چنا اور انہیں پاکستان سے مولانا عمار خان ناصر اور ہندوستان سے ڈاکٹر وارث مظہری صاحب جیسے مخلص اور درد دل رکھنے والے رفقاء کار عطا کیے، جنہوں نے علماء کی جدید خطوط پر تربیت کا بیڑہ اٹھایا اور اس میں کافی حد تک کامیاب جارہے ہیں۔
لیکن تاحال اس کورس کے شرکا اور اس کے منتظمین کو اجنبیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جس کی راقم کی نظر میں تین وجوہات ہیں، جب تک ان تین خامیوں کو دور نہیں کر لیا جاتا یا یہ کہ دیکھنے والے انہیں خامیاں سمجھنا چھوڑ دیں تب تک یہ منفی تاثر باقی رہے گا۔
1: سب سے پہلی اور بڑی خامی اس کورس کی یہ ہے کہ اس کے منتظم اعلی ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب ہیں جوکہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی (نوٹرے ڈیم) میں اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ اگر یہی ڈاکٹر صاحب انہیں افکار و نظریات کے ساتھ کسی عرب ملک کی یونیورسٹی کے پروفیسر ہوتے تو مجدد دوران کہلاتے، اور علما ان کی پیشانی کو چومتے لیکن ان کی سب سے بڑی خامی امریکہ میں مقیم ہونا ہے چاہے پس منظر میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء ہی کیوں نہ ہوں۔
2: پاکستان کی حد تک دوسری خامی کی وجہ مولانا عمار خان ناصر صاحب ہیں جو اگرچہ سکہ بند دیوبندی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن دیوبندی حلقوں میں ایک معروف ہفت روزہ سے مسلسل ” گمراہی” کا سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔ وقت نے اس ہفت روزہ کی بہت سی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے اور دوسری طرف عمار خان صاحب سے متعلق غلط فہمیاں بھی وقت کے ساتھ ساتھ دور ہو رہی ہیں اور بڑی تیزی سے فضلاء ان کے قریب ہو رہے ہیں۔
3: تیسری خامی مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے بیچ (batch) کا انتخاب تھا، میں تینوں بیچوں کے بہت سے شرکا سے واقف ہوں اور ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ انتہائی ذی استعداد و باصلاحیت ہیں لیکن پہلے بیج کے بعض شرکا جدیدیت کے اسباق کو اچھی طرح ہضم نہیں کر سکے اور قدیم و جدید کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کر دیا، اس طرح وہ روایت سے باغی بن کر سامنے آئے اور شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کے شکوک وشبہات کو تقویت دیتے رہے، اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
میں مدرسہ ڈسکورسز سے متعلق منفی تاثر قائم کرنے والے مذکورہ تینوں امور کے بارے میں پوری دیانت داری کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ یہ تینوں ہی محض اتفاقات ہیں نہ کہ کوئی سوچی سمجھی سکیم۔ ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب اگر امریکہ کی بجائے کسی مشرقی ملک میں ہوتے تو شاید انہیں ان چیلنجز کا ادراک ہی نہ ہوتا جو وہ اس دنیا میں رہ کر دیکھ رہے ہیں۔ اچھا اور مخلص مسلمان ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پاکستانی بھی ہو، انڈیا، امریکہ یا کسی بھی غیر اسلامی ملک میں پاکستانیوں جیسے یا ان سے بھی زیادہ مخلص مسلمان ہو سکتے ہیں۔
مولانا عمار خان ناصر صاحب کی طرح ان سے پہلے بھی بہت سے اہل علم لگی بندھی سوچ سے ہٹ کر سوچتے رہے ہیں لیکن اپنی متفردانہ رائے کا کھل کر اظہار نہیں کر سکے لیکن عمار صاحب یہ "غلطی” کر گئے جو بہت ہی خیر کا سبب بن رہی ہے اور مزید بنے گی ان شاءاللہ۔
رہی بات پہلے بیچ کے چند فضلاء کی تو اس کا ادراک مدرسہ ڈسکورسز کی انتظامیہ کو بھی ہے اور حالیہ ورکشاپ کی آخری نشست میں برادرم منصور احمد صاحب نے بھی سب کے سامنے اس کا اظہار کیا اور امیج بلڈنگ سے متعلق ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب کو متوجہ کیا، انہوں نے مسند احمد کی ایک حدیث کا حوالہ بھی دیا جس کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر ایک شخص کے جہنمی ہونے کا فیصلہ کر دیتے ہیں لیکن چونکہ اس کے حق میں لوگوں کی گواہی مثبت ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ لوگوں کی گواہی کو دیکھتے ہوئے اسے جنتی قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے بھی مدرسہ ڈسکورسز کی انتظامیہ کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ان حضرات کی کوششوں کو بار آور بنائے اور امت کی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں اسے ذریعے کے طور پر قبول فرمائے۔
آمین